چوہدری نثار علی خان کے سیاسی آپشنز

چوہدری نثار علی خان کا بھی خیال تھا کہ تحریک انصاف جوائن کرنے سے بہتر ہے آزاد ہی رہ جاؤں۔


مزمل سہروردی June 19, 2018
[email protected]

ایک سوال ہر ایک ذہن میں ہے کہ چوہدری نثار علی خان کیا کر رہے ہیں۔ جو وہ کر رہے ہیں وہ نا قابل فہم ہے۔ وہ نہ ن لیگ چھوڑ رہے ہیں اور نہ ہی اس میں رہنے والا کوئی کام کر رہے ہیں۔ آخر چوہدری نثار علی خان ناراض ہوکر کب تک بیٹھے رہیں گے۔ وہ کب تک انتظار کریں گے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت انھیں منانے آجائے ۔ سیاست میں معاملات ایسے نہیں چل سکتے۔ سیاست میں موقع پر کیے گئے فیصلوں کی ہی قیمت ہوتی ہے۔ آپ اس طرح فیصلوں کو لٹکا نہیں سکتے۔

ایک عام فہم سیاسی ذہن یہی سوچتا ہے کہ نواز شریف سے اتنی شدید لڑائی کے بعد انھیں تحریک انصاف کی کشتی میں سوار ہوجانا چاہیے تھا۔ آج سے کم از کم ایک ماہ قبل بلکہ اس سے بھی پہلے عمران خان کے لاہور والے جلسہ میں ہی تحریک انصاف جوائن کر لینی چاہیے تھی۔ عمران خان خود انھیں کئی بار تحریک انصاف جوائن کرنے کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ لاہور کے جلسہ سے پہلے عمران خان نے ن لیگ کی ایک بڑی وکٹ گرانے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ ایک عمومی قیاس آرائی یہی تھی کہ یہ بڑی وکٹ چوہدری نثار علی خان کی ہی ہوگی۔ بعد ازاں ایک انٹرویو میں عمران خان نے بالواسطہ تصدیق کی کہ ان کی چوہدری نثار علی خان سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود انھوں نے تحریک انصاف جوائن نہیں کی۔

ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ کیوں نہیں کی۔ دوست بتاتے ہیں کہ عمران خان تو تیار تھے لیکن تحریک انصاف کی باقی قیادت انھیں اگلی صفوں میں بٹھانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس کے بعد چوہدری نثار علی خان کے پاس ایک عام کارکن کی طرح تحریک انصاف جوائن کرنے کا آپشن تھا۔ جس میں کوئی عہدہ اور سربراہی نہیں تھی۔ انھیں عمران خان کا نمبر ٹو بنانے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ جو نمبر ٹو تھے وہ کہہ رہے تھے کہ اب پکی پکائی کھیر چوہدری نثار علی خان کے حوالے نہیں کی جا سکتی۔

ادھر چوہدری نثار علی خان کا بھی خیال تھا کہ تحریک انصاف جوائن کرنے سے بہتر ہے آزاد ہی رہ جاؤں۔بغیر کسی بڑی عزت کے تحریک انصاف جوائن کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسے میں چوہدری نثار علی خان کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا کہ وہ آزاد ہی الیکشن لڑتے۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں کوئی ایسی جماعت نہیں جو چوہدری نثار علی خان کا سیاسی بوجھ برداشت کر سکتی۔ پیپلز پارٹی میں وہ جا نہیں سکتے، باقی سیاسی جماعتیں ان کے سیاسی قد کاٹھ سے چھوٹی تھیں۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ اپنی سیاسی جماعت بنا لیتے۔ لیکن شاید اس کے لیے دیر ہو گئی تھی۔ ویسے تو ہر عام آدمی کو صاف نظر آرہا تھا کہ اب چوہدری نثار علی خان کی ن لیگ میں سیاسی اننگ ختم ہو گئی ہے۔ لیکن پھر بھی واقف حال بتاتے ہیں کہ درمیان میں بات چیت کے ایسے کئی موڑ آئے جب بات بنتے بنتے رہ گئی۔ ان کے ہمدرد اگر ان کی واپسی کی کوئی جگہ بناتے بھی تھے تو ان کا ایک بیان اس کو خراب کر دیتا۔ کہا جا سکتا ہے کہ پرویز رشید نے خوب اننگ کھیلی۔ وہ چوہدری نثار علی خان کو گفتگو میں ایسی جگہ لے گئے جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں تھی۔

سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا۔ وہ آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں۔ آگے کا منظر نامہ کیا ہے۔ایک عام خیال یہ ہے کہ اگر اگلے انتخابات میں آزاد ایک مناسب تعداد میں جیت گئے تو چوہدری نثار علی خان اس آزاد گروپ کی قیادت کر سکتے ہیں ۔ دوست کہتے ہیں کہ ان کے تحریک انصاف جوائن کرنے کی ساری کہانی ہی غلط ہے۔ ان کے پاس اسکرپٹ ہی آزاد الیکشن لڑنے کا ہے۔ آپ دیکھیں گے اس وقت غیر اہم لگنے والے چوہدری نثار علی خان الیکشن کے بعد اہم ہو جائیں گے۔ قومی اسمبلی میں سنجرانی کے آنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ایک ایسی پارلیمنٹ آرہی ہے جس میں کسی کی اکثریت نہیں ہو گی ۔ اس میں چوہدری نثار علی خان آزاد ارکان اور بلوچستان کے ارکان کے ساتھ مل کر ایک بڑے گروپ کی قیادت کریں گے۔

لیکن مجھے یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ کیسے چوہدری برادران چوہدری نثار علی خان کی قیادت قبول کر لیں گے۔ وہ بھی دوستوں کے برابر کے قریب ہیں۔ وہ کبھی بھی چوہدری نثار علی خان کو دولہا نہیں بننے دیں گے۔ وہ کہاں جائیں گے۔ باقی بھی پنجاب سے جو لوگ آزاد لڑ رہے ہیں۔

وہ چوہدری نثار علی خان کی قیادت قبول نہیں کریں گے۔ بوسن کو قبول نہیں ہوگی۔ ویسے تو ابھی تک کے سیاسی منظر نامے میں کسی بڑے آزاد گروپ کے سامنے آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ سیاسی جماعتوں کی حتی ا لامکا ن کوشش نظر آرہی ہے کہ آزاد گروپ سامنے نہ آسکے۔ کیونکہ ایسا آزاد گروپ ہر سیاسی جماعت کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ سب نے سینیٹ میں دیکھا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں آیا۔ ایک سنجرانی میلہ لوٹ کر لے گیا۔ باقی سب ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اس لیے کوئی بھی سیاسی جماعت سمیت تحریک انصاف اور ن لیگ کسی بھی آزاد کو قومی اسمبلی میں پہنچنے کا آسان راستہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اسی لیے چوہدری نثار علی خان کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی جا رہی۔

ایسے میں اگر چوہدری نثار علی خان جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچ بھی جاتے ہیں تو ان کے پاس محدود آپشن ہی ہوںگے۔لیکن اگر وہ ہار جاتے ہیں تو یہ ان کی سیاست کے لیے زہر قاتل ہو سکتا ہے۔ اگلے الیکشن تک ان کا بہت نقصان ہو جائے گا۔ شاید ن لیگ اور تحریک ا نصا ف دونوں کے لیے یہ بہترین ہو گا کہ چوہدری نثار علی خان ہار جائیں۔ تا ہم یہ سیاست ہے۔ چوہدری نثار علی خان کے جیتنے کے بھی امکانات ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ گیم نہیں ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ جیت کر کیا کریں گے۔

کیا وہ جیت کر بغض معاویہ میں اپنی سیٹ عمران خان کو تحفہ میں دے دیں گے اور تحریک انصاف میں اپنی سیاست کے راستے کھول لیں گے۔ یا وہ شہباز شریف کے ساتھ آجائیں گے۔ اور اپنے دیرینہ دوست شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوانے کے لیے زور لگا دیں گے۔ آپ سب کو یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ یہ ایک ایسا منظر نامہ ہو گا جب نواز شریف کو سزا ہو چکی ہو گی۔ مریم نواز کو بھی سزا ہو چکی ہو گی۔ ن لیگ کی کمان ان کے دوست شہباز شریف کے پاس ہو گی۔ اس لیے وہ باعزت ن لیگ میں ایک رول میں واپس آسکیں گے۔ شاید شہباز شریف ان کے لیے اس موقع پر بہترین چوائس ہو ںگے۔ اس لیے اب بھی شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان راستے کھلے ہیں اور یہ راستے سرپرائز بھی دے سکتے ہیں۔

مقبول خبریں