آدھی نہیں ، پوری نقل کیجئے

زبیدہ رؤف  اتوار 29 جولائی 2018
ہم مغربی معاشروں سے پھٹی جینز کا کلچر سیکھتے ہیں لیکن اچھی عادتیں نہیں

ہم مغربی معاشروں سے پھٹی جینز کا کلچر سیکھتے ہیں لیکن اچھی عادتیں نہیں

ہما رے بچپن میں محلے کی ایک عورت کا میاں نان پکوڑے کی ریڑھی لگاتا تھا۔ کسی دن اس کی خوب بکری ہوتی اور کوئی دن بہت مندا رہتا۔ جس دن خوب بکری ہوتی، اس دن ان کے ہاں چکن یا مٹن کڑاہی بنتی، ساتھ میں سوڈا کا اہتمام ہوتا اور کھانے کے بعد بڑا لڑکا بھاگ کر موٹر سائیکل نکالتا اور آئس کریم کا بڑا پیک لے کر آتا۔

اس دن کی کمائی سے صرف اگلی صبح بازارکے حلوہ پوری کے ناشتے کے لئے پیسے بچتے۔اگلا دن مندا رہتا تومحاورتاً نہیں حقیقتاً ان کا کوئی نہ کوئی بچہ محلے میں برتن لے کر سالن مانگتا نظر آتا۔ محلے کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس نے ان کے بچوں کی فیس، بل کے کچھ پیسے  یا دوائی کے لیے روپے قرض نہ دئیے ہوں۔ یہ بھی سچ ہے کہ محلے کے کسی گھر میں بھی اتنی کڑاھی نہیں بنتی تھی اور نہ اتنی کثرت سے کولڈ ڈر نکس اور آئس کریم کی عیاشی نصیب ہوتی تھی۔ سلیقہ مند عورتیں محلے کے اس گھرانے کا ذکر پھوہڑ پن کی مثال دینے کے لیے کرتی تھیں،اب میں دیکھتی ہوں کہ ہماری قوم کے اکثرگھرانے ایسے ہی پھوہڑپن میں مبتلا ہیں، سمجھ نہیں آتی کیوں؟

ہمارے ہاں صرف وہاں بتی اور پنکھا بند کرنے کی فکر ہوتی ہے جہاں بل اپنی جیب سے جانا ہوتا ہے۔ ایک بات بہت تعجب انگیز ہے کہ باہر کے ملکوں میں قطار بنانے والے اپنے ملک میں قطارکیسے توڑتے ہوئے گزر جاتے ہیں؟ اسی طرح ہر وہ جگہ جہاں بل کسی اور نے دینا ہے وہاں لوگ لا پرواہ ہو جاتے ہیں، وہ اپنے گھر میں بھاگ بھاگ کر لائٹیں بند کرتے ہیں۔ ہاسٹلز میں ہمارے طلبہ وطالبات جو قوم کے معمار ہیں اپنے کمروں میں پنکھے چلتے چھوڑ کر کلاسز لینے جاتے ہیں ، دفاتر میں تھوڑی دیر کے لیے کمرے سے باہر نکلتے وقت کوئی بھی پنکھا بند نہیں کرتا۔ اسی طرح جوائنٹ فیملی سسٹم میں بڑے بھیا نے بل دینا ہے تو ان کی بیوی تو لائٹ اور پنکھا چلاتے ہوئے سوچے گی لیکن چھوٹی بہو اے سی بھی اتنا چلائے گی کہ بجلی جانے کے بعد بھی ان کا کمرہ ٹھنڈا رہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے و یمن ہاسٹل میں ایک انتہائی قابل خاتون سے ہمارا ملنا ہوا جو وہاں کسی اچھی پوسٹ پر تھیں، ان کی گفتگو میں دینی و دنیاوی علم کے ٹانکے جا بجا لگے ہوئے تھے۔ اگلے دن جب وہ کام پر نکل چکیں تو میرا گزر ان کے کمرے کے سامنے سے ہوا، روشن دان سے پنکھا چلتا نظر آیا ، بہت پریشانی ہوئی کہ محترمہ جلدی میں پنکھا بند کرنا بھول گئی ہیں۔ سارا دن اسی بے چینی میں گزر گیا کہ کب وہ آئیں تو انہیں پتا چلے کہ آج کتنا نقصان ہوگیا، سارا دن کتنی بجلی ضائع ہوئی ہوگی۔ مغرب ہونے پر وہ واپس آئیں تو میں نے انہیں تفکر سے کہا کہ آپ آج پنکھا بند کرنا بھول گئی تھیں۔

خلاف توقع انہوں نے کسی پریشانی کا اظہار نہ کیا اور مجھے میرے تھیسس کا پوچھنے لگ گئیں۔ اگلے دن پھر ان کا پنکھا سارا دن چلتا رہا۔ میں نے اپنی روم میٹ سے ذکر کیا تو اس نے کچھ عجیب طرح سے میری طرف دیکھ کر کہا:’ یہاں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو لائٹس اور پنکھے ذمہ داری سے بند کرتے ہیں۔ اس کے بعد میرا وہاں دو دن کا مزید قیام تھا، ان کا پنکھا اور میرے دل پر آری ایک ہی رفتار سے چلتی رہی۔ اس کے بعد ان خاتون سے ملاقات نہ ہوسکی یا شاید انھوں نے بھی مجھے اکثر لوگوں کی طرح قنوطی سمجھ کر، جان بوجھ کر نظر انداز کیا ہوگا۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں بھی یہی تماشا دیکھا۔ پھر لا ئبریری اور سرکاری سکول میں بھی لوگوںکو اور یہاں تک کہ خود انتظامیہ کو بجلی بے دریغ ضائع کرتے دیکھا۔ اگر کسی کو ٹوکا تو ان پر اثرنہ ہوا۔

