بھٹو کو پھانسی دی گئی اور بعد کی حکومتوں کا تختہ الٹا جاتا رہا

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 15 جولائی 2018
پاکستان کی جمہوری تاریخ کے احوال پر مبنی سلسلہ۔ فوٹو : فائل

پاکستان کی جمہوری تاریخ کے احوال پر مبنی سلسلہ۔ فوٹو : فائل

تیسری قسط

ذوالفقار علی بھٹو نے وزارت خارجہ سے جون 1966ء میں استعفیٰ دے دیا اور صدر ایوب خان کی مخالفت کھل کر شروع کردی۔ 30 نومبر1967 ء کو انہوں نے لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں مبشر حسن، جے اے رحیم اور چند دیگر رہنمائوں کے ساتھ مل کر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور چار بنیاد ی نکات دئیے۔ پہلا نکتہ اسلام ہمارا دین، دوسرا جمہوریت ہماری سیاست اور تیسرا نکتہ سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا۔ بھٹو کی تحریک کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ، مولانا بھاشانی اور ان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی اور یہاں مغربی پاکستان میں بھی ولی خان ،عبدالقیوم خان اور نیپ مسلم لیگ جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان اور دیگر جماعتوں نے بھی ایوب خان کے خلاف احتجاج شروع کر دیا اور پھر جنرل یحیٰ خان نے 25 مارچ 1969 کو ملک میں دوسرا مارشل لاء نافذ کر کے صدر ایوب کو رخصت کر دیا۔

صدر جنرل یحیٰ خان نے ایل ایف او یعنی لیگل فریم ورک آرڈرکے تحت انتخابات کروائے جس میں ایک اہم شق یہ تھی کہ انتخا بات کے بعد جب اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے تو اس کے 120دن کے اندر اندر نئی منتخب شدہ اسمبلی نے ملک کا آئین بنانا ہے دوسری صورت میں اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔ اکتوبر 1970ء میں جب انتخابا ت کے لیے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی جانب سے مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کی 162 یعنی تمام نشستوں پر امیدوار کھڑے کئے اور مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کی صرف 8 نشستوں پر امیدواروں کو عوامی لیگ کے ٹکٹ دئیے جب کہ پیپلز پارٹی نے حیرت انگیز طور پر مشرقی پاکستان سے اپنا کو ئی ایک امید وار کھڑا نہیں کیا۔ البتہ جماعت اسلامی،کونسل مسلم لیگ، مسلم لیگ قیوم، پاکستان مسلم لیگ کنونشن نے اپنے امیدوار مشرقی پا کستان سے بھی کھڑے کئے۔

1967 ء کے بعد مشرقی پاکستان کے ایک اہم شدت پسند رہنما مولانا عبدالحمید بھاشانی نے مشرقی پاکستان میں ایوب خان کی حکومت کے خلاف پرتشدد ہنگامے شروع کئے، ان کی تاریخ پیدائش 12 دسمبر1880 ء ہے یوں وہ اس وقت خاصے بوڑھے تھے۔ اگر چہ انگریزوں کے دور میں وہ ایک مذہبی لیڈر کے طور پر مقبول تھے، تحریک پا کستان میں وہ بھی حسین سہروردی کے ساتھ رہے، 1954-55 میں ممبر پارلیمنٹ رہے پھر جب سہروردی وزیراعظم بنے تو CENTO اورSEATO جیسے معاہدوں پر وہ سہروردی کو امریکہ کاحمایتی تصور کرتے ہوئے ان کے خلاف ہوئے۔ ان کا واضح جھکائو ماسکو اور بیجنگ کی طرف تھا۔

انتخابات سے قبل انہوں نے بنگالیوں سے ناانصافی اور لسانی تعصبات کو بنیاد بنا کر پہلے جلائو گھیرائو کا نعرہ دیا پھر اچانک پکڑو مارو کا نعرہ لگا یا اور آخر میں انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ پرچی نہیں برچھی جب کہ مجیب الرحمن کو اس صورتحال میں صاف میدان مل گیا۔ 1970 کے انتخابات ملک کے شفاف ترین انتخابا ت تھے، ان انتخابات میں کل ووٹوں کی تعداد 56941500 تھی جن میں سے مشرقی پاکستان کے ووٹو ں کی تعداد 31211220 اور مغربی پاکستان کے ووٹوں کی تعداد 25730280 تھی۔

یوں قومی اسمبلی کی کل 300 نشستوں میں سے 162 نشستیں مشرقی پاکستان کی تھی اور138 نشستیں مغربی پاکستان کی تھیں۔انتخابات میں بڑی قومی جماعتوں میں سے کسی جماعت نے پوری300 نشستوں پر300 امید وار کھڑے نہیں کئے۔ جماعت اسلامی نے151 عوامی لیگ نے170، مسلم لیگ قیوم 133 ، پاکستان مسلم لیگ کنونشن 124 پاکستان پیلپز پارٹی نے 120 اور پاکستان مسلم لیگ کونسل نے119 امیدوار کھڑے کئے۔ ا ن انتخابات میں مجیب الرحمن نے اپنی انتخابی مہم کے لیے چھ نکات دئیے تھے جن کے تحت وہ مشرقی پاکستان کے لیے الگ کرنسی، الگ فوج ، الگ امورخارجہ اور بیرونی تجارت کا پروگرام رکھتے تھے۔ ان انتخابات کے نتائج کے لحاظ سے اس وقت کے تمام تجزیہ نگاروں کی پیش گوئیاں بالکل غلط ثابت ہوئیں۔

عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی162 نشستوں میں سے 160 قومی اسمبلی کی نشستیں لیکر پہلے نمبر پر رہی۔ مشرقی پاکستان سے صرف ایک نشست نور الامین اور ایک نشست راجہ تری دیو رائے حاصل کر سکے۔ عوامی لیگ کو کل ڈالے گئے ووٹوں کا 39.2 % ملا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو81 نشستیں ملیں اور ووٹوں کا 18.6 % ملا جب کہ جماعت اسلامی کل ووٹوں کا 6 % کے ساتھ صرف قومی اسمبلی کی4 سیٹیں لے سکی۔ کونسل مسلم لیگ نے 2 نشستیں لیں اور مسلم لیگ قیوم 9 نشستیں لے سکی جب کہ یہ پیش گوئیاں تھیں کہ یہ سیاسی جماعتیں انتخابات میں کامیاب ہونے والی بڑی جماعتیں ہونگی۔

ان پیش گوئیوں کے غلط ثابت ہونے کی چند اہم وجوہات یہ تھیں کہ بیشتر ماہرین مشرقی پاکستان کے 1954 کے صوبائی انتخا بات کے نتائج کو بھول چکے تھے ان انتخابات میں 1965ء کی جنگ ایک اہم وجہ تھی جس کو تجزیہ نگار ملک کے فوجی اور سول خفیہ ایجنسیاں نظر انداز کرگئی تھیں سب سے اہم یہ کہ بیورو کریسی خصوصا ڈسٹر کٹ مینجمنٹ گروپ کے اے سی، ڈی سی اور کمشنر ایوبی دور سے عام سطح کے حوالے سے اصل صورتحال کی بجائے خوشامدوں میں رہے جب کہ 1965ء کی جنگ میں بھارت نے صرف مغربی پاکستان کے محاذوں پر جنگ لڑی تھی، مشرقی پاکستان میں اس وقت 21 % ہندو آبادی تھی۔

