الیکشن 2018ء کے نوجوان ووٹر

سید عاصم محمود  اتوار 15 جولائی 2018
پاکستان کے کروڑوں نئے ووٹر آئندہ حکومت کی تشکیل میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گئے۔ فوٹو: رائٹرز

پاکستان کے کروڑوں نئے ووٹر آئندہ حکومت کی تشکیل میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گئے۔ فوٹو: رائٹرز

میں نماز جمعہ پڑھ کر مسجد سے باہر آیا، تو دیکھا کہ محلے کے دس بارہ نوجوان قریب ہی منڈلی جمائے کھڑے ہیں۔ ازراہ تجسّس ان میں جا شامل ہوا۔ وہ آمدہ الیکشن پر گفتگو کررہے تھے۔ ایک نوجوان دوستوں سے بولا ’’ 25 جولائی کو چھٹی ہوگی۔ میں تو مزے سے فلمیں دیکھوں گا۔‘‘

ایک دوست اسے گھورتے ہوئے کہنے لگا ’’سلیم! ووٹ ایک مقدس امانت ہے۔ تمہارا فرض ہے کہ یہ امانت قوم کو واپس لوٹاؤ اور ایک دیانت دار، باصلاحیت اور فرض شناس امیدوار منتخب کرنے میں اپنا کردار ادا کرو۔‘‘

مجھے اس نوجوان کی بات بہت پسند آئی۔ محسوس ہوا کہ وہ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے خواب دیکھنے والا ایک باشعور نوجوان ہے۔ یہ بھی اُمید افزا بات ہے کہ ماضی کے مقابلے میں پاکستان کے کونے کونے میں ایسے محب وطن نوجوان اب زیادہ ملتے ہیں۔ پاکستان اور اپنے مستقبل کے سلسلے میں وہ پُر امید اور پُرجوش ہیں۔ یہ وہ نئی پاکستانی نسل ہے جسے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے ماضی کی نسلوں سے زیادہ حقوق و فرائض کے ضمن میں آگاہی دی ہے۔خاص بات یہ کہ الیکشن 18ء میں کسی سیاسی پارٹی کو فتح دلوانے میں یہی نوجوان اہم ترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔

وجہ ان کی بڑھتی تعداد ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق امسال الیکشن میں ساڑھے دس کروڑ سے زائد ووٹر ہیں۔ ان میں ’’44 فیصد ووٹر‘‘ نوجوان ہیں جن کی تعداد چار کروڑ ساٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ (واضح رہے، اٹھارہ  سے پینتیس سال کے ووٹر نئی نسل میں شمار کیے جاتے ہیں)درج بالا نوجوان ووٹروں میں سے ایک کروڑ چوہتر لاکھ ووٹر 18 سے 25 سال کے ہیں۔ دو کروڑ اناسی لاکھ 26 تا 35 سال عمر رکھتے ہیں۔ مزید براں 36 سے 45 سال کے ووٹروں کی تعداد بھی دو کروڑ چوبیس لاکھ ہے۔ ان ووٹروں کو ’’جوان‘‘ کہا جاسکتا ہے۔

گویا الیکشن 18ء میں چھ کروڑ ستاسی لاکھ نوجوان اور جوان ووٹر حصہ لیں گے۔ جو سیاسی جماعت، ان ووٹروں کا بڑا حصہ اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہی ،اس کی جیت کا امکان روشن ہوجائے گا۔نئی نسل سے تعلق رکھنے والے یہ پاکستانی لڑکے لڑکیاں چاروں صوبوں کے شہروں، قصبوں اور دیہات میں بستے ہیں۔ آگاہی و شعور بڑھنے کے باعث اب وہ برادری، طاقت، اثرورسوخ اور پیسے سے بالاتر ہوکر نظریات کی بنیاد پر بھی کسی پارٹی کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ الیکشن 18ء اسی لیے ایک انقلابی اور بڑی تبدیلی لے کر آیا ہے۔

