انتخابات 2018ء اور عوامی بیداری

مبین مرزا  اتوار 15 جولائی 2018
انتخابات میں ایسے لوگوں کو مسترد کرنا چاہیے جن کے بارے میں حقائق منظرِعام پر آجائیں۔ فوٹو : فائل

انتخابات میں ایسے لوگوں کو مسترد کرنا چاہیے جن کے بارے میں حقائق منظرِعام پر آجائیں۔ فوٹو : فائل

ہمارے یہاں اِس وقت سیاسی انتخابی موسم اپنے جوبن پر ہے۔ جس طرف دیکھیے گرما گرمی نظر آتی ہے۔ کہیں جلسہ ہورہا ہے تو کہیں جلوس گزر رہا ہے۔ کہیں منشور کا اعلان ہورہا ہے تو کہیں ملک و قوم کی خدمت کے عہد و پیماں باندھے جارہے ہیں۔ کہیں اپنی کارگزاری بیان کی جارہی ہے تو کہیں مخالفین کے خلاف استغاثہ پڑھ کر سنایا جارہا ہے۔ کہیں نعرے ہیں تو کہیں تالیاں۔ غرض یہ کہ سیاسی میدان میں رنگ برنگے کھیل تماشے جاری ہیں۔

ہر انتخابی موسم میں ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، تاہم یہ بھی ماننا چاہیے کہ اس جدید دور کی آسائشوں اور الیکٹرونک آلات نے اس کھیل کی رونق کا رنگ ایک حد تک تو ضرور بدل کر رکھ دیا ہے۔ کہیں یہ رنگ دوبالا ہوگیا ہے اور کہیں تہ و بالا۔ زمانے کی تبدیلیاں اسی طرح افراد اور حالات پر بھی تبدیلی کا رنگ جماتی ہیں۔

انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے، اس کے بارے میں سیاسی جماعتیں اپنا اپنا مؤقف اپنے اپنے انداز اور دلائل کے ساتھ پیش کررہی ہیں۔ ایک طرح سے یہ بھی اپنے ووٹ بینک کو بڑھانے یا قائم رکھنے کا طریقہ، یعنی نفسیاتی حربہ ہے۔ خیر، سیاسی جماعتیں اور اُن کے معاملات اور انتخابی حکمتِ عملی اپنی جگہ، لیکن سیاسی صورتِ حال کے بارے میں اس بار عوامی شعور بھی ذرا مختلف انداز سے کام کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔

اس شعور کا اظہار مختلف شکلوں میں ہورہا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ دیکھنے میں آئی کہ سیاسی رہنما اپنے انتخابی حلقوں میں گئے تو لوگوں نے ان کے سامنے پوری جرأت کے ساتھ اپنی شکایات پیش کیں۔ ان پر اعتراضات کیے گئے۔ ان سے سوالات کیے گئے کہ وہ فلاں بات کا جواب دیں یا فلاں مسئلے کی وضاحت کریں۔ بعض حلقوں میں عوامی غصہ بھی دیکھنے میں آیا، جہاں سیاسی شخصیات کا استقبال غصے اور ردِعمل کے اظہار کے ساتھ کیا گیا۔ شکایت اور ردِعمل کے یہ مظاہرے مسلم لیگ ن، تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جیسی اہم اور خاص ووٹ بینک رکھنے والی جماعتوں کے سلسلے میں دیکھے گئے۔ حالاتِ حاضرہ کے اس رخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں 2018ء کا یہ الیکشن ایک حد تک سیاسی اور انتخابی مزاج بدلنے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ ہم نے اس مرحلے تک آنے میں بہت وقت لگایا۔ یہ کام تو اس سے کہیں پہلے شروع ہوجانا چاہیے تھا۔ اگر ہوجاتا تو ہمیں بحیثیت قوم وہ قیمت ادا نہ کرنی پڑتی جو ہم نے گذشتہ نصف صدی میں ادا کی۔ آج پاکستان کا بچہ بچہ قرض کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ یقیناً یہ سب ہمارے سیاست دانوں کا کیا دھرا ہے، لیکن اس میں ہم نے خود بھی ایک کردار ادا کیا ہے، اور ہم سے مراد ہے عوام۔ ہمارا کردار یہ ہے کہ ہم نے سیاست کو صرف اور صرف کچھ لوگوں پر چھوڑ دیا۔ یہ بالعموم مال دار، جاگیردار، وڈیرے قسم کے لوگ ہیں۔ گذشتہ چھے دہائیوں کی قومی سیاسی تاریخ سامنے رکھ لیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہمارے ملک میں سیاست کچھ خاندانوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