ساری زندگی یہ سمجھ نہیں آئی کہ ان لوگوں کو بچپن میں کسی نے یہ بات نہیں بتائی کہ مرنے کے بعد ہر چیز کا حساب دینا ہوگا۔ ہمیں گھر کا ماحول کچھ اس طرح کا ملا تھا کہ ہر وقت آخرت، حساب، قبر کا ذکر رہتا اور والدین شرارت پر ڈانٹنے کے بجائے بس پل صراط کی تصویرکشی کردیتے جو تھپڑ سے بھی زیادہ مؤثر ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ ہما ری ماں جب سبزی بنایا کرتی تھیں تو پتے اور ڈنٹھل کوڑے میں پھینکنے کی بجائے ہم بچوں سے کہا کرتی تھیں کہ محلے میں کسی غریب گھر کی بکری یا بھینس کے آگے پھینک آؤ۔

ہم اگر چڑ کر کہتے کہ کوڑے میں پھینک دیں تو آگے سے لمبی بات سننا پڑتی کہ کوڑا جتنا کم بنے اتنا انسانوں کے لیے اچھا ہے اور بکری، بھینس کتنی خوش ہوگی کہ مزے دار کھانا ملا، اور اللہ بھی خوش ہوگا۔ اگر ماں سے بچت ہوتی تو بڑی بہن کے قابو آ جاتے جو ہر بور کام کے فائدے کچھ اس طرح سے گنواتیں کہ اپنی کم علمی کا احساس لیکر خوشی خوشی گلی کی نالی سے پلاسٹک بیگ تک نکال دیتے کہ پانی رواں رہے اور مچھر نہ پیدا ہوں۔ ہمارے بھائی اکثر والدہ سے کہا کرتے تھے:’’آپ نے آخرت کے حساب کو اتنا ضرب کیا کہ ہمارا زندگی کا حساب منفی ہوگیا‘‘۔

پاکستانی معاشرے میں بہت دفعہ مجھے، میرے بہن بھائیوں کو قنوطی ہونے کا طعنہ سننا پڑا اور سچ تو یہ ہے کہ مجھ پر دوسروں سے مختلف ہونے پر شرمندگی کا احساس ہمیشہ غالب رہا لیکن ٹور نٹو(کینیڈا) کی پبلک لائبریری میں ایک دن جب میرا چار سالہ بیٹا لائبریری سے باہر نکلنے کے لیے دروازہ کھولنے کے لیے خود کار بٹن دبانے لگا تو میں نے بے اختیار اسے روک کر کہا: ’’ہم دروازہ کھول سکتے ہیں، یہ ان لوگوں کے لیے ہے جنھیں دروازہ کھولنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

اسے بغیر ضرورت دبانے سے بجلی ضائع ہوتی ہے‘‘۔ میرے علم میں نہیں تھا کہ فرنٹ ڈیسک پر بیٹھی لائبریرین میری اپنے بیٹے سے گفتگو سن رہی ہے، اس نے میرے پاس آکر کہا:’’ یقیناً تم بہت اچھے ہاتھوں میں پلی ہو، ورنہ اپنی تیس سالہ ملازمت میں، میں نے شاید ہی کسی ماں کو اپنے بچے کو بغیر ضرورت بٹن دبانے سے منع کرتے دیکھا ہو‘‘اور جب ہمارے فیملی ڈینٹسٹ ڈاکٹر مارکن کو میں نے نہ استعمال ہونے والا بریسز کا سامان سیل بند حالت میں یہ کہہ کر واپس کیا کہ کسی اور کے کام آ جائے گا تو اس نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا: ’’میرے سٹاف کو ان ہاتھوں سے تربیت پانی چاہئے  جنھوں نے تمہاری تربیت کی ہے‘‘۔ہما رے والد ایک غیر ملکی کے ساتھ کسی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ ناشتے کی میز پر اچانک بات کرتے کرتے وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور فورا ہی واپس آگیا۔ والد صاحب نے پوچھا خیریت تو تھی تو اس نے کہا:’’مجھے شک پڑا تھا جیسے میں کمرے کی لائٹ جلتی چھوڑ آیا ہوں‘‘۔

ہمیں سکولوں،گھروں ، ٹی وی پر ہر جگہ بجلی بچانے کی ترغیب دینی چاہیے، اس کے لئے ہر شخص کو خود مثال بننا پڑے گا۔ کیسی بد قسمتی ہے کہ غیر ملکیوں کے تہوار ، ان کی پھٹی جینز اور ڈسپوز ایبل کلچر تو اپنا لیا جاتا ہے لیکن بجلی بچانے جیسی اچھی عادت کو غیر اہم سمجھا جاتا ہے۔ کاش! یہ قوم پوری طرح سے ہی نقل کر لیتی تو ویلنٹائن ڈے منانے کے ساتھ بجلی بچانا بھی سیکھ لیتی۔ جہاں ہماری قدریں ملیا میٹ ہو رہی ہیں وہاں ملکی ترقی بھی ہو جاتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