اورنج لائن افسانے سے حقیقت تک

اورنج لائن نے بلا شبہ لاہور کو بین الاقوامی بڑے شہروں کے ہم پلہ کھڑا کیا ہے۔


[email protected]

جمہوریت ہی بہترین طریقہ انتخاب بھی ہے۔ جمہوریت ہی بہترین انتقام بھی ہے۔ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت پھر بھی بہتر قرار دی جاتی ہے۔ جمہوریت کی بنیاد ووٹ کا تقدس ہے۔ لیکن ووٹ دینے کا معیار کیا ہونا چاہیے۔ یہ سوال ہمیشہ سے اہم رہا ہے کہ عوام کو ووٹ کس معیار کے تحت دینا چاہیے۔ کیا ووٹ حسین وعدوں اور پرکشش نعروں کی بنیاد پر دینا چاہیے یا ووٹ کا معیار کارکردگی ہونا چاہیے۔

بہر حال پاکستان کے عوام پرکشش نعروں اور حسین خوابوں کی بنیاد پر بہت ووٹ دے چکے اب انھیں کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہیے۔ ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کی کارکردگی ان کے سامنے ہے۔ جن کو پیپلزپارٹی کو ووٹ کرنا ہے وہ سندھ کی کارکردگی دیکھ لیں یا پیپلزپارٹی کا گزشتہ دور حکومت دیکھ لیں۔ کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت کے پانچ سال ان کی کارکردگی جانچنے کا بہترین پیمانہ ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی پنجاب کی اور مرکز کی کارکردگی اس کو ووٹ ڈالنے کا بہترین پیمانہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس ضمن میں ایک نئی صورتحال بھی سامنے ہے۔ نواز شریف جو مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم رہے ہیں نا اہل ہو چکے ہیں۔ اور اب مسلم لیگ (ن) کی وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف ہیں۔ شہباز شریف کی کارکردگی جانچنے کے لیے ہمیں پنجاب کو سامنے رکھنا ہے۔ پنجاب کا سندھ اور کے پی کے سے موازنہ ہی دراصل 2018ء کے انتخابات کی بنیاد ہونا چاہیے۔

پنجاب سندھ اور کے پی کے، کے درمیان موازنہ کے بہت سے پیمانے مقرر کیے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ ایک بنیاد طے کریں تو دوسرا فریق کہہ سکتا ہے کہ یہ میری ترجیح ہی نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی منصوبہ تینوں صوبوں میں شروع کیا گیا ہے تو اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تینوں کی ترجیحات میں شامل ہے۔

تحریک انصاف جو پہلے پنجاب کے ماس ٹرانزٹ عرف عام میں میٹرو منصوبوں پر تنقید کرتی رہی اب پشاور میں خود میٹرو بنا رہی ہے۔ کراچی میں بھی ماس ٹرانزٹ منصوبوں کی اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ اس لیے اس ضمن میں ماس ٹرانزٹ منصوبے ایک ایسا پیمانہ ہو سکتے ہیں جس پر تینوں کی کارکردگی کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔

لوڈ شیڈنگ بھی پاکستان کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ صوبائی خود مختاری کی اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اپنے بجلی کے منصوبے لگانے اور بجلی بنانے کی مکمل آزادی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب جب صوبائی خود مختاری کے نام پر تمام معاملات صوبوں نے مرکز سے چھین لیے ہیں۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وسائل صوبے لے جائیں اور ذمے داری وفاق پر ڈال دیں ۔

گزشتہ انتخابات کے موقع پر پیپلزپارٹی کو پنجاب کی شہباز شریف کی حکومت سے سب سے بڑا گلہ یہی تھا اس نے میٹرو بنا دی ہے بجلی کا منصوبہ نہیں بنایا ہے۔ عمران خان بھی شہباز شریف پر تنقید کرتے نہیں تھکتے تھے کہ یہ لوڈ شیڈنگ پر احتجاج تو کر رہے ہیں لیکن انھوں نے بجلی کا ایک منصوبہ بھی نہیں لگایا۔ اس طرح بجلی کے منصوبے بھی ایک ایسا پیمانہ ہو سکتا ہے جس پر تینوں کی کارکردگی کو جانچا جا سکتا ہے۔

پشاور میں ماس ٹرانزٹ منصوبہ تاخیر کا ہی نہیں بلکہ تنازعات کا بھی شکار ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے خود ہی اس منصوبہ کے سربراہ کو برطرف کر دیا ہے۔ اس منصوبے کے لیے پیسے فراہم کرنے والے عالمی ادارے بھی اس برطرفی پر پریشان ہیں۔

اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہ منصوبہ اپنی مقررہ مدت میں ہی نہیں بلکہ انتخابات سے قبل بھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے کے مصداق تحریک انصاف کو اس کی اہمیت کا احساس دیر سے ہوا۔ بہر حال پشاور میٹرو منصوبے کی وجہ سے اس وقت تحریک انصاف کو پشاور میں ووٹ نہیں مل سکیں گے۔ اول تو دیر سے شروع کیا گیا دوسرا شاید تجربہ کی بھی کمی تھی اور پنجاب سے مدد لینے میں وہ اپنی توہین سمجھتے تھے۔ یہ منصوبہ تو ابھی اس شکل میں بھی نہیں ہے کہ اس سے اندازہ ہی لگایا جا سکے کہ یہ کیا ہو گا۔ بس سارا شہر ٹوٹا ہوا ہے، گرد و غبار ہے۔