شیخ مجیب الرحمان اور مولا عبدالحمید بھاشانی بنگالی قوم پرست تھے دو بنیاد یں یعنی مذہب اسلام اور اردو زبان، یہاں پر بنگالی زبان اور قوم پرستی کے اعتبار سے معاشرے میں ان کے اثرات کو کم سے کم کردیا گیا تھا۔ 1965ء کی جنگ میں جو جوش وجذبہ مغربی پاکستان میں تھا، مشرقی پاکستان میں اس حوالے سے کوئی تاثر نہیں تھا پھر اس جنگ میں بھارت کی جزوی شکست سے اس کا وقار مجروح ہوا تھا جس کا بدلہ لینے کے لیے اس نے منصوبہ بنایا تھا اور ہم اس منصوبے سے بے خبر تھے۔ ایوبی دور حکومت میں پشاور کے قریب قائم بڈابیر کے امریکی ہوائی اڈے سے اڑنے والے طیارے کو جب سوویت یونین نے مار گرایا تھا تو روسی صدر نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اس نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے۔

بد قسمتی سے1971 میں جنگ سے پہلے پاکستان نے امریکہ چین تعلقات بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان سے پی آئی اے کے طیارے میں ہنر ی کسنجر کے خفیہ دورے کروائے جو خفیہ نہ رہ سکے اور سوویت یونین اور بھارت اس سے خوفزدہ ہوگئے کیونکہ کچھ عرصہ قبل ہی چین اور سوویت یونین کی سرحدی جھڑپیں ہوئیں تھیں۔ یوں دسمبر 1971 سے پہلے بھارت اور سوویت یونین نے آپس میں ایک دفاعی معاہدہ کرلیا جس کے مطابق یہ طے ہوا کہ کسی بیرونی طاقت کی جانب سے کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ مغربی پاکستان میں بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے جادو چلا دیا جس کا اندازہ شائد ان کو خود بھی نہ تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ملک کے نہایت شفاف آزادانہ اور منصفانہ انتخابات تھے۔

یہ عام انتخابات آزادی کے 23 سال بعد ہو رہے تھے جس میں ووٹر کی عمر کی کم سے کم حد 21 سال مقرر کی گئی تھی۔ یوں ان انتخابات میں ایک بڑی تعداد ان پاکستانیوں کی تھی جنہوں نے پاکستان میں جنم لیا تھا یا انہوں نے پاکستان میں ہوش سنبھالا تھا جب کہ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین اور پاکستان کے لیے جدوجہد میں پاکستانی علاقوں سے شرکت کرنے والوں کی بڑی اکثریت دنیا سے کوچ کر چکی تھی اور جو آزادی کے وقت جوان تھے وہ اب ادھیڑ عمر یا بوڑھے ہو چکے تھے۔ ان انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی ایک مسئلہ یوں بن گئی کہ عوامی لیگ قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے 160نشستیں حاصل کر چکی تھی۔ بھٹو کا موقف یہ تھا کہ یا تو ایل ایف او کی 120دنوں میں آئین بنانے کی شق کو ختم کردیا جائے اور پھر مزید مدت تک سوچا جائے کہ اس مسئلے کا کیا حل ہو گا یا شیخ مجیب الرحمن اپنے 6نکات میں سے الگ کرنسی، فوج اور خارجہ امور کے تین نکات کو واپس لے لیں۔

بھٹو کا کہنا تھا کہ ملک کا آئین کسی سیاسی جماعت کا منشور نہیں ہو سکتا جب کہ مغربی پاکستان میں ان کی اکثریت ہے اور پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے ایسا آئین ہو جس میں وفاق کے پا س یہ ادارے اور اختیارات لازمی ہوں۔ لیکن شیخ مجیب الرحمن کسی صورت کسی ایک نکتے سے بھی ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

شیخ مجیب الر حمن کی تاریخ پیدائش 17 مار چ 1920 اور ان کا قتل 15 اگست 1975 ء کو ہوا، اسکول کی تعلیم تنگی پور میں جاری تھی کہ آنکھوں کے علاج اور آپریشن کی وجہ سے چار سال تک اسکول چھوڑ دیا اور بعد میں 1942میں 22 سال کی عمر میں میٹرک پاس کیا۔ 1947 میں بی اے کیا۔ 1949 میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے اس لیے نکال دئیے گئے کہ وہاں یہ درجہ چہارم کے ملازمین کے ساتھ اٹھتے بیٹھے تھے،1940ء میں مسلم لیگ اسٹوڈنٹ فیڈ ریشن کے لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ 1943ء میں بنگال مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1949 میں حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر عوامی لیگ بنائی۔

1954 ء کے صوبائی انتخابات میں اہم کردار ادا کیا اور 1957 تک حسین شہید سہروردی کے دست راست کے طور پر مشرقی پاکستان کی ایک اہم سیاسی شخصیت بن گئے، انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی میں تاخیر سے اب سیاسی بحران پُرتشدد ہنگاموں میں تبدیل ہو گیا۔ 17 دسمبر 1970 کو شیخ مجیب الرحمن نے واضح طور پر کہہ دیا کہ اب مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

26 مارچ 1971 کو مجیب الرحمن سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد صدر یحیٰ خان نے مجیب الرحمن کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان منتقل کردیا اور بھارت نے بنگالی مکتی باہنی گوریلا فورس کے ساتھ اپنے فوجی بھی مشرقی پاکستان میں داخل کردئیے اور ایسی خانہ جنگی کی صورتحال چند دن کے اندر اندر پیدا کردی کہ تقریبا ایک کروڑ مشرقی پاکستانی مہا جرین کی صورت میں مغربی بنگال بھارت میں چلے گئے۔اب بھارت نے سوویت یونین کی حمایت سے ایک جانب پوری دنیا میں پروپیگنڈا شروع کردیا کہ یہ پناہ گزین بھارت کی معیشت پر بوجھ ہیں تو ساتھ ہی بنگلہ دیش کی آزادی کی حمایت کردی۔

روسی بحریہ خلیج بنگال میں بھارت کے ساتھ آگئی اگر چہ بھارتی فوجی بنگالی مکتی باہنی کے ہمراہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے ساتھ لڑ رہے تھے لیکن بھارت کویہ معلوم تھا کہ اگر فوری طور پر پوری فوجی قوت سے اس نے مشرقی پاکستان پر حملہ نہیں کیا اور یہ صورتحال ایک دو سال طویل ہو گئی تو پھر اس کے بھارت جیسے متنوع لسانی، مذہبی، معاشرتی اور بڑی آبادی والے ملک پر اثرات منفی انداز میں مرتب ہونے لگیں گے۔ اگست 1971 میں ہنری کسنجر کے پاکستان سے چین کے دورے کے بعد سوویت یونین بھارت معاہدے کے تحت یہ صورت بھارت کے لیے اور بہتر ہو گئی جب کہ دوسری جانب مغربی پاکستان میں بھی سیاسی قوتیں پاک بھارت جنگ سے زیادہ اقتدار کی منتقلی کے عمل کے اعتبار سے ابہام کا نہ صرف خو د شکار تھیں بلکہ جنگ کی صورتحال سے یا تو مکمل طور پر غافل تھیں یا دانستہ طور پر تو جہ نہیں دے رہی تھیں۔

امریکہ کی جانب سے امیدیں وابستہ کی گئیں تھیں مگر اس سے قبل ہی بھارت سوویت یونین معاہدہ ہو چکا تھا۔ اس کے باوجود صدر نکسن کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ 3 دسمبر سے پہلے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے اس بات کی تصدیق کی کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا اور یہ فوجیں صر ف سرحدوں پر ہی رہیں گی لیکن 3 دسمبر1971 کو بھات نے مشرقی اور مغربی پاکستان پر حملہ کر دیا اور 16دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان میں 90 ہزار پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے۔