نسل در نسل ملک کی باگ ڈور اور عوام کا مستقبل انھی خاندانوں کے ہاتھ میں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست ہمارے یہاں طاقت اور پیسے کا مکروہ اور گھناؤنا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ ان خاندانوں کے اقتداری دور میں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ اس قوم اور ملک کو موروثی جائیداد کا حصہ سمجھتے ہیں، اس لیے ان کے بارے میں عوامی فلاح، ترقی اور خوش حالی کے نقطۂ نظر سے نہیں سوچتے، بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ان کے ذریعے کیا کیا فائدے اٹھا سکتے ہیں اور اپنی دولت میں کب، کیسے اور کتنا اضافہ کرسکتے ہیں۔ ان کی یہ سوچ اور طرزِعمل ملک اور عوام کے حق میں زہرِقاتل ثابت نہ ہو تو اور کیا ہو۔

یہ چند اقتداری خاندان نہ صرف اپنی دولت میں اندھا دھند اور بے حد و حساب اضافہ کرتے رہے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی طاقت بڑھانے کے لیے وہ سیاست اور اقتدار میں اپنے خاندان کے افراد کو بے دریغ شامل کرتے رہے ہیں۔ اقتدار کے زمانے میں اس طاقت کا مظاہرہ مختلف شکلوں میں ہوتا ہے۔ تاہم اس کی ایک شکل ایسی ہے جسے ہم بہ طورِ خاص انتخابات کے موقع پر دیکھتے ہیں۔

یہ شکل اُس وقت سامنے آتی ہے جب ایک سیاست داں اپنے عوامی رسوخ، شخصی پذیرائی اور سیاسی مقبولیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ہمارے یہاں اکثروبیشتر لوگ اس مسئلے پر سوچتے ہی نہیں، حالاںکہ سوچنا اور غور کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اپنی سیاسی طاقت اور عوامی مقبولیت کا مظاہرہ تو بے شک ایک سیاست داں کرتا ہے، لیکن اُس کے ایسے ہر تماشے کی قیمت بہرحال ملک اور قوم ادا کرتے ہیں۔ کیا سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ملک و قوم آخر یہ بوجھ بلاوجہ اور بے ضرورت کیوں اٹھا رہے ہیں۔

ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ یہ سیاسی طاقت اور عوامی مقبولیت ہے کیا اور اس کا مظاہرہ کس طرح ہوتا ہے؟ انتخابات کے موقع پر آپ بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں یا کچھ بہت نمایاں قسم کے راہ نماؤں کو ایک سے زیادہ حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کوئی دو حلقوں سے کوئی تین حلقوں سے، اور کوئی چار حلقوں سے کھڑا ہوتا ہے۔ پارٹی کی انتخابی حکمتِ عملی میں اس کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے کہ اس کا سربراہ یا اُس کے عزیزواقارب میں جو شخص ایک سے زائد حلقوں سے انتخاب میں حصہ لے رہا ہے، وہ کسی حلقے میں شکست سے دوچار نہ ہو۔

ہوتا بھی یہی ہے کہ وہ سبھی حلقوں سے جیت جاتا ہے۔ کم کم ہی سہی، مگر دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ تین چار نشستوں سے کھڑا ہونے والا شخص کسی ایک آدھ نشست پر ہار بھی جاتا ہے۔ انتخابات میں چوںکہ عوامی سائیکی اور ماحول دونوں ہی ایک اور انداز سے کام کرتے ہیں، اس لیے بڑے سیاسی راہ نما جس جس حلقے سے کھڑے ہوتے ہیں، وہاں حسبِ دل خواہ نتائج حاصل کرنے میں عام طور سے کام یاب ہوجاتے ہیں، حالاںکہ یہ خیال غلط ہے، لیکن چلیے مانے لیتے ہیں کہ اس طرح لیڈر کی سیاسی طاقت اور عوامی مقبولیت تو ثابت ہوجاتی ہے، لیکن اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے، وہ ایک نشست رکھنے کا آئینی حق دار ہوتا ہے۔ باقی نشستیں خالی ہوجاتی ہیں جہاں پر بعدازاں ضمنی انتخاب ہوتا ہے، جن میں پارٹی اپنے ووٹ بینک کے ذریعے من پسند لوگوں کو جتوا کر اسمبلی میں پہنچا دیتی ہے۔

اب ذرا غور کیجیے کہ ضمنی انتخاب کے اخراجات کا اضافی بوجھ کس نے برداشت کیا؟ ظاہر ہے، ملک و قوم نے۔ چاہیے کہ اس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ پہنچا؟ قطعاً نہیں۔ فائدہ سارا صرف اور صرف سیاسی راہ نما اور اس کے خاندان، عزیز و اقارب یا منظورِنظر لوگوں کو پہنچتا ہے۔ ایسی نشستوں سے جو لوگ ضمنی انتخاب کے بعد اسمبلی میں پہنچتے ہیں، وہاں ان کا کردار سراسر ایک ربراسٹیمپ کا سا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان کی اپنی کوئی سیاسی حیثیت ہوتی ہے اور نہ ہی سیاسی شعور۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری نہیں کہ سیاست میں آئندہ ایسے لوگوں کا سفر جاری بھی رہے۔

