الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کو ڈائیلاگ کرنا ہوگا

الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں سے ان تمام حلقوں کی تفصیلات لینی چاہیے جن پر انھیں شکایات ہیں۔


مزمل سہروردی August 02, 2018
[email protected]

عجب تماشہ لگ گیا ہے۔ ایک طرف ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر الیکشن کمیشن سے استعفیٰ مانگ رہی ہیں۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن پریس کانفرنس میں اعلان کر رہے ہیں کہ وہ مستعفی نہیں ہو نگے۔ سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری ملک میں ایسا کیسے چل سکتا ہے۔ مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل تو ہونا چاہیے۔ مہذب قومیں اپنے مسائل کا حل اس طرح پریس کانفرنسوں میں تلاش نہیں کرتیں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ انتخابی نتائج کے اعلان اور فارم 45 کے حوالے سے اپوزیشن پارٹیوں کے امیدواروں کو تحفظات ہیں۔ خود الیکشن کمیشن نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں ان مسائل کا ذکر کیا اور ان پر انکوائری کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ لیکن کیا یہ کافی ہے۔ کیا اس سے سارے شکوک و شبہات ختم ہو جائیں گے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے جس طرح مسائل کو ہینڈل کیا ہے اس نے مسائل کو کم کرنے کے بجائے بڑھا دیا ہے۔

یہ کیا بات ہوئی کہ الیکشن کمیشن اپنی وضاحتوں میں کہہ رہا تھا کہ جب ایک امیدوار کی گرفتاری ہوئی اور اس پر ایک سیاسی جماعت نے احتجاج کیا تو ہم نے نیب کو مزید گرفتاریوں سے روک دیا۔ بھائی اگر الیکشن کے دوران گرفتاریاں قانونی ہیں تو آپ روکنے والے کون ہیں اور اگر غیر قانونی ہیں تو ایک بھی کیوں ہوئی۔ آپ نے کہا کہ ہم نے نیب کو الیکشن کے دوران سیاستدانوں کو بلانے سے روکا' بھائی آپ کون ہوتے ہیں روکنے والے۔ اگر بلاناقانونی ہے تو آپ روک نہیں سکتے اور اگر غیر قانونی تھا تو بلایا کیوں جا رہا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں جب ایک جماعت کو ٹارگٹ کیا جا رہا تھا تو آپ انجوائے کر رہے تھے۔ لیکن جب آپ دیکھتے تھے کہ شور بڑھ گیا ہے۔ تو اس شور کو کنٹرول کرنے کے لیے فائر بریگیڈ کا کام شروع کر دیتے تھے۔

اب بھی جب شور مچ رہا ہے تو آپ انکوائری کا حکم دے کر معاملہ کو ٹھنڈا نہیں کر سکتے۔نتائج کا اعلان بروقت کیوں نہیں ہوا۔ آر ٹی ایس سسٹم کیوں بند ہو گیا۔ فارم 45کا کیا معاملہ رہا۔ یہ مسترد ووٹوں کی کیا کہانی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ الیکشن کمیشن یہ تسلیم کر لیتا کہ واقعی انتخابی نتائج کا اعلان کرنے اور فارم 45کے حوالہ سے مسائل سامنے آئے ہیں۔ اس لیے ان مسائل کے بعد الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اگلا لائحہ عمل بنائے گا۔ آپ پریس کانفرنس کا جواب پریس کانفرنس سے دینے کے بجائے تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بلاتے اور بیٹھ کر مسئلہ کا حل تلاش کرتے۔

اب فارم45کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ یہ فارم موقع پر پولنگ ایجنٹ کو دینا لازمی ہے۔ اب اس کو ویب سائٹ پر چڑھانے سے کیا ہوگا۔ کون فارم 45کو مانے گا۔ ہر جگہ سے ایک نئی کہانی آرہی ہے۔ کہیں مسترد ووٹوں کی کہانی ہے۔ اس سے الیکشن کمیشن کیسے راہ فرار اختیار کرے گا۔ کہیں نہ کہیں الیکشن کمیشن کو اس سب کی ذمے داری قبول کرنی ہو گی۔ وہ کسی اور کو ذمے دار ٹھہرا کر خود بچ نہیں سکیں گے۔

میں آج پہلی دفعہ الیکشن کمیشن پر تنقید نہیں کر رہا۔ یہ الیکشن کمیشن پہلے دن سے ہی کمزور تھا۔ میں اس کمزوری پر پہلے دن سے لکھ رہا تھا۔ یہ سیاسی جماعتوں پر اپنی رٹ قائم کرنے پر پہلے دن سے ہی ناکام رہا تھا۔ میں ہارنے والی سیاسی جماعتوں کی کیا بات کروں جیتنے والی سیاسی جماعتیں بھی الیکشن کمیشن کا احترام کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ آج الیکشن کمیشن کا یہ حال ہے ہوئے تھے جن کے لیے بدنام وہ بھی اپنے نہ ہوئے۔ ہارنے والے تو ایک طرف جیتنے والے بھی الیکشن کمیشن کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جو ہونا تھا ہو گیا۔ اب کیا کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کو فوری طور پر سیاسی جماعتوں کا ایک اجلاس بلانا چاہیے اور تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو غور سے سننا چاہیے۔ ان تحفظات کو دور کرنے کی حکمت عملی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں سے ان تمام حلقوں کی تفصیلات لینی چاہیے جن پر انھیں شکایات ہیں۔ ان حلقوں کی شکایات کا جائزہ لینا چاہیے۔ اور جن حلقوں میں شکایات میں وزن ہو۔ ان میں دوبارہ انتخابات میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت ملک میں بہت سے حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔ ان کے ساتھ اگر پچاس ساٹھ حلقوں میں دوبارہ انتخابات ہو بھی جائیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ کم از کم سسٹم تو چل سکے گا۔

الیکشن کمیشن جب سیاسی جماعتوںکے ساتھ ڈائیلاگ شروع کرے گا تواس کا حل نکل آئے گا۔ پہلے مرحلہ میں سیاسی جماعتوں کی شکایات کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا انکوائری کمیشن بھی بنایا جا سکتا ہے۔ جس پر سب سیاسی جماعتوں کو اعتبار ہو۔ وہ جس جس حلقہ میں کہیں گے ان میں دوبارہ انتخابات کروائے جا سکتے ہیں۔ ویسے بھی عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اپوزیشن جتنے حلقہ چاہے کھلوا سکتی ہے۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کو ہٹ دھرمی کے بجائے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیے ڈائیلاگ شروع کرنا چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس پاکستان نے اب تک اس معاملہ کو الگ رکھ کر درست کیا ہے۔ عدلیہ کو بے وجہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ سیاست سے خود کو دور رکھنا چاہیے۔ لیکن اس انکوائری کمیشن کے قیام اور اس کی تشکیل میں الیکشن کمیشن کی مدد کرنی چاہیے۔ ویسے بھی ن لیگ عدلیہ پر تمام تر تحفظات کے باوجود دھاندلی پر جیوڈیشل کمیشن کی بات کر چکی ہے۔ میں کسی جیوڈیشل کمیشن کے حق میں نہیں ہوں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن ٹربیونل بن گئے ہیں۔

اگر کسی کو کسی بھی قسم کی کوئی شکایت ہے تو الیکشن ٹربیونل میں جائے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن ٹربیونل میں کئی کئی سال فیصلے نہیں ہوتے۔ کم از کم چیف جسٹس ایک حکم تو کر سکتے ہیں کہ الیکشن ٹربیونل میں تمام درخواستوں کا فیصلہ ایک ماہ میں کیا جائے گا اور اس ضمن میں آگے اپیلوں کا سارا عمل بھی تین ماہ میں مکمل کر لیاجائے گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ساری سیاسی جماعتوں کا الیکشن کمیشن پر اعتماد بحال ہو۔

جس کے لیے الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کو پریس کانفرنس کا جواب پریس کانفرنس میں دینے کے بجائے مسئلہ کا حل ڈھونڈنا ہوگا۔ جائز شکایات کا ازالہ کرنا ہوگا۔ ڈائیلاگ کرنا ہوگا۔ یہی ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔ اسی سے پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو گی۔ اسی سے پاکستان میں استحکام آئے گا۔ ورنہ عدم استحکام بڑھے گا۔ جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔

مقبول خبریں