اس دوران7 دسمبر سے 20 دسمبر تک نور الامین پاکستان کے آٹھویں وزیر اعظم رہے جب کہ اسی دوران بھٹو کو وزیر خارجہ بنا کر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں بھیجا گیا تھا انہیں واپس بلوایا گیا اور 20 دسمبر 1971 ء کو صدر مملکت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا کر اقتدار ان کے حوالے کر دیا گیا چونکہ اس وقت ملک میں کوئی آئین نہیں تھا اس لیے یہی فوجی قا نون 1972 کی عبوری مدت کے آئین تک نافذ العمل رہا،21 اپریل 1972 کو عبوری مدت کاآئین نافذ کرکے جمہور یت کی بحالی کا سفر شروع کیا گیا۔

بھٹو پاکستان کے چوتھے صدر اور نویں وزیر اعظم تھے اور ان کے عہد میں اگست 1973 تک نور الامین نائب صدر رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا شمار دنیا کے اہم لیڈروں میں ہوتا ہے اور اس اعتبار سے جہاں ان کی تعریف کارناموں کے ساتھ کی جاتی ہے وہاں ان کی چند غلطیوں پر تنقید بھی ہوتی ہے۔ بھٹو جب صدر بنے تو ان کے سامنے مسائل کے پہاڑ کھڑے تھے ان کے عزم اور تیز رفتاری کا اندا زہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ 20 دسمبر1971 کو وہ صدر بنے اور صرف ایک مہینہ بعد 20 جنوری 1972 کو انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے ماہرین اور سائنسدانوں کی کانفرنس طلب کر لی۔

بھارت سے شملہ معاہد ہ کرکے 90 ہزار جنگی قیدی واپس پاکستان لائے اور مغربی پاکستان کا 5000 مربع میل علاقہ بھی بھارتی فو جوں سے خالی کروایا۔ انہوںنے معاشی بحران پر فوراً قابو پایا۔ انہوں نے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھر پور کردار ادا کیا اور عرب ممالک کی مدد کی۔ اس جنگ میں تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور پھر پاکستان کے شہر لاہور میں اسلامی ملکوں کے سربراہان کی کامیاب کانفرنس منعقد کروانے اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی آمدنیوں میں اضافے اوران ملکوں میں تیز رفتار تعمیرو ترقی کے عمل کے شروع ہونے پر پاکستان سے تقریباً 35 لاکھ افراد کو روزگار کے یے خلیجی ممالک بھجوانے سے نہ صرف ملک میں خوشحالی شروع ہوئی بلکہ ملک میں بیرون ملک پاکستا نیوں کی جانب سے زر مبادلہ بھیجنے سے ملک کا مغربی ممالک کی مالی امداد اور قرضوں پر انحصار تقربیا ختم ہو گیا اور ملک کا فی حد تک اقتصادی طور پر بھی آزاد ہو گیا۔

بھٹو نے 14 اگست 1973 کو ملک کو نیا اور مستقل آئین دینے کے بعد آئین کے تحت وزیر اعظم کا حلف اٹھایا اور اپنے انتخا بی منشور پر بھی عملدرآمد شروع کر دیا۔ انہوں نے ملک میں ایوبی دور کے بعد دوسری مرتبہ زرعی اصلاحا ت کرتے ہوئے نہری زمین کی ملکیت کی حد 150 ایکڑ اور بارانی زمین کی ملکیت کی حد 300 ایکڑ مقرر کردی اور یو ں کئی ملین ایکڑ زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کردی۔ تعلیمی اصلاحات کرتے ہوئے ہر بچے کے لیے مفت اور معیاری تعلیم کا اعلان کیا اور تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا، البتہ چند اداروں کواس ضمانت پر مستثنیٰ قرار دیا کہ وہ تمام اساتذہ کو نہ صرف حکومت کے پے اسکیلوں کے مطابق تنخواہیں دیں بلکہ حکومتی تعلیمی پالیسی پر عملدر آمد کریں۔

انہوں نے فوری طور پر ملک بھر میں 6500 پرائمری 900 مڈل 407 ہائی اسکول 51 انٹرمیڈیٹ کالج، 21 ڈگری کالج کے علاوہ فاصلاتی تعلیم کی ایشیا کی سب سے بڑی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور قائد اعظم یونیورسٹی کھولی، بلوچستان میں گڈانی میں اس وقت دنیا کی دوسری بڑی شپ بریکنگ انڈسٹری لگائی، ہیوی کمپلکس، اسٹیل مل کے علاوہ کئی سیمنٹ فیکٹریاں قائم کیں۔ ملک بھر میں سرکاری شعبے میں روٹی پلانٹ، بریکس ،،اینٹوں،،کے پلانٹ قائم کیے، بڑی صنعتوں ،کارخانوں، فیکٹریوں، بنکوں کو قومی ملکیت میں لے لیا لیکن ان کی غلطی یہ تھی کہ ملک میں لیبر یونین اور ان کے رہنماؤں کی تربیت نہ ہو سکی کہ انہیں اس کا احسا س ہوتا کہ قو می ملکیت قوم کی امانت ہوتی ہے، بد نصیبی سے مزدور یونینیں اور لیڈر اپنے منصب اور مرتبے سے انصا ف نہ کر سکے جس کا سب سے زیادہ نقصان خود ان کو ہوا۔

بھٹو کی لیڈرشپ قومی سے زیادہ بین الاقوامی سطح پر رہی اس کی ایک بنیادی وجہ تو ان کا اپنا یہ رحجان تھا کہ وہ عالمی سطح پر پہچانے جائیں جس کا اندازہ ان کی ان تحریروں سے ہوتا ہے جو انہوں نے سیاست میں آنے سے قبل لکھیں ، پھر اسکندر مرزا کے زمانے میں وہ اقوام متحدہ کے فورم پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے پر اعتماد اور متاثر کن انداز میں بولے۔ بحیثیت وزیر پانی و بجلی 1960 میں سندھ طاس معاہدے اور منصوبے میں ان کا اہم کردار تھا، 1962-63 سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی نئے انداز سے تشکیل وہ شروع کر چکے تھے۔

انہوں نے روس سے تیل کی تلاش کا معاہدہ کیا تھا، چین سے انہوں نے بہت تیزی سے اور مضبوط تعلقات قائم کئے تھے، 2 مارچ 1963 کو انہوں نے چینی سر حد کے ساتھ واقع کشمیر کی حدود کا750 مربع کلومیٹر رقبہ ایک معاہد ے کے مطابق چین کے حوالے کر دیا، اس میں حکمت عملی یہ تھی کہ یہاں ایک تو چینی علاقے کے لحاظ سے دعویٰ تھا دوسرا یہ کہ یہاں سے بھارت کے ساتھ دفاعی لحاظ سے پاکستان کو زیادہ مشکلات کا سامنا تھا جب کہ اب چین اس سر حد سے بھارت کے مقابل ہے۔

1964 میں جب سوویت یونین اور چین کے تعلقات بگڑ گئے تو صرف البانیہ اور پاکستان ہی نے چین کا ساتھ دیا یہاں تک کہ امریکی صدر لنڈن بی جانسن نے صدر ایوب خان کو خبردار کیا کہ چین پاکستان تعلقا ت کی وجہ سے امریکہ پاکستان کے دوستانہ روایتی تعلقات خراب ہو سکتے ہیں لیکن ایوب خان نے اس کی پرواہ نہیںکی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو بطور صدر اور وزیر اعظم ِ پاکستان سامنے آئے تو انہوں نے عالمی سطح پر بحیثیت رہنما اپنی شناخت بنائی۔ ان سے پہلے بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کے تحت اور مصر کے جمال عبدالناصر نے عرب قوم پرستی کی بنیاد پر دنیا میں بطور لیڈر اثرات مرتب کئے تھے۔ بھٹو نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کو اسلامی ممالک کی تنظیم کے تحت وقت کی ضرورت کے مطابق متحد اور مضبوط کیا اور اس کی بنیاد جدید لبرل ازم اور باہمی معاشی اقتصادی تعاون پر رکھی۔

یہ صورتحال ایک جانب نیٹو ممالک اور مغرب کے حق میں نہیں تھی تو دوسری جانب سوویت یونین وارسا معاہدہ گروپ ممالک کے لیے بھی زیادہ سود مند نہیں تھی۔ البتہ چین اس صورتحال میں اچھی پوزیشن میں تھا، بھٹو کی سیاسی غلطیوں میں سے ایک بنیادی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے بلوچستان میں وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی نیپ اور جمعیت علما اسلام کی مخلوط پہلی صوبائی حکومت کو صرف نو ماہ بعد غیر جمہوری طور پر فارغ کردیا، اس کے نتیجے میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود کی نیپ اورجمعیت علما اسلام کی مخلوط حکومت مستعفی ہوگئی اور بعد میں میر غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری، میر گل خان نصیر، خان عبدالولی خان اور دیگر لیڈروںکو حید ر آباد جیل میںڈ ال کر ان پر مقدمات قائم کئے۔

1977 ء میں ویسے تو بھٹو کو اقتدار میں آئے ہوئے پانچ سال ہوچکے تھے لیکن چونکہ یہ پارلیمانی حکومت 1973 کے آئین کے تحت تھی اس لیے بھٹو 1978 اگست تک انتخابات کروا سکتے تھے، مگر بھٹو نے محسوس کیا کہ 1977 میں سیاسی جماعتیں الیکشن کے لیے تیار نہیں ہیں لہٰذا جنوری 1977 میں ان کے حکم کے مطابق الیکشن کمیشن نے الیکشن کا اعلان کردیا جس میں قومی اسمبلی کی 200 جنرل نشستوں کے لیے 10 جنوری تا 22 جنوری کا غذات نامزدگی جمع کرنے کی ہدایت کی۔ اس وقت رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 30899052 تھی اس وقت فورا ہی پیپلز پارٹی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد وجود میں آیا اور پہلے قومی اسمبلی کے انتخابات کروائے گئے۔

ان انتخابات میں پیپلز پارٹی نے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے تقریباً 35 سے 40 نشستوں پر دھاندلی کی۔ 7 مارچ 1977 کو انتخابی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے کل 10148040 ووٹ لیکر قومی اسمبلی کی 155 نشستیں حاصل کیں دوسرے نمبر پر پاکستان نیشنل الائنس، پاکستان قومی اتحاد نے6032062 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی 36 نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ قیوم صرف ایک نشست حاصل کرسکی، دیگر آزاد امیدوار 8 نشستیں حاصل کر سکے ۔ ان نتائج کو حزب اختلاف نے تسلیم نہیں کیا، پر تشدد ہنگامے پورے ملک میں شروع ہو گئے، بھٹو نے اپوزیشن سے مذاکرات شروع کئے لیکن ناکام ہو ئے اور 5 جو لائی 1977 کو چیف آف دی آرمی جنرل محمد ضیا الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا اور قتل کیس میں 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھا نسی دے دی گئی۔ بھٹو، سر شاہنواز بھٹو او ر خورشید بیگم کے تیسرے بیٹے تھے۔

ان کے دو بھائی ان سے پہلے انتقال کرگئے تھے، آکسفورڈ یونیورسٹی کے علاوہ کیلیفورنیا یونیورسٹی سے بھی قانون و سیاست کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

اگر چہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 16دسمبر1971 کو یہ کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو بحیرہ عرب میں غرق دیا ہے لیکن بھارتی سیکولرازم اور اکھنڈ بھارت کے نظریات کے بر عکس بنگلہ دیش بنانے میں بھارت کی پالیسی اور منصوبہ بندی پر ہمیشہ ابہام رہے گا کیونکہ 1905 میں جب انگریز نے انتظامی آسانی کے لیے بڑی آبادی اور بڑے رقبے کے صوبہ بنگا ل کو تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا تو اس سے مشرقی بنگال بنگلہ دیش کے اکثریتی مسلم آبادی کے حصے کو فائد ہ تھا جس کی شدید مخالفت کانگریس کی جانب سے کی گئی تھی اور اس کے نتیجے ہی میں 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا اور پھر کانگریس کے شدید دباؤ میں آکر انگریز وں نے ا پنے فیصلے کو واپس لیتے ہوئے بنگال کو دوبارہ ایک صوبہ بنا دیا تھا لیکن 16دسمبر1971 کے بعد نہ تو بھارت کا سیکولرازم کامیاب ہوا اور نہ ہی ہندوازم کے حوالے سے اکھنڈ بھارت کا نظریہ، اور نہ ہی یہ قیامت تک ہو گا، اس لیے نہ تو بنگلہ دیش کو دوبارہ بھارتی مغربی بنگال میں شامل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بنگلہ دیش کے اسلامی تشخص کو قیامت تک ختم کیا جا سکتا ہے۔

یوں اندرا گاندھی کا یہ کارنامہ ۔کارنامہ قرار دیا جائے گا اور نہ ہی اس سے بھارت کو فا ئدہ پہنچے گا کہ کبھی بھی برھما پتر کے اس خطے میں علاقائی سیاست کو ئی بھی اور رنگ اختیا رکرسکتی ہے جو بھارت کے فائد ے میں نہیں ہوگی۔ بھٹو کی اقتدار سے رخصتی اور پھانسی سے نہ صرف پاکستان کو نقصان پہنچا بلکہ ترقی پذیر ممالک عرب ممالک کے علاوہ سوویت یونین کے بلاک اور اشتراکی ممالک کو شدید نقصان پہنچا، افغانستان جس کے ساتھ بھٹو نے تعلقات بہتر کرنے شروع کئے تھے ۔

وہاں صدر سردار داؤد کو 27 اپریل 1978 کو قتل کردیا گیا اور نور محمد تراکئی صدر ہوگئے جو اشترا کی نظریات کے حامی تھے۔ گیارہ فروری 1979 کو ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے خلاف ایران میں امام خمینی کے انقلاب کے بعد وہ ایران سے فرار ہوگئے، 31 اکتو بر 1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو قتل کردیا گیا جب کہ شیخ مجیب الرحمن کو پہلے ہی بھارت کے یوم آزادی 15 اگست 1975 کوقتل کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد 1980-81 میں سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گیئں اور پاکستان اور اس کی فوجی حکومت عالمی سطح پر دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے نہ صرف قابل قبول بلکہ پسندید ہ ہوگئی اور پاکستان افغانستان میں افغان مجاہدین کی جانب سے کامیاب مزاحمت کرنے کے اعتبار سے فرنٹ لائن کا ملک بن گیا مگر اس کے ساتھ ہی پاکستان میں 35 لاکھ افغان مہاجرین بھی آگئے۔

1985 میں جب سوویت یونین افغانستان سے رخصت ہونے کا فیصلہ کرچکا تھا اور جنیوا مذاکرات کا حتمی دور شروع ہو رہا تھا اس وقت جنرل ضیا الحق نے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا جو اس سے پہلے 1973 ء کے آئین کو عملی طور پر معطل کر کے اپنے طور پر اسلامی نظام کے حوالے سے کئی اقدامات کر چکے تھے۔ انہوں نے1985 کے غیر جماعتی انتخابات کروائے چونکہ اس سے قبل وہ ریفرنڈم کے علاوہ بلدیاتی انتخابات کر وا چکے تھے اور اپنے پسند کے ممبران پر مشتمل مجلس شوریٰ بھی بنا چکے تھے اس لیے ان انتخابا ت میں بہت سے نئے چہرے بھی سامنے آئے۔