اصل میں ایسی نشستوں کے ذریعے اسمبلی میں اپنی گنتی بڑھانے کے لیے یہ سارا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ گویا ایک طرح سے یہ سیاسی حربہ اور اقتداری عیاشی کا ذریعہ ہے۔ اب ذرا سوچیے، کیا ان چیزوں کی روک تھام نہیں ہونی چاہیے؟ کیا ضمنی انتخابات کے بے وجہ اضافی اخراجات ملکی وسائل کا بے سود زیاں نہیں ہے؟ عوامی شعور اگر ایسے سیاسی ہتھکنڈوں کو سمجھ کر ان کے خلاف رائے دہی کا اظہار کرنے لگے تو کیا اس بات کا امکان اور زیادہ نہیں ہوگا کہ ہر بار اور ہر نشست سے وہ امیدوار جیت کر اسمبلی میں پہنچے گا جو حقیقت میں عوامی نمائندہ ہوگا۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے، جب اس مسئلے کو انتخابی ماحول کے دنوں میں عوامی حلقوں میں نمایاں طور سے موضوعِ گفتگو بنایا جائے۔ لوگوں کو باور کرایا جائے کہ ایک سے زائد نشستوں پر ایک ہی شخص کا جیتنا اُس کی سیاسی قوت اور عوامی مقبولیت کا مظہر نہیں ہے، اس کے برعکس یہ عوامی ووٹ کی پامالی اور ملک کے وسائل کا نقصان ہے۔

ایک اور بات پر بھی ذرا توجہ کی ضرورت ہے۔ سیاست دانوں نے میاں نوازشریف کو درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے خود کو صادق و امین ثابت کرنے اور انتخابات میں نااہلی سے بچنے کے لیے اس دفعہ الیکشن میں کسی حد تک احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے، اور اپنے اثاثہ جات کے گوشوارے میں جن اعداد و شمار کو درج کرایا ہے، وہ اس سے قبل کے ریکارڈ سے قدرے مختلف ہیں۔ یقیناً یہ ایک خوش آئند بات اور مثبت اقدام ہے۔ اس عمل سے توقع کی جاسکتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں یہ صورتِ حال مزید بہتری کا نقشہ پیش کرے گی۔ یہ بات اپنی جگہ، لیکن ذرا یہ بھی تو دیکھا جانا چاہیے کہ جو اثاثہ جات دکھائے گئے ہیں اور اُن کی جو مالیت ظاہر کی گئی ہے، کیا وہ حقیقت کے مطابق ہے؟ اس سوال کا سیدھا اور صاف جواب نفی میں ہے۔

آپ چند بڑے سیاسی راہ نماؤں کے اعدادوشمار سامنے رکھ لیجیے اور خود دیکھیے کہ وہ اپنی مالی حیثیت کیا بتا رہے ہیں اور اندازہ کیجیے کہ اپنی مالی حیثیت کے بارے میں جو کچھ وہ بتارہے ہیں، کیا وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ سچ یہ ہے کہ کسی ایک سیاست داں نے بھی اپنی درست مالی حیثیت کا اظہار نہیں کیا ہے۔ ان سب لوگوں نے خود کو جن اثاثہ جات کا مالک بتایا ہے، ان کے بل بوتے پر ملکی سیاست کے مرکزی دھارے میں آنا تو رہا ایک طرف، ایک متوسط درجے کی خوش حال زندگی کا حساب کتاب چلانا بھی ممکن نہیں ہے۔

کیا ان غیرحقیقی اعدادوشمار اور اتنے مختصر اثاثہ جات کے ساتھ سیاست کا یہ کھیل کوئی شخص اس طرح کھیل سکتا ہے، جس طرح یہ لوگ نسل در نسل کھیلتے چلے آرہے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات کا تو ذکر ہی کیا، اس مالی حیثیت کے ساتھ کوئی شخص بلدیاتی سیاست میں بھی قدم جماکر نہیں دکھا سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر پھر یہ اعدادوشمار کس کام کے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ کسی کے کام کے نہیں، سوائے الیکشن کمیشن کے۔