سندھ کے کسی اور شہر میں تو میٹرو اور ماس ٹرانزٹ منصوبے شروع نہیں کیے گئے بلکہ کراچی میں بھی اس ضمن میں باتوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ پانچ بسیں چلا کر میڈیا کے سامنے ایسے کھڑے تھے جیسے کوہ ہمالیہ سر کر لیا ہو۔ کہانی تو یہ بھی ہے کہ کراچی میں بسیں آنی تھیں لیکن بس فراہم کرنے والی کمپنی نے مٹھائی دینے سے انکارکر دیا۔

اس لیے اس کو ٹھیکہ نہیں دیا گیا اور بسیں نہ آسکیں۔ اس کے مقابلے میں پنجاب میں اسپیڈو بس کامیابی سے چل رہی ہے اور اس کا دائرہ کار چھوٹے اور دیگر شہروں تک بڑھا دیا گیا ہے۔ سندھ کی حکومت کا یہ شکوہ ہے کہ مرکز نے کراچی میں ماس ٹرانزٹ کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ لاہور میں پہلے میٹرو منصوبے میں اس وقت کی پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے کس قدر مدد کی تھی۔

مدد تو دور کی بات رکاوٹ ہی ڈالی گئی تھی۔ اسی طرح پنجاب میں ملتان اور راولپنڈی میں بھی میٹرو منصوبے پنجاب نے اپنے وسائل سے بنائے ہیں۔ ان میں مرکز نے کوئی مدد نہیں کی ہے بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی میٹرو میں بھی پنجاب نے اپنے حصہ کے پیسے ڈالے ہیں۔ اس لیے اگر کراچی اور سندھ میں ماس ٹرانزٹ کا کوئی منصوبہ نہیں بن سکا تو یہ سندھ حکومت کی ناکامی ہے۔

اب پنجاب کی بات کر لیں تو شہباز شریف نے میدان مار لیا ہے۔ لاہور میں اورنج لائن کے آزمائشی آغاز نے شہباز شریف کے اس منصوبہ کو بھی تقریباً مکمل کر لیا ہے۔ اورنج لائن پر بھی شہباز شریف کے مخالفین بہت تنقید کرتے تھے لیکن تمام تر رکاوٹوں ، سازشوں اور تنقید کے باوجود شہباز شریف نے اس منصوبے کو مکمل کر لیا ہے۔ بلاشبہ یہ لاہوریوں کے لیے ایک بڑا تحفہ ہے۔

اگر یہ منصوبہ ایک لمبی عدالتی لڑائی میں نہ پھنس جاتا تو آج سے کئی ماہ پہلے مکمل ہو جاتا۔ خیر یہ سوال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کئی ماہ اس کا فیصلہ بھی کیوں محفوظ رہا۔ تاہم پھر بھی یہ منصوبہ مکمل ہو گیا ہے۔ جب لاہور میں پہلا میٹرو منصوبہ شروع ہوا تھا تو سب سیاسی جماعتوں نے طوفان اٹھا دیا تھا۔

ایسا لگ رہا تھا کہ شہباز شریف نے میٹرو شروع نہیں کی بلکہ کوئی جرم کر دیا ہے۔ لیکن آج سب اسی میٹروکے معترف ہو چکے ہیں۔ جو کل میٹر و کو گالیاں دے رہے تھے آج بنا رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج جو اورنج لائن کو برا بھلا کہہ رہے ہیں وہ کل اس کی تعریف کر رہے ہوں گے ۔ بہر حال اورنج لائن لاہور ہی نہیں پاکستان کے لیے ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ اس میں غریب آدمی سفر کرے گا۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف اپنی دھن اور مشن کے پکے ہیں۔سیاست میں مخالفت نہ ہو تو اس کا حسن ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر شہباز شریف کے منصوبوں کی مخالفت نہ ہو تو ان منصوبوں کا لطف ہی ختم ہو جائے۔ اورنج لائن نے بلا شبہ لاہور کو بین الاقوامی بڑے شہروں کے ہم پلہ کھڑا کیا ہے۔ یہ لاہور کے ماتھے کا جھومر ہو گی۔ جیسے لاہور میں میٹرو بننے کے بعد سب میٹرو بنانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

اسی طرح اب اورنج لائن کے بعد ملک بھر میں اورنج لائن منصوبوں کے لیے آواز اٹھے گی۔ آج کراچی میں لاہور اور پنجاب کے ترقیاتی کاموں پر بات ہو رہی ہے۔ کراچی میں لوگ لاہور کی مثالیں دے رہے تھے۔ اب اورنج لائن کی بھی مثالیں دی جائیں گی۔ بہر حال یہ کہا جا سکتا ہے کہ اورنج لائن ایک افسانہ سے حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔

اسی طرح اگر بجلی کے منصوبوں کی بات کی جائے تو اس ضمن میں بھی شہباز شریف اور پنجاب کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ پنجاب نے اپنے وسائل سے بجلی کے منصوبے لگا کر ایک نئی تاریخ اور مثال قائم کی ہے۔

پاکستان میں پہلا سولر پلانٹ پنجاب نے اپنے وسائل سے لگایا ہے، اسی طرح ایل این جی سے بجلی بنانے کے منصوبے بھی پنجاب نے اپنے وسائل سے لگائے ہیں۔ اس ضمن میں کے پی کے کی کارکردگی سب سے بری ہے وہ خود صرف پندرہ میگاواٹ کے دعویدار ہیں۔ اسی طرح سندھ میں سی پی کے تحت تو منصوبے لگے ہیں لیکن سندھ نے اپنے وسائل سے کوئی منصوبہ مکمل نہیں کیا ہے۔ تھر کوئلہ سے بجلی کا منصوبہ سندھ حکومت نے شروع کیا ہوا ہے لیکن ابھی اس سے بجلی کی پیداوار شروع نہیں ہوئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں