چین میں صنعتی ملازمین برین سینسرز سے آراستہ ہیلمٹ پہننے پر مجبور

ندیم سبحان میو  جمعرات 14 جون 2018
ملازمین کے یہ ’ نگران ہیلمٹ‘ ان صنعتوں میں استعمال کیے جارہے ہیں جہاں کارکنان کو کام کرتے ہوئے زیادہ دبائو کا سامنا رہتا ہے۔ فوٹو : فائل

ملازمین کے یہ ’ نگران ہیلمٹ‘ ان صنعتوں میں استعمال کیے جارہے ہیں جہاں کارکنان کو کام کرتے ہوئے زیادہ دبائو کا سامنا رہتا ہے۔ فوٹو : فائل

چین میں کمپنیاں ملازمین کے جذبات پر نظر رکھنے کے لیے برین سینسرز سے کام لے رہی ہیں۔

کچھ تعمیراتی، مصنوعات ساز اور ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے ملازمین کو ایسے ہیلمٹ پہننے کا پابند کردیا گیا ہے جن کے اندر دماغ میں جاری سرگرمیوں کونوٹ کرنے والے حساس سینسر نصب ہوتے ہیں۔ یہ ہیلمٹ مصنوعی ذہانت ( آرٹیفشل انٹیلی جنس) کی ٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے کارکنان کے جذبات پر نظر رکھتے ہیں۔

دماغی لہروں میں اتار چڑھائو کو پریشانی، تھکن، اور اداسی جیسے جذبات سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ملازمین کے یہ ’ نگران ہیلمٹ‘ ان صنعتوں میں استعمال کیے جارہے ہیں جہاں کارکنان کو کام کرتے ہوئے زیادہ دبائو کا سامنا رہتا ہے جیسے تعمیراتی کمپنیوں کے ملازمین، بجلی گھروں میں کام کرنے والے الیکٹریشن اور تیزرفتار ریل گاڑیوں کے کنڈکٹر وغیرہ یہ ہیلمٹ پہننے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

ہیلمٹ میں نصب سینسرز میں ایک اضافی خوبی رکھی گئی ہے۔ اگر یہ محسوس کریں کہ جس کارکن کے سر پر موجود ہیں اسے نیند آنے لگی ہے تو اسے چوکس کرنے کے لیے فوراً الارم بجا دیں گے۔ سر کے اوپر الارم بجتے ہی کارکنان کی نیند اُڑن چُھو ہوجائے گی۔ اسٹیٹ گرڈ ژی جیانگ الیکٹرک پاور نامی بجلی فراہم کرنے والی کمپنی نے ’ جذباتی نگرانی‘ کے اس پروگرام کو مفید قرار دیا ہے۔ کمپنی کے ترجمان نے چینی ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کاروبار کو اچھے طریقے سے چلانے میں یہ ہیلمٹ مفید ثابت ہوئے ہیں۔ کمپنی یہ ہیلمٹ 2014ء سے استعمال کررہی ہے۔ ترجمان کے مطابق پچھلے تین سال کے دوران کمپنی کے منافع میں 315 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔

ایک چینی رونامے کے مطابق بارہ سے زائد کمپنیاں دماغی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی یہ ٹیکنالوجی استعمال کررہی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی سرکاری فنڈز سے پایۂ تکمیل کو پہنچنے والے ’ پروجیکٹ نیورو کیپ‘ کی مرہون منت ہے۔ یہ پروجیکٹ ننگ بو یونی ورسٹی سے وابستہ سائنس دانوں نے مکمل کیا تھا۔ ننگ بو یونی ورسٹی میں برین سائنس کے پروفیسر جن جیا نے چینی روزنامے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدا میں صنعتی کارکنان مخصوص ہیلمٹوں کو پہنتے ہوئے گھبرا رہے تھے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان میں نصب آلات کے ذریعے ہم ان کے خیالات جان لیں گے۔ تاہم چند روز کے بعد وہ ان کے عادی ہوگئے۔ پھر وہ سارا دن انھیں پہنے رہتے تھے۔

اس عجیب و غریب منصوبے کے حوالے سے کمپنیوں کا موقف یہ ہے کہ اس سسٹم کے ذریعے کارکنان کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہوئے ان کی بہتر تربیت کی جائے گی۔ اس طرح رقم کی بچت بھی ہوگی۔ تاہم کمپنیوں کے اس اقدام پر تنقید بھی کی جارہی ہے کہ اس منصوبے سے ملازمین کے ذہنی دبائو میں اضافہ ہورہا ہے۔

اس منصوبے کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ ہیلمٹ جس کارکن کے بہت زیادہ ذہنی دبائو میں ہونے کی نشان دہی کرتے ہیں، کمپنی اسے جبری رخصت پر بھیج دیتی ہے، اور ان چھٹیوں کی ان کی تنخواہوں میں سے کٹوتی بھی کرلی جاتی ہے۔ مسلسل ذہنی دبائو میں رہنے والے ملازمین کو نکال بھی دیا جاتا ہے یا پھر ان کی تنزلی کردی جاتی ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ پروفیسر جیا کے مطابق اس نظام میں خامی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ممکن ہے کہ بعض اوقات سینسرز کسی وجہ سے کوئی گڑبڑ کرجائیں اور ذہنی و جسمانی طور پر تازہ دم کارکن کو تھکاوٹ اور دبائو کا شکار ظاہر کردیں۔ اس کے پیش نظر ممکن ہے کہ اب تک کتنے ہی ملازمین کے ساتھ ناانصافی ہوچکی ہو۔

چین میں اس ضمن میں کوئی قواعد و ضوابط موجود نہیں ہیں کہ آجر اپنے ملازمین پر کس کس انداز سے نظر رکھ سکتا ہے، نا ہی وہاں اس ہیلمٹ جیسے آلات کے استعمال کو محدود رکھنے کے بارے میں کوئی قانون ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