1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں کل ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 17468194 تھی، یوں ٹرن آئوٹ 52.93 % تھا، ان انتخابات میںقومی اسمبلی کی207 نشستوں، خواتین کی 21مخصوص نشستوں اور اقلیتوں کی 9 نشستوں کے لیے 1300 آزاد امیدواروں نے حصہ لیا تھا، اور اس کے بعد محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے اور صوبوں میں بھی صوبائی حکومتیں انتخا بات کے بعد وجود میں آئیں۔ محمد خا ن جونیجو18 اگست 1932 میں سندھ کے علاقے سندھڑی میں پیدا ہو ئے اور 18 مارچ 1993 میں وفات پائی۔

انہوں نے کراچی یونیورسٹی اور اس کے بعد برطانیہ سے زراعت کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ایوبی دور حکومت سے سیاست کا آغاز کیا، رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے، 1963 سے 1969 تک زراعت، صحت، تعلیم اور ریلوے کے وزیر رہے، علاقے کے بڑے جا گیر دار تھے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد قائم ہو نے والی اسمبلی میں ان آزاد ممبران نے مسلم لیگ تشکیل دے کر وزیر اعظم محمد خان جو نیجو کی سر براہی میں حکومت بنائی۔ اس پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت کی بنیاد پر جنرل ضیاالحق کی جانب سے متعارف کر وائے جانے والی اسلامی قوانین کی شقوں کے ساتھ 1973 کے آئین کو صدر کی جانب سے اسمبلی کو تحلیل کرنے اور منتخب وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو بر خاست کرنے کے اختیارات کے لحاظ سے 11 نومبر 1985 کو 8 ویں ترمیم کے ساتھ نیم صدارتی بنا دیا۔

صوبوں میں یہی اختیارات مرکز کی ہدایت پر گورنروں کو حاصل ہوگئے۔ وزیراعظم محمد خان جو نیجو 24 مارچ 1985سے 29 مئی 1988 تک وزیراعظم رہے اور آٹھویں آئینی ترمیم ہی کی شق کو استعمال کرتے ہوئے انہیں اس وقت جنرل ضیا الحق نے فارغ کردیا جب وہ چین کے سرکا ری دورے سے واپس پاکستان لوٹے تھے اور ہوائی اڈے سے گھر اپنی سوزوکی کار میں بغیر پرو ٹوکول کے گئے تھے۔

اسی دور میں میاں نواز شریف بطور وزیر اعلیٰ پنجاب، قومی سیاست میں ابھرے جونیجو دورِ حکومت میں وزیر خارجہ صاحبزاد یعقوب خان کے ہوتے ہوئے وزیر مملکت امور خارجہ زین نورانی نے افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی اور قیام امن کے لیے امریکہ ، سوویت یونین ،افغانستان اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ جنیوا مذاکرات جاری رکھے اور جنیوا معاہدہ طے پایا جس میں سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی کا شیڈول طے پایا لیکن افغانستان میں بھاری روسی اسلحہ کے ساتھ سوویت یونین کی حمایت یافتہ حکو مت برقرار رہی۔

افغان مہاجرین کی واپسی کا شیڈول طے نہیں پا یا اور امریکہ اور سوویت یونین کی جانب سے افغانستان اور پاکستان میں مداخلت نہ کرنے کی ضمانت دینے کے باوجود معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا جس کا پاکستا ن کو اب تک نقصان ہو رہا ہے۔اس کے بعد 17 اگست1988 کو جنرل ضیا الحق ، جنرل اختر عبدالرحمٰن و سینیئر اعلیٰ فوجی افسران اور امریکی سفیر سمیت بہاولپور کے فضائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے اور اس کے بعد چیرمین سینٹ غلام اسحاق خان صدر اور جنرل اسلم بیگ نئے آرمی چیف بنے۔

16 نومبر 1988 کو ملک میں الیکشن ہوئے۔ یہ انتخابات قومی اسمبلی کی 207 جنرل نشستوں پر ہو ئے ان الیکشنز میں ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی محتر مہ بینظیر بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی والد ہ محتر مہ نصرت بھٹو کے ساتھ کی اور بھر پور انداز میں انتخابی مہم چلائی، جب کہ ان کے مقابلے میں اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے انتخابات میں حصہ لیا۔

اپوزیشن میں میاں محمد نوازشریف نمایاں تھے اور بھرپور انداز میں قومی سیاست میں اُن کی انٹری اسی الیکشن سے ہوئی۔ 1988 کے الیکشن میں ٹرن آوٹ 43.5% رہا، کل ڈالے گئے ووٹ 19904440 تھے جس میں سے پاکستان پیپلز پارٹی نے38.5 % یعنی کل 7546561 ووٹ حاصل کئے اور قومی اسمبلی کی کل 94 نشستیں حاصل کیں۔ اسلا می جمہوری اتحاد نے کل 5908741 ووٹ یعنی 30.2 % ووٹ حاصل کئے ۔آئی جے آئی کی قومی اسمبلی میں نشستیں 56 تھیں، دیگر سیاسی جماعتوں میں سے جمعیت علما اسلام ف نے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں حاصل کیں، پاکستان عوامی اتحاد نے3 اور عوامی نشنل پارٹی 2 نشستیں حاصل کرسکی ۔

ان انتخابات کے بعد بینظیر بھٹو نے وفاق اور سندھ میں حکومت بنائی اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف بنے۔ بینظیر بھٹو جو 21 جون 1953 میں پیدا ہوئیں، معاشیات میں اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کی، زمانہ طالب علمی سے اسٹو ڈنٹ لیڈر کے طور پر برطانیہ ہی میں شہرت پائی، وہ2  دسمبر1988  کو  35 سال کی عمر میں اسلامی دنیا کی تاریخ میں پہلی خا تون وزیراعظم بنیں اور صرف 18 ماہ کی حکو مت کے بعد صدر اسحاق خان نے ان کی حکومت کو برخاست کرکے اسمبلی کو تحلیل کردیا۔

جہاں تک تعلق سازشوں کا ہے تو آج بھی ان سازشوں کی تحقیقا ت جاری ہیں اور حقا ئق سامنے آرہے ہیں لیکن جہاں تک تعلق خود بینظیر بھٹو کی جانب سے سر زد ہونے والی سیاسی غلطیوں کا ہے تو اگر بینظیر بھٹو 1988 میں کمزور حکومت نہ بناتیں اور 1973 کے آئین کی بحالی کی تحریک چلا کر اس آئین کو 5 جولائی1977 سے پہلے کی حالت میں بحالی کے بعد اقتدار حاصل کرتیں تو صورتحال بہت مختلف ہو تی۔ اگر چہ اس میں یہ بھی ممکن تھا کہ اقتدار بہت تا خیر سے ملتا مگر اس سے ملک میں جمہوریت ہمیشہ کے لیے مستحکم ہو جاتی۔

1990 ء میں 58-2 B کی آئینی شق کو استعمال کرتے ہوئے صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو بدامنی اور کرپشن کے الزامات لگا کر برخاست کردیا تھا اور اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔ اس کے 90 د ن بعد 24 اکتوبر 1990 کے عام انتخابات میں وہ نئی سیاسی قیادت جو1977 میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد 1988میں پہلے عام انتخابات میں سامنے آئی تھی اور پیپلز پارٹی کی وہ مقبولیت جس میں ایک خاص تناسب سے کمی تو خود محتر مہ بینظیر بھٹو کی ناتجربہ کاری اور پارٹی کے بہت سے مفاد پر ستوں کی حرکتوں کی وجہ سے واقع ہوئی تھی اور دوسری وہ جس کو پیپلز پارٹی کے سیاسی اور غیر سیاسی مخالفین نے بہت ماہرانہ اور تکنیکی انداز میں استعما ل کیا۔

