ڈاکٹر طاہر القادری کا مقدمہ

ریاست پاکستان نے ان کے لیے سیاست کے دروازے بند کیے ہیں


مزمل سہروردی June 26, 2018
[email protected]

ڈاکٹر طاہر القادری نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اعلان کسی کے لیے بھی کوئی حیران کن نہیں ہے۔ ان کے پاس بائیکاٹ کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ ان کی جماعت ملک میں ایک سیٹ بھی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ وہ تو کونسلر کی ایک سیٹ بھی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بس دھرنا دینے کی صلاحیت ہے۔

وہ بھی اب آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ طاہر القادری نے پاکستان کی سیاست میں اپنا عروج دیکھ لیا ہے، اب وہ آہستہ آہستہ اپنے انجام کی طرف گامزن ہیں۔ لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ وہ ایک غیر ملکی شہری ہیں۔ پاکستان سیر و سیاحت کے لیے آتے ہیں۔ آتے رہیں گے۔ ان کی سیر و سیاحت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ایک طرف طاہر القادری نے بائیکاٹ کا علان کیا ہے تو دوسری طرف الطاف حسین نے بھی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ طاہر القادری اور الطاف حسین کے درمیان قدر مشترک صرف ایک ہی ہے کہ کہ دونوں غیر ملکی ہیں۔دونوں نے پاکستان کی شہریت کو چھوڑ دی ہے۔ لیکن پھر بھی الطاف حسین اور طاہر القادری کے سیاسی کیس میں بہت فرق ہے۔ الطاف حسین نے اپنی 22اگست کی تقریر سے پاکستان میں حق سیاست کھو دیا ہے۔ ان پر پاکستان کی سیاست کے دروازے بند کر دئے گئے ہیں۔

ریاست پاکستان نے ان کے لیے سیاست کے دروازے بند کیے ہیں۔ ان کے ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔ پاکستان میں اب ان کی کوئی تنظیم نہیں ہے۔ کوئی ان کے نام سے سیاست کرنے کو تیار نہیں ہے۔میڈیا میں ان کی کوریج بند ہے۔ ان کی تقریر نہ دکھائی جا سکتی ہے اور نہ ہی شایع کی جا سکتی ہے۔ اس لیے ان کے پاس بھی بائیکا ٹ کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔لیکن طاہر القادری پر ایسی کوئی قدغن نہیں ہے۔

انھیں پاکستان میں سیاست کرنے کی کھلی آزادی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کی سیاست کو دھکا دینے کے لیے کئی بار ان کی بہت مدد بھی کی گئی ہے۔ وہ اداروں کے پسندیدہ بھی رہے ہیں۔ ان کو سیاسی بیساکھیاں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ لیکن ان کی سیاسی گاڑی ایسی دھکا اسٹارٹ ثابت ہو ئی ہے ۔ شائد اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی سیاسی گاڑی کو پار ک کر کے باہر اپنے ملک چلے جاتے ہیں ۔ جب وہ واپس آتے ہیں تو گاڑی کی بیٹری ڈاون ہو تی ہے۔ اور دوبارہ دھکے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ اب دھکا لگانے والے بھی تھک گئے ہیں۔ آخردھکا دینے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔

بہر حال طاہر القادری نے اپنی مجبوریوں کے باوجود کوشش بہت کی ہے۔ وہ اکیلے ہی چھا جانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ شائد یہی ان کی ناکامی کی بڑی وجہ بھی ہے۔ ورنہ ایک موقع پر چوہدری برادران بھی ان کے ساتھ آگئے تھے لیکن وہ اپنے دھرنوں کی کامیابی کے نشہ میں ایسے دھت تھے کہ انھوں نے چوہدریوں کو دور کر دیا۔ ورنہ اگر آج چوہدری ان کے ساتھ ہوتے تو ان کی اتنی بری حالت نہ ہوتی۔ بیچارے گنڈا پور کہاں اور چوہدری برادران کہاں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کو تو گنڈا پور ہی چاہیے تھا۔ انھوں نے ہمیشہ سے اپنی جماعت میں کسی کو نہیں آنے دیا۔ وہ اپنے اور اپنے کارکنوں کے درمیان کسی کا آنا پسند ہی نہیں کرتے۔ اس لیے کسی کو آنے بھی نہیں دیتے۔

ان سب باتوں کے باوجود ڈاکٹر صاحب کا عمران خان سے گلہ جائز ہے۔ کہ اگر عمران خان نے ان سب لوٹوںکو ہی قبول کرنا تھا تو پھر دھرنا دینے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ سب کام کرنے کے لیے دھرنا دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن شائد ڈاکٹر صاحب نے اتنی دیر کر دی ہے کہ اب ان کے گلہ کی کوئی بھی کوئی قیمت نہیں رہی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بات ٹھیک کر رہے ہیں لیکن اس وقت ٹھیک بات کی کوئی بھی قیمت نہیں ہے۔ وہ ٹرین مس کر گئے ہیں۔