نوجوانوں کی اکثریت اب اپنے ووٹ کی قوت سے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا عزم رکھتی ہے۔ خاص طور پر شہروں کی تعلیم یافتہ اور وسائل رکھنے والی نئی نسل عقل و تدبر سے کام لے کر ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس بار  دو کروڑ بیس لاکھ نوجوان الیکشن 18ء میں پہلی بار ووٹ ڈالنے کا اعزاز پائیں گے۔ گویا ان کو ملکی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کا موقع ملے گا۔ اگرچہ بعض پاکستانیوں کے مانند کچھ نوجوان اور جوان بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا ایک ووٹ فرسودہ اور کرپٹ نظام حکومت بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہی مایوس کن رویّہ پولنگ والے دن بہت سے ہم وطنوں کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتا۔

ان پژمردہ ہم وطنوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج کے بیشتر ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک مثلاً امریکا، جرمنی، جاپان، چین، برطانیہ، روس، فرانس وغیرہ سبھی ماضی میں خانہ جنگی اور زبردست انتشار کا شکار رہے ہیں۔ انہیں زوال سے نکالنے میں باقاعدگی سے ہونے والے الیکشنوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

وجہ یہ ہے کہ جب ایک امیدوار نااہل اور کرپٹ نکلے، تو وہ عموماً زیادہ سے زیادہ دو الیکشن ہی جیت پاتا ہے۔ چاہے وہ کتنا ہی بارسوخ ہو، تیسرے الیکشن میں ووٹر لامحالہ کسی اور امیدوار کو آزماتے ہیں۔ بڑھتی تعلیم اور شعور بھی ووٹروں کو صحیح فیصلہ کرنے کا موقع دیتا ہے۔ چناں چہ ترقی یافتہ ملکوں میں باقاعدگی سے انتخابات ہوئے تو رفتہ رفتہ باصلاحیت، ذہین اور محنتی لوگ سیاست میں نمایاں ہوگئے۔ انہوں نے پھر ملک و قوم کی تعمیر میں سرگرم حصہ لیا اور اپنے دیس کو ترقی یافتہ بنادیا۔

پاکستان میں نوجوان اور جوان ووٹر تعلیم، پیشے، آمدن، طبقے، نسل اور نظریات کے لحاظ سے مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی مسائل بھی ووٹ ڈالتے وقت ان کے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیہات میں آباد نوجوان نسل چاہتی ہے کہ انھیں اور دیگر دیہی ہم وطنوں کو سستی کھاد اور بیج میسر آئے، پانی وافر ملے اور فصل اچھی قیمت پر فروخت ہوجائے۔پچیس سالہ فرحان کراچی کا رہائشی ہے۔ اس کا بچپن دہشت گردی، لڑائی مارکٹائی اور چلتی گولیوں کے سائے میں گذرا  ۔ مگر پچھلے دو تین برس سے کراچی میں نسبتاً امن ہے اور وہ ماضی کے برعکس اب آزادی سے اپنی پسندیدہ جماعت کے حق میں نعرہ بازی کرتا ہے۔

اس کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ الیکشن 18ء کے بعد کراچی دوبارہ امن، محبت اور روشنیوں کا شہر بن جائے۔ ویسے شہرِ قائد مسائلستان زیادہ نظر آتا ہے: جابجا کوڑے کے ڈھیر، پانی ڈھونڈھتے بچے اور عورتیں، سیوریج کے ٹوٹے پائپ، کس کس خرابی کا ذکر کیجیے!سلم جان بلند وبالا پہاڑوں کے دامن میں آباد حسین و جمیل وادی چترال میں بستا ہے۔ یہ باشعور نوجوان علاقے میں پھیلی غربت اور فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتا ہے۔ وہ بتاتا ہے:’’میرے علاقے میں پیر بارسوخ ہیں۔ ان کا حکم ووٹ دینے کے عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ غریب تو ایک پلیٹ بریانی پر اپنا ووٹ بیچ ڈالتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میری علاقے کے سبھی لوگ آزادانہ، اپنی مرضی سے ووٹ ڈالیں۔ انہیں روٹی کی خاطر ووٹ بیچنے کی ضرورت نہ پڑے۔کم ازکم میں خالی پیٹ بھی ایسا خلافِ ضمیر فعل نہیں اپناؤں گا۔‘‘