ان انتخابات میں آئی جے آئی کے سربراہ کے طور پر پہلی بار قومی سطح پر براہ راست میاں محمد نواز شریف متحر مہ بینظیر بھٹو کے مقابل تھے یعنی اس سے قبل وہ اگر چہ قومی اور ملکی سطح پر مقبول تو ضرور تھے مگر یہ مقبولیت صوبہ پنجاب کے طویل عرصہ تک وزیر اعلیٰ رہنے اور انکی کار کردگی کی بنیاد پر تھی، وہ بطور قومی رہنما پہلی بار بینظیر بھٹو کے مقابل آئے تھے۔ بینظیر بھٹو تقربیا 37 برس کی تھیں اور میاں نواز شریف تقریبا چالیس برس کے ہوگئے تھے۔

سیاسی بصیرت اور علم کے لحاظ سے بینظیر بھٹو کا نہ صرف خاندانی پس منظر تھا بلکہ وہ قومی اور بین الاقوامی نوعیت کے معاملات کو بہت ماہرانہ انداز میں سمجھتیں تھیں اور خصوصا اپنے پہلے دور اقتدار میں اپنے والد کی طرح خو د اپنی قوت فیصلہ کی بنیاد پر فیصلے کرنا چاہتیں تھیں لیکن، بہادر ،ذہین، محنتی، مقرر اور اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کی حامل ہونے کے باوجود ہمارے معاشرتی، تہذیبی ، روایتوں کے اعتبار سے وہ خاتون تھیں اس کی وجہ سے، دوئم انکے والد کی جادوئی شخصیت کی وجہ سے پارٹی میں ان کے مخالفین حسد کا شکارتھے تو دوسری جانب ان کے مقابلے کے لیے بھی مخالف سیاسی لیڈروں نے ایک بڑا اور مضبوط اتحاد بنایا۔

جس کی بنیاد پر پہلے 1988 ء کے عام انتخابات میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم نہ ہوسکی اور اب دوسری مرتبہ یہ کوشش تھی کہ پیپلزپارٹی اور بینظیر بھٹو کو وفا قی حکومت بھی نہ بنانے دی جائے، یہ انتخابات نگران وزیراعظم غلام مصطفی جتو ئی کی نگران حکو مت کے دوران ہوئے جو 6اگست 1990 سے6 نومبر 1990 تک قائم رہی۔ پیپلزپارٹی نے آئی جے آئی کا مقابلہ کرنے کے لیے تین جماعتوں کا اتحاد پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے قائم کیا۔ ان انتخابات میں پیپلزپارٹی نے اپنے خلا ف بہت بڑی د ھاندلی اور خاص انجینئرڈ،د ھاندلی کا الزام حکومت اور آئی جے آئی پر عائد کیا۔ اس الیکشن میں قومی اسمبلی کی207 جنرل نشستوں پر انتخابات کے نتائج عجیب و غریب رہے۔

ان انتخابات میں کل21395479 ووٹ ڈالے گئے اور 45.5 % ٹرن آئوٹ رہا،آئی جے آئی نے کل 7908513 ووٹ حاصل کئے جو کل ڈالے گئے ووٹ کا 37.4 % تھے اس کے مقابلے میں پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس نے7795218 ووٹ حاصل کئے جوکل ڈالے گئے ووٹوں کا 36.8 %  تھے اور مجموعی طور پر آئی جے آئی سے پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس نے صرف ایک لاکھ ووٹ کم حاصل کئے تھے، مگرآئی جے آئی نے قومی اسمبلی کی کل 207 نشستوں میں سے106 نشستیں حاصل کی تھیں اور پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس صرف 44 نشستیں حاصل کر سکی تھی۔

یوں 1988 کے الیکشن کے مقابلے میں آئی جے آئی کو کہیں زیادہ نشستیں ملی تھیں اور اسی طرح پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس کو گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں بہت نقصان ہوا تھا حالانکہ مجموعی طور پر کل ووٹوں میں صرف ایک لاکھ کا معمولی فرق تھا۔ تیسرے نمبر پر ایم کیو ایم’’ مہاجر قومی موومنٹ ‘‘ کے امیدوار حق پر ست کے نام سے ملک کی تیسری مگر اہم سیاسی قوت بن کر ابھرے تھے۔ حق پرستوں نے مجموعی طور پر 1172525 ووٹ حاصل کئے تھے جو کل ڈالے گئے ووٹوں کا 5.5 % تھے اور قومی اسمبلی میں ان کی نشستوں کی تعداد 15 تھی۔ ان انتخابات میں جمعیت علما ئے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی چھ چھ نشستوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر تھیں۔ یکم نومبر 1990 کو میاں نواز شریف کو پارلیمانی لیڈر چن کر وزیراعظم نامزد کر دیا گیا۔

اسلامی جمہوری اتحاد چونکہ مختلف جماعتوں کا اتحاد تھا لہٰذا نواز شریف کی کابینہ بھی بہت بڑی تھی جس میں 34 وزیر اور وزیر مملکت کے علاوہ 20 پارلیمانی سیکرٹریز شامل تھے۔ یوں انداز ہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ حکومت اگرچہ عددی برتری کے اعتبار سے اچھی اور مضبوط پوزیشن میں تھی مگر اتنی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی وجہ سے ایک کمزور صورتحال میں بھی تھی۔ نواز شریف جن کوصدر جنرل ضیاالحق نے متعارف کروایا تھا اور ان کی وفات کے بعد بھی وہ آبادی کے لحا ظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے تھے مگر بحیثیت وزیر اعظم یہ ان کا پہلا موقع تھا۔

1990 دنیا کا وہ سال ہے جب دنیا میں سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوا اور مغر بی اور مشرقی جرمنی کے درمیان دیوار برلن گرا دی گئی تھی اور اب دنیا ایک نئے اقتصادی سیاسی نظام کے ساتھ بدل رہی تھی اور اس تبدیلی کی رفتار بہت تیز تھی۔ اسی دور میں ہالی ووڈ کی ایک فلم اسپیڈ کے نام سے ریلیز ہوئی، اس فلم کا ٹیمپو اس قدر تیز تھا کہ اس سے قبل دنیا میں اتنے تیز ٹمپو کی فلم نہیں بنی تھی، معلوم نہیں کہ اس فلم کے کہانی نگار اور ڈائریکٹر کے ذہن میں یہ خیال تھا یا نہیں مگر اس دور کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ پوری دنیا کے ممالک کے لیے ایک واضح پیغام تھا۔

اس فلم کا تھیم یہ تھا کہ ایک مسافر بس میں ولن بم نصب کر کے ہیرو کو یہ بتا دیتا ہے کہ اگر 60 کلومیٹر سے رفتارکم نہ ہو، اگر رفتار کم ہوگئی یا روکی گئی تو بس دھماکے سے اڑ جائے گی۔ اسی زمانے میں تہذیبوں کا تصادم کے نام سے ایک کتاب بھی آئی جس میں ہمارے جیسے ممالک میں خانہ جنگیوں اور جنگوں کی مدلل انداز میں پیش گوئیاں کی گئی تھیں اور پھر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اعتبار سے دنیا بھر میں مقامی تجارت سے عالمی تجارت تک بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس کے بعد ہی ہمارے جیسے ملکوں خصوصاً اسلامی ملکوں میں امن وامان کے مسائل کے ساتھ ساتھ اقتصادی سیاسی مسائل جنم لینے لگے لیکن بدنصیبی دیکھئے کہ ہمارے ہاں اس وقت کی سیاسی قیادت ان تمام مقامی اور عالمی نوعیت کی تبدیلیوں کی بجائے اندرونی خلفشار کا شکار تھی اس زمانے میں امریکہ کی جانب سے عراق کویت جنگ کے بعد خلیج میں صورتحال بگڑ گئی تھی اور کلیش آ ف سویلائزیشن کی ابتدا نیو ورلڈ آرڈر ’’نیا عالمی حکمنانہ‘‘ بھی جاری ہو گیا تھا۔