یہ درست ہے کہ ڈاکٹر صاحب اور عمران خان نے نواز شریف کو گرانے کے لیے اکٹھے دھرنا دیا تھا۔ لیکن یہ دھرنا اکٹھے ہونے کے باوجود اکٹھا نہیں تھا۔ تب بھی دونوں نے ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی الگ مساجد بنائی ہوئی تھیں۔جیسے میاں بیوی شادی کے بعد بھی ایک کمرے میں الگ الگ سوئیں۔ نظاہر اکٹھے لیکن اندر سے ہزاروں می کے فاصلے۔ دونوں ایک کنٹینر پر چڑھنے کو تیار نہیں تھے۔ اپنے کارکنوں کو اکٹھے کرنے کو تیار نہیں تھے۔ الگ الگ کنٹینر الگ الگ کارکنوں نے تب بھی نواز شریف کو فائدہ دیا تھا اب بھی نواز شریف کو فائدہ دیا ہے۔ بیچارے طاہر القادری کے کارکنوں نے تو ناحق خون بھی دیا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ لیکن آپ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے وہ خون بھی اپنے غیر سنجیدہ رویہ کی وجہ سے ضایع کر دیا۔

عمران خان اور طاہر القادری کبھی دل سے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں تھے۔ پہلے دن سے ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں کو زبردستی اکٹھا کیا گیا تھا۔ عمران خان کے اپنے اہداف تھے۔وہ وزیر اعظم بننا چاہتے تھے۔ نواز شریف کو گرانا چاہتے تھے۔ لیکن سسٹم کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے اسمبلیوں سے بھی جعلی استعفیٰ دئے۔ کیونکہ وہ کبھی استعفیٰ دینے میں سنجیدہ ہی نہیں تھے۔ کے پی کی حکومت کو پہلے دن سے رکھنا چاہتے تھے، اس لیے شیر پاؤ جیسے اتحادی کو بھی ساتھ رکھتے ہوئے اپنی حکومت قائم رکھی۔ جب کہ ڈاکٹر صاحب تو سب کچھ لپیٹنے کے چکر میں تھے۔ انھیں نظام اور سسٹم میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ دونوں کا اسکرپٹ ایک تھا ہی نہیں۔ اس لیے کامیابی بھی نہیں ملی۔

ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ایک رائے یہ بھی رہی ہے کہ وہ جب بھی ملک واپس آتے ہیں انھیں کوئی نہ کوئی اشارہ ہوتاہے۔ ان کی تمام سیاسی سرگرمیاں اشاروں سے شروع ہو کر اشاروں پر ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ان کا عروج بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اور اب زوال بھی کسی کی سمجھ میں نہیں ہے۔ جس طرح عروج مصنوعی تھا۔اس طرح زوال بھی مصنوعی ہی لگ رہا ہے۔دھرنا دیکھ کر لگتا تھا کہ اشارہ ہے ۔ آج کی مفلسی دیکھ کر لگتا ہے کہ کبھی کوئی اشارہ تھا ہی نہیں۔ شائد اشارہ دینے والوں نے بھی پہلے دن سے ہی طے کیا ہوا تھا کہ انھیں کوئی سیاسی کردار نہیں دینا۔ورنہ ایک سیٹ تو دی ہی جا سکتی تھی۔لیکن شائد اس کے لیے ڈاکٹر صاحب کو اپنی غیر ملکی شہریت چھوڑنی پڑتی جس کے لیے وہ تیار نہیں تھے اور اپنے سوا کسی کو سیٹ دلوانے میں انھیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر داکٹر صاحب یہ سب کیوں کرتے ہیں۔ کیا وہ اتنے سادہ ہیں کہ آرام سے استعمال ہو جاتے ہیں اور بدلے میں انھیں کچھ نہ بھی ملے تو بھی برا نہیں مناتے۔ انھوں نے پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا۔ جس کے بارے میں بھی یہی خیال تھا کہ اشارے تھے۔ پھر نواز شریف کے خلاف دھرنا دیا جس پر بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اشارہ تھا۔ لیکن یہ ڈاکٹر صاحب کی کیسی یک طرفہ محبت ہے کہ جواب میں کچھ ملتا نہیں ہے۔ یا یہ مان لیا جائے کہ ملنے کے حوالے سے بھی جو کہانیاں ہیں وہ سچی ہیں۔کیونکہ پاکستان میں تو کچھ ملتا نظر نہیں آتا۔

ایک دوست پوچھ رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی کہانی اب ختم ہو گئی ہے۔ ان کا پاکستان کی سیاست میں کردار ختم ہو گیا ہے۔ میں نے کہا کہ میں نہیں مانتا۔ ڈاکٹر صاحب کئی بار ڈوبے اور کئی بار ابھرے ہیں۔ یہی ان کا کمال ہے کہ وہ مر کر بھی زندہ ہوجاتے ہیں۔وہ اب بھی دوبارہ زندہ ہو سکتے ہیں۔ اور ممکن ہے کہ اب وہ عمران خان کے خلاف زندہ ہو جائیں۔ کیونکہ انھوں نے عمران خان کے خلاف اپنے مقدمے کی بنیاد تو رکھ دی ہے۔ بات چل نکلی ہے اب دور تک جائے گی۔ اب ڈاکٹر صاحب کا ہدف عمران خان ہی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ پیپلزپارٹی اور نواز شریف کے خلاف دھرنے دے چکے ہیں۔ اب باری عمران خان کی ہے۔

مقبول خبریں