الیکشن کمیشن کے کام کے اس لیے ہیں کہ وہاں صرف خانہ پری ہورہی ہے۔ اگر وہاں ان اعداد و شمار کی چھان پھٹک ہو اور اُن کے غلط نکلنے کی صورت میں آدمی کو نااہلی کا سامنا کرنے پڑے تو پھر صورتِ حال تبدیل جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایک سیاست داں کے حقیقی اثاثہ جات کا حساب کتاب ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب واضح طور پر ہاں میں ہے۔ اس لیے کہ آج ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں، اس میں ہر شخص کی ہر چیز کہیں نہ کہیں ریکارڈ ہورہی ہے۔ آج کسی شخص کا کوئی کام بھی نجی یا پوشیدہ ہونا تقریباً محال ہوچکا ہے۔

جائیداد اور مال و دولت وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا، آدمی کے بہت چھوٹے اور پرائیویٹ کام بھی اب کہیں نہ کہیں کسی ڈیٹا بیس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کیا جائے کہ سیاست داں اور اس کے سارے قریبی رشتوں کی مالی حیثیت کا ریکارڈ مرتب کیا جائے اور اسے مسلسل اپ ڈیٹ کیا جائے۔ ایف بی آر اور ٹیکسیشن اس سلسلے میں ایک الگ شعبہ قائم کرکے اس معاملے میں بہت آسانی سے معاون ہوسکتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ سو فی صد درست اعداد و شمار تو شاید ممکن نہ ہوں، لیکن اثاثہ جات کا حساب حقیقت کے قریب ضرور معلوم ہوجائے گا۔ چناںچہ اس لیے کسی سیاست داں کے اثاثہ جات کا ریکارڈ پر لایا جانا کوئی ایسی اَن ہونی بات ہرگز نہیں ہے۔

اردو کا ایک محاورہ ہے، جہاں چاہ وہاں واہ۔ مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کچھ کرنے کی ٹھان لے تو اُس کے لیے وہ کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتا ہے۔ اگر ہمارے یہاں نیب اور الیکشن کمیشن واقعتاً فعال ہوجائیں اور سیاسی اثرات سے آزاد ہوکر کام کریں تو ہمارا سیاسی ماحول اس حد تک درست ہوسکتا ہے کہ محض دس برس، بلکہ اس سے بھی کم عرصے میں ملک قرضوں کی دلدل سے نکل کر خوش حالی کی شاہراہ پر آسکتا ہے۔ نیب اور الیکشن کمیشن کو عوامی طاقت صرف مضبوط بنانے ہی میں نہیں، بلکہ انھیں متحرک کرنے میں بھی ایک کردار ادا کرسکتی ہے۔

انھیں انتخابات میں ایسے لوگوں کو مسترد کرنا چاہیے جن کے بارے میں یہ حقائق منظرِعام پر آجائیں کہ انھوں نے سیاست میں آنے کے بعد غیرمنطقی رفتار سے دولت کمائی ہے یا یہ کہ وہ اپنے اثاثہ جات کی منی ٹریل دکھانے اور اپنی دولت کا جائز ذرائع سے حاصل کیا جانا ثابت کرنے میں ناکام رہے— لیکن یہ کام صرف اُس وقت ہوسکتے ہیں جب سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ نیب، الیکشن کمیشن اور پولیس کے محکمے میں بھی اُسی حوصلے، عزم اور کردار کے لوگ آبیٹھیں اور اداروں کی سطح پر باہمی تعاون کا ایک مضبوط اور مؤثر نظام ہو، اور ان اداروں کی سیاسی اثرپذیری اور ان سے وابستہ افراد کی علاقائی، لسانی، گروہی اور سیاسی وابستگی صفر کے درجے پر ہو۔

پاکستان جیسے ملک میں یہ کام بہ ظاہر مشکل نظر آتا ہے، اتنا مشکل کہ لوگ اس کو خواب میں بھی ہوتا ہوا نہیں دیکھتے، لیکن قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ عوام کے اجتماعی ضمیر کی بیداری اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ اُن کے اندر ایک لاوا پکتا رہتا ہے۔ پھر ایک روز دھماکے کے ساتھ یہ لاوا بہہ نکلتا ہے، اور اپنی راہ میں آنے والے بڑے بڑے وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو خس و خاشاک کی طرح بھسم کرتا ہے اور اُن کی راکھ کو بھی نادیدہ سمت میں بہا کر لے جاتا ہے۔ چین، ترکی اور ایران کی مثالیں تو ہمارے زمانے کی مثالیں ہیں— اور جب ایک بار یہ عمل شروع ہوجاتا ہے تو پھر ایان علی، ڈاکٹر عاصم حسین اور شرجیل میمن ایسے کرداروں کی ضمانت پر رہائی ممکن نہیں ہوتی۔ ان کے بھاگنے کے سارے راستے بند ہوجاتے ہیں، اور پھر یہ مہرے خود ہی اُن ہاتھوں تک قانون کو لے جاتے ہیں جو ان کی ڈوریاں ہلاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