سوویت یونین اور دنیا بھر میں عملی طور پر اشتراکیت کے خا تمے سے عالمی سیاست اور اقتصادیات میں وسیع خلا نمودار ہونے کے بعد اب زلزلوں کی صورت یہ خلائیں پُر ہو رہی ہیں یا اِن کو پُر کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ 28 جولائی 1991 سے آئی جے آئی میں اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ جب جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل پروفیسر غفور احمد نے استعفیٰ دے دیا، اسی طرح 21 اگست کو 1991 کو میاں زاہد سرفراز کو مسلم لیگ سے اور غلام مصطفٰی جتو ئی کو آئی جے آئی سے نکال دیا گیا۔ یکم جون 1992 کو سندھ میں آرمی آپریشن کے دوران حکومت کی حلیف جماعت کے صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران کو قتل اور دیگر مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

18 اپریل 1993 کو صدر نے آٹھویں ترمیم کے اختیارات کے تحت حکومت پر بد امنی اور کرپشن کے الزامات عائد کرنے کے بعد اسمبلی تو ڑ دی جس کو اسپیکر گوہر ایوب خان نے چیلنج کر دیا اور اس کے بعد سیاسی بحران شدت اختیار کرتا چلاگیا اور آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس وقت کے آرمی چیف عبدالوحید کا کڑ نے باہم فیصلہ طے کر و ایا، صدر کے حکم پر عملدر آمد ہوا اور پھر صدر اور وزیر اعظم دونو ں ہی اپنے اپنے عہدوں سے رخصت ہوگئے ۔

پھر 18 جولا ئی 1993 کو وسیم سجاد کو قائم مقام صدر اور معین قریشی کو نگران وزیراعظم بنا کر نگران حکومت تشکیل دی گئی جس کی کابینہ زیادہ تر ٹیکنو کریٹ افراد پر مشتمل تھی جس کی مدت کے بارے میں پہلے ابہام تھا کہ شائد یہ حکومت دو سال تک قائم رہے گی اور ملک کے مالیاتی امور کو قواعد کے مطابق بہتر کرنے کے بعد رخصت ہوگی مگر یہ آئین میں دی گئی مدت کے مطابق رہی اور 6 اکتوبر 1993 کے انتخابی شیڈول کا اعلان کیا گیا، 1993 کے عام انتخابات میں کل 20293307 ووٹ ڈ الے گئے۔ مجموعی طور پر مسلم لیگ ن نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔

ان کے کل ووٹوں کی تعداد 7980229 تھی جو کل ڈالے گئے ووٹوں کا 39.9 % تھی لیکن ان کی قومی اسمبلی میں نشستیں 73 تھیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کل حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 7578635 تھی جو مسلم لیگ ن کے ووٹوں سے401594 ووٹ کم تھی اور کل حاصل کردہ ووٹوں میں پی پی پی کا تناسب 37.9 %  تھا مگر پی پی پی نے قومی اسمبلی کی کل89 جنرل نشستیں حاصل کی تھیں جو مسلم ن سے 16 نشستیں زیادہ تھیں۔ ایم کیو ایم نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

مسلم لیگ جونیجو نے 6 اسلامی جمہوری محاذ نے 4 اور پاکستان اسلامک فرنٹ،عوامی نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے تین تین نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ 16 آزاد اراکین اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ ان انتخابات کی رپورٹنگ کرنے کے لیے 40 ملکوں کے آبزرور پاکستان آئے تھے، الیکشن کے بعد قومی اسمبلی میں بینظیر بھٹو 121 ووٹ لے کر دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنیں اور ان کے مقابلے میں میاں محمد نواز شریف کو 72 ووٹ ملے اور اس اسمبلی میں میاں نواز شریف لیڈرقائد حزب اختلاف بنے۔ 3 نومبر1993 کو پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کی طرف سے فاروق احمد لغاری کو صدر مملکت منتخب کیا گیا، 13 نومبر1993 کو ان سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سید نسیم حسن شاہ نے حلف لیا۔

اس کے دوسرے دن محترمہ بینظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم پارلیمانی نظام کو دوجماعتی اتفاق رائے سے چلانے کے عزم کا اظہار کیا، ان کے دور حکومت میں 23 مارچ 1994 کو عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کردیا گیا،20 ستمبر1996 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مر تضیٰ بھٹو گر فتاری کی ایک کوشش کے دوران فائرنگ کی وجہ سے جان بحق ہوگئے، اور بعد میں میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے حوالے سے بینظیر بھٹو کے صدر فاروق احمد لغاری سے اختلافات ہو گئے۔

5 نومبر1996 کو صدر فاروق احمد لغاری نے بطور صدر مملکت محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو برخاست کرکے اسمبلی کو تحلیل کر دیا، اور معراج خالد کو بطور نگران وزیر اعظم بنا کر 3 فروری1997  کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کردیا گیا۔ ان انتخابات میں کل ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 19516716 تھی اور مسلم لیگ ن نے 8751793 ووٹ حاصل کئے جو کل ڈالے گئے ووٹوں کا 45.9 % تھے۔ مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کی207 جنرل نشستوں میں سے 137 نشستیں حاصل کیں اس کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کل 4152209 ووٹ حاصل کئے جو کل ڈالے گئے ووٹوں کا 21.8 % تھے اور پی پی پی ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی صرف 18 نشستیں حاصل کر سکی، حق پرستوں نے کل ڈالے گئے ووٹو ں میں سے 764207 ووٹ حاصل کئے جو چار فیصد تھے اور قومی اسمبلی میں ان کی 12 نشستیں تھیں۔ عوامی نشنل پارٹی چوتھی بڑی پارٹی تھی جس نے قومی اسمبلی کی 10 نشستیں حاصل کی تھیں اور 21 آزاد امید وار بھی قو می اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

17 فروری 1997 کو نواز شریف دوسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور ان سے صدر فار ق لغاری نے حلف لیا۔ وزیر اعظم نے اعتماد کا ووٹ لیا تو ان کو 181 اراکا ن اسمبلی کے ووٹ ملے جبکہ ان کے چھوٹے بھائی 226 ووٹ لے کر صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس بار میاں نواز شریف کو دوتہائی سے زیادہ کی اکثریت حاصل تھی اور چونکہ اس سے پہلے دو مرتبہ محترمہ بینظیر بھٹو کی اور ایک مرتبہ خود ان کی حکومت کو برخاست کرکے اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا تھا۔

اس لیے انہوں نے یکم اپریل 1997 کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں آئین کی 13 ویں ترمیم کو منظور کروا لیا جس کے تحت آئین کی 58-2-B کے صدر کے اختیارات ختم ہوگئے۔ 12 مئی کو سارک کانفرنس میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم اندر کمار گجرال سے ملاقات کی اور کشمیر اور دیگر متنازعہ امور پر ورکنگ گروپ بنانے کا فیصلہ ہوا،16 جون کو ایمل کانسی کو ڈیرہ غازی خان سے گرفتار کر کے امریکہ بھیج دیا گیا ۔5 ستمبر1997 کو ججوں کی تعداد میں کمی کا نوٹیفیکیشن سپر یم کورٹ نے معطل کردیا، 9 ستمبرکو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے آرمی چیف سے براہ راست تحفظ مانگ لیا، 28 نومبر1997 کو سپریم کورٹ تقسیم ہوگئی، مسلم لیگ کے کارکنوں نے ہنگامہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ پر چڑھائی کردی اور توہین عدالت کے مرتکب ہوئے، تو ہین ِ عدالت کیس ملتوی ہوا،30 نومبر فل کورٹ اجلاس منسوخ ۔ جسٹس سجاد نے بینچ بنائے اور جسٹس صدیقی نے فل کورٹ بلا یا۔ 2 دسمبرصدر فاروق لغاری نے استعفیٰ دے دیا۔