حیرت انگیز بات یہ کہ کروڑوں نوجوان ووٹروں کی موجودگی کے باوجود تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشوروں میں ان کے لیے کوئی مربوط ،منضبط اور دوررس پروگرام پیش نہیں کیا،بس مختلف نکات میں نوجوانوں کو فائدہ پہنچانے والے جستہ جستہ حوالے ملتے ہیں۔جیسے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف  نے اپنے اپنے منشور میں اعلان کیا کہ وہ برسراقتدار آ کر نوجوانوں کو ملازمت دے گی۔ماہرین کا دعوی ہے، صوبہ سندھ میں پی پی پی حکومت کی کارکردگی سے ملک بھر میں نوجوانوں کی اکثریت  خوش نہیں،اسی لیے الیکشن 18ء میں بیشتر کا جھکاؤ دیگر پارٹیوں کی طرف ہے۔صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن نے نوجوانوں کی بہتری کے لیے لیپ ٹاپ اسکیم اور یوتھ لون اسکیم شروع کی تھیں جن سے انھیں فائدہ پہنچا۔

اس باعث پنجاب کے نوجوان سابقہ  حکومت کو سراہتے ہیں۔مذید براں وہ لوڈ شیڈنگ میں کمی کو بھی ن لیگی حکومت کا اہم کارنامہ سمجھتے ہیں۔تاہم کئی نوجوانوں کا دعوی ہے کہ سابقہ حکومت میں بھی سیاسی رہنماوں اور سرکاری افسروں نے مل کر قومی خزانے سے لوٹ مار جاری رکھی۔ اُدھر صوبہ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی حکومت نوجوانوں کی بہتری کے واسطے سرگرم رہی ۔خصوصاً تعلیم وصحت کے عوام دوست سرکاری منصوبوں کو نوجوانوں نے پذیرائی بخشی۔

تازہ عوامی جائزوں کی رو سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے اکثر شہری حلقوں میں آباد نوجوان لڑکے لڑکیاںکسی وقتی رجحان کے بجائے کارکردگی کے تجزیے کی بنیاد پر اپنا ووٹ استعمال کرنے کے بارے میں پرعزم ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں تینوں بڑی قومی پارٹیوں کے رہنما اور کارکن انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں لیکن اس حوالے سے ایک بڑا فرق یہ نظر آرہا ہے کہ ماضی کے برعکس محض گروہی مفادات کے تحت ووٹ دینے کے بجائے قومی تقاضوں کے تحت ووٹ دینے کے رجحان میں نمایاں اضافہ نظر آرہا ہے۔ بالخصوص ملک کا نوجوان طبقہ ملک کی داخلی اور خارجی ضروریات کو بھی زیر بحث لایا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان جس پارٹی یا امیداور کو بھی ووٹ دیں…انھیں اس بار ووٹ ڈالنے کی خاطر25 جولائی کو ضرور گھر سے نکلنا چاہیے۔جمہوریت کا یہی تو حُسن ہے کہ ایک ووٹ بھی بہت طاقت رکھتا اور سارا نقشہ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اگر نوجوانان ِپاکستان اپنے وطن کو مضبوط،ترقی یافتہ اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے ووٹوں کی قوت سے دیانت دار،اہل اور باصلاحیت امیدوار سامنے لانا ہوں گے۔دوسری صورت میں یہی امکان ہے کہ برادری،پیسے اور اثرورسوخ کے بل بوتے پہ منتخب ہونے والے ملک وقوم پر  چھائے رہیں گے۔

نوجوانانِ پاکستان کے اہم حقائق

یونائٹیڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام(United Nations Development Programme) اقوام متحدہ کا ایک عالمی ترقیاتی منصوبہ ہے۔یہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں مختلف عوام دوست منصوبے شروع کرنے میں حکومتوں سے لے کر عام لوگوں تک کی مالی و تکنیکی لحاظ سے مدد کرتا ہے۔پاکستان میں بھی یہ ادارہ سرگرم عمل ہے اور کئی ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں حصہ لے چکاہے۔