وسیم سجاد قائم مقام صدر بن گئے۔ 3 دسمبر1997جسٹس سجاد اور مختار جو نیجوطویل رخصت پر چلے گئے اور جسٹس اجمل میاں نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھایا ۔ 19دسمبر1997 کے بعد جسٹس رفیق تارڑ کو صدر بنادیا گیا،27 جنوری 1998 کو پاکستان نے سوشل ایکشن پروگرام (فیز ٹو) کے لیے ورلڈ بنک سے 10 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کئے۔2 مارچ 1998 کو ملک میں سترہ سال بعد مردم شماری ہوئی۔28 مئی 1998ء کو بلوچستان کے ضلع چاغی میں راس کوہ میں بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کئے گئے ۔

17 اکتو بر1998 کو جنرل پرویز مشرف نے نئے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا، جب کہ جنرل جہانگیر کرامت نے اپنی ریٹائرمنٹ کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی یہ عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ 1999 کا سال نواز شریف حکومت کی سیاسی رفتار کا تیز ترین سال تھا۔11جنوری کو سپریم کورٹ نے سندھ اسمبلی بحال کردی ۔ 19 فروری 1999 کو وزیراعظم نواز شریف نے واہگہ بارڈر سے بس کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم کا پاکستان آنے پر استقبال کیا اور21فروری کو اعلان لاہور پر دستخط ہوئے جس کے تحت مسئلہ کشمیر سمیت تمام معاملات کو باہمی گفتگوکے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا، 13 اپریل کولاہور ہائی کورٹ نے کرپشن کے ایک مقدمے میں بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو پانچ سال قید اور 86 لاکھ ڈالر جرمانہ کر دیا۔ 18مئی 1999 کو قید میں دوران تفتیش ان پر خودکشی کا الزام عائد کیا گیا جب کہ اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ان کی زبان کا ٹی گئی اور ان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔

جنرل پرویز مشرف نے کارگل میں کاروائی کی اور اسٹرٹیجک پوزیشن پر قبضہ کرلیا، یہاں بعد میں دونوں جانب سے مختلف بیانات سامنے آئے۔ پرویز مشرف کا موقف یہ تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم کو آگاہ کر کے یہ کاروائی کی تھی لیکن وزارت سے ہٹنے کے بعد نواز شریف نے اس سے انکار کیا۔ بہرحال کارگل کی لڑائی کے بعد وزیر اعظم اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان اختلافات بڑھنے لگے اور نو بت یہاں تک پہنچی کہ جب 12 اکتوبر 1999 کو آ رمی چیف سری لنکا کے سرکاری دورے سے واپس آرہے تھے تو ان کی جگہ دوسرے جنرل ضیاء الدین بٹ کو آ رمی چیف بنانے کی کوشش کی گئی جسے فوج نے ناکام بنا دیا۔ دوسری جانب جنرل پر ویز مشرف کے جہاز کو کراچی اترنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی اور پھرکچھ دیر بعد پرویز مشرف کا جہاز اتر گیا اور فوج نے ملک کا انتظام سنبھال لیا۔

آرمی چیف جنرل پر ویز مشرف اسی روز چیف ایگزیکٹو بھی ہو گئے اور نواز شریف وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے اور عدلیہ نے دو سال کی مدت پرویز مشرف کو حکومت کرنے کے لیے یوں دے دی کہ ایک تو ملک کے بگڑے ہوئے معاملات جن میں خصوصاً مالیاتی امور شامل تھے ان کی اصلاح کرنا تھی، دوئم ملک کو مارشل لاء سے بچا نا تھا، جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آتے ہی معروف ماہر اقتصادیات شوکت عزیز کو اپنا وزیر خزانہ بنایا کیونکہ نواز شریف کا آخری قومی بجٹ مالی سال 1999-2000 بڑے خسارے کا بجٹ تھا اور ایٹمی دھماکوں کے بعد اگرچہ بیرون ملک پاکستانیوں نے ملک کی معاشی صورتحال کو تحفظ دینے کے لیے فوراً بہت زرمبادلہ بھیجا تھا، مگر یہاں حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی کہ اس دوران ملک سے بہت بڑی تعداد میں ڈالر کرنسی ملک سے باہر بااثر اور سرمایہ دار افراد لے گئے۔

شوکت عزیز نے مالیاتی امور کو ابتدائی دو برسوں میں بہت حد تک کنٹرول کیا لیکن اس کے ساتھ ہی 11 ستمبر 2001 کو’’ نائن الیون‘‘ کو امریکہ میں سانحہ رونما ہوا اور پرویز مشروف نے مشہور یو ٹرن لیا اور آنے والے دنوں میں اس کے بہت نقصا ن دہ اثرات ملک پر مرتب ہوئے مگر اُ س وقت پاکستان کو امریکی اور نیٹو افواج کو لا جسٹک سپورٹ دینے پر امریکہ کی جانب سے رقوم ملیں۔

جہا ں تک تعلق میاں نواز شریف کا تھا تو وہ سعودی حکمرانوں کی معرفت 10 سال تک ملک سے باہر رہنے کا ایک معاہد ہ کر کے ریاض چلے گئے اور محترمہ بینظیر بھٹو لندن اور دوبئی میں رہیں یہاں ان کی عدم موجودگی میں صدر پرویز مشرف جو صدر تاڑر کے بعد صدر مملکت ہوگئے تھے انہوں نے 10 اکتوبر 2002 کو عام انتخابات کروائے، ان انتخابات میں1998 کی مردم شماری کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی کی 207 نشستوں کی تعداد کو بڑھا کر 272 کردیا گیا جبکہ اقلیت اور خواتین کی مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی نشستوں کی کل تعداد 342 ہوگئی۔ ان الیکشن میں ووٹ ٹرن آئوٹ 41.8 % تھا۔ مسلم لیگ قائد اعظم نے کل ڈالے گئے ووٹوںکا 25.7 % حاصل کیا اور قومی اسمبلی میں ان کی نشستوں کی تعداد 126 رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک میں بینظیر بھٹو کی عدم موجودگی میں قائم مقام سربراہ مخدوم امین فہیم تھے۔ پی پی پی نے ان الیکشن میں کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 25.8 % ووٹ حاصل کئے اور قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں میں اس نے 81 نشتسیں حاصل کیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے ووٹوں کا تناسب 9.4 % تھا اور اس نے قومی اسمبلی کی19 نشستیں حاصل کیں۔ ایم کیو ایم نے 17 نشستیںاور قومی اتحاد نے 16 نشستیں حاصل کیں۔

23 نومبر 2002 کو مسلم لیگ ق کے ظفراللہ خان جمالی وزیر اعظم بنے اور وہ 26 جون 2004 تک وزیر اعظم رہے۔ اس کے بعد 28 اگست تک چوہدری شجاعت وزیر اعظم رہے اور پھر شوکت عزیز28 اگست 2004 سے15 نومبر 2007 تک ملک کے وزیر اعظم رہے جب کہ صدر جنرل پرویز مشرف نومبر2007 تک آرمی چیف کے ساتھ ساتھ صدر مملکت رہے اور اس کے بعد وہ بغیر وردی صدر 18 اگست2008 تک رہے۔ 27 دسمبر 2007 میں محترمہ بینظیر بھٹوکی شہادت کے بعد ان کی پوزیشن کمزور ہوگئی اور پھر2008 میں عام انتخابات کروانے کے بعد وہ اقتدار سے فارغ ہوگئے اور صدر آصف علی زرداری ہوگئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