حال ہی میں یونائٹیڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام نے ’’نوجوان پاکستانیوں کی مخفی طاقت آشکارا ‘‘(Unleashing the potential of a Young Pakistan)نامی تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے۔یہ جامع اور منفرد رپورٹ مشہور محققوں،ڈاکٹر عادل نجم اور ڈاکٹر فیصل باری کی تیار کردہ ہے۔اسے مرتب کرتے ہوئے پاکستان کے طول وعرض میں بستے ایک لاکھ تیس ہزار نوجوانوں سے انٹرویو کیے گئے۔نیز ہر سرکاری محکمے اور سماجی تنظیم سے نوجوانوں سے متعلق اعدادوشمار لیے گئے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہماری آبادی کی دو تہائی سے زیادہ تعداد نئی نسل کے ارکان پر مشتمل ہے۔رپورٹ میں جائزہ لیا گیا کہ کروڑوں ارکان والی یہ نئی نسل پاکستان کی تعمیروترقی میں کس قسم کا کردار ادا کرسکتی ہے اور اسے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔اس کو نوجوانانِ پاکستان کے مستقبل اور امنگوں و خواہشوں کو بیان کرتی پہلی جامع تحقیق کہا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے بعض اہم حقائق قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش ہیں:

٭رپورٹ کے مرتبین کو ہر سو لڑکے لڑکیوں میں سے 90لڑکوں اور 55لڑکیوں نے بتایا کہ وہ الیکشن 2018میں ووٹ ڈالیں گے۔

٭وطن عزیز میں بسنے والے ہر سو نوجوانوں میں سے70اپنے آپ کو محفوظ ومامون سمجھتے ہیں۔

٭ہر ایک سو میں سے 89نوجوانوں خود کو خوش وخرم قرار دیا۔

٭50نوجوانوں نے خیال ظاہر کیا کہ ان کا معیار زندگی والدین کی زندگیوں کے معیار سے بہتر ہے۔

٭رپورٹ نے افشا کیا کہ پاکستان کے ہرایک سو نوجوانوں میں سے 55صوبہ پنجاب،23صوبہ سندھ، 14صوبہ خیبر پختون خواہ،4صوبہ بلوچستان اور بقیہ نوجوان آزاد جموں کشیر،گلگت بلتستان و قبائلی علاقہ جات میں مقیم ہیں۔

٭معلوم ہوا کہ ہر سو نوجوانوں میں سے 24سیاست دانوں پر اعتماد کرتے ہیں۔یہ شرح خاصی کم ہے۔

٭ہر سو نوجوانوں میں ایک کے پاس کار ہے جبکہ 12موٹر سائیکل اور 11سائیکل رکھتے ہیں۔

٭پتا چلا کہ ہر سو نوجوان پاکستانیوں میں سے30لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔

٭ایک سو نوجوانوں میں سے 38باقاعدگی سے روزانہ کوئی کھیل کھیلتے ہیں۔

٭ہر سو نوجوان لڑکے لڑکیوں میں سے 6نے بارہویں جماعت تک تعلیم پائی ہے۔جبکہ 29پہلی یا دوسری جماعت تک ہی پڑھ سکے۔تعلیم کی کمی اچھی نشانی نہیں۔

٭رپورٹ کی رو سے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ سو نوجوانوں میں سے صرف 6لائبریریوں تک رسائی رکھتے ہیں۔

٭پاکستانی نوجوانوں میں البتہ موبائل فون مقبول ہے۔ہر سو میں60نوجوان یہ آلہ رکھتے ہیں۔ان میں 16انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔

درج بالا معلومات سے عیاں ہے کہ تمام تر مسائل اور خرابیوں کے باوجود پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت اپنے دیس سے لگائو رکھتی ہے۔ نیز ان کا انداز فکر عموماً مثبت ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ اگر نوجوان پاکستانی بہترین تعلیم وتربیت حاصل کر لیں،مناسب ملازمت پانے میں کامیاب رہیں اور بامقصد سرگمیاں انجام دیں تو وہ اپنے دیس کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں۔گویا پاکستانی حکومت اور عوام،دونوں کو نئی نسل کی پرورش وپرداخت پر توجہ دینا ہو گی تاکہ مستقبل میں محنت کا شیریں پھل مل سکے۔انسانی ترقی کے چیمپین اور مشہور پاکستانی دانشور،ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے ایک بار کہا تھا:

’’ہر قوم کی حقیقی دولت اس کے عام لوگ ہیں۔اور حکومت کو یہی سوچ کر تمام ترقیاتی منصوبے بنانے چاہیں کہ ان کے ذریعے عام لوگ صحت مند،تخلیقی اور طویل زندگی گذارنے کے قابل ہو جائیں۔مگر مادی اور مالیاتی دولت پانے کے لالچ میں یہ سادہ لیکن طاقتور سچ فراموش کر دیا جاتا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