ایم کیو ایم کی غیر فطری سیاست
ایم کیو ایم کی جانب سے تحریک انصاف کی حمایت ایک غیر فطری فیصلہ ہے جس کی سیاست کے مروجہ اصولوں میں کوئی گنجائش نہیں۔
ایم کیو ایم کی جانب سے تحریک انصاف کی حمایت پر ایک دوست نے خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔ دوست کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے تحریک انصاف کی حمایت ایسی ہی ہے جیسے کسی خاتون سے یہ کہا جائے کہ اس نے اپنی سوتن کو گھر میں خوش آمدید کہنا ہے، اس کے آنے پر اس کا شاندار استقبال کرنا ہے، عزیز و اقارب کی شاندار دعوت کرنی ہے، تحفے تحائف دینے ہیں۔
چہرہ پر ناگواری اور غم کے کوئی اثرات نہیں ہونے چاہیے۔ پھر گھر کی تجوری کی چابیاں بھی اس کو دینی ہیں۔ دوست کا کہنا ہے ایم کیو ایم سے بھی یہی کام لیا جا رہا ہے۔ اب ایم کیو ایم کے دل کی حالت آپ خود جان سکتے ہیں۔
بات کو سادہ زبان میں بیان کیا جائے تو ایم کیو ایم کی جانب سے تحریک انصاف کو گلے لگانے کا فیصلہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو کہا جائے کہ اپنے دشمن کو گلے لگا لے۔ اس کی بے گناہی کے قصیدے گائے۔ گلی گلی چوراہے چوراہے اس کے حق میں گواہی دے۔ اس کی بے گناہی کی قسمیں کھائے۔ اور پھر خون کے آنسو روتے ہوئے نہ تو آواز نکالنے کی اجازت ہو اور نہ ہی آنسو آنکھوں سے باہر آنے کی اجازت ہو۔ ایسے جیسے کسی نے کہہ دیا ہو کہ اگرآنسو باہر آئے تو آنکھیں تو نکال دوں گا۔ یہ بھی کہنے کی اجازت نہ ہو کہ میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں۔
تحریک انصاف سے تعاون پر ایم کیو ایم کی حالت اس بسنتی کی ہے جسے اپنے محبوب کے قاتلوں کی محفل میں ناچنے پر مجبور کر دیا جائے۔ اور ناچ بسنتی ناچ کے نعرے لگائے جائیں۔ اور بسنتی بھی ایسا ناچے کہ سب کے دل عش عش کر اٹھیں۔
ایم کیو ایم کی حالت توپتھروں کے زمانے کے اس غلام سے بھی بدتر ہے جسے نہ تو پیٹ بھر کھانا دیا جاتا ہے، نہ ہی تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے دیے جاتے ہیں۔ سب کے سامنے شرمندہ کیا جاتا ہے۔ جانوروں سے بھی بدترسلوک کیا جاتا ہے۔ دن رات جبری مشقت لی جاتی ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ وفادار نہیں ہے۔
قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ ایک طرف ایم کیو ایم کراچی میں دھاندلی کا رونا رو رہی ہے دوسری طرف جس کے حق میں دھاندلی کی گئی ہے اس کے ساتھ شراکت اقتدار بھی ہے۔ ایک طرف ان کا مقدمہ ہے کہ ان کا مینڈٖیٹ چوری کر کے تحریک انصاف کو دے دیا گیا ہے دوسری طرف وہ اس چوری شدہ مینڈیٹ کے ساتھ تحریک انصاف کو حکومت بنانے میں مدد دینے کے لیے بھی بے تاب ہیں۔ کون ان کو سمجھائے کہ دھاندلی کا رونا اور تحریک انصاف سے تعاون ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ انھیں ان دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ وہ سیاسی طور پر دو کشتیوں میں سوار نہیں ہو سکتے۔ ویسے بھی دو کشتیوں کا سوار ڈوب جاتاہے۔ لیکن ایم کیو ایم کو کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے دو کشتیوں کی سوار ہے۔ اسی لیے اس حال کو پہنچی ہے۔
کیا کوئی ایم کیو ایم سے سوال کر سکتا ہے۔ بھائی ایک طرف تحریک انصاف کی کشتی میں سوار ہو رہے ہو دوسری طرف کراچی میں الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج بھی کر رہے ہو۔ یہ کس کو بیوقوف بنا رہے ہو۔اگر دھاندلی ہوئی تو جو پورے ملک میں دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں ان کے ساتھ جا کر بیٹھو۔ اگر دھاندلی نہیں ہوئی ہے تو ان کے ساتھ جا کر بیٹھو جو کہہ رہے ہیں کہ دھاندلی نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں ٹھیک اور درست مینڈیٹ ملا ہے۔
لیکن ایسا صرف ایم کیو ایم ہی نہیں کر رہی۔ آپ سندھ میں جی ڈی اے کو دیکھ لیں ۔ جی ڈی اے بھی دھاندلی کے خلاف شور مچا رہی ہے لیکن تحریک انصاف کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ ایسے میں اگر ایم کیو ایم کر رہی ہے تو کیا غلط ہے۔ لیکن جی ڈی اے تو انتخابات سے قبل ہی تحریک انصاف کی اتحادی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ مل کر الیکشن لڑا ہے۔دونوں فطری طور پر ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں۔ ان کا آپس میں ووٹ بینک کا کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی جی ڈی اے کے لیے بھی بہت مشکل ہو گا کہ ایک طرف تحریک انصاف کے ساتھ بیٹھے اور دوسری طرف دھاندلی کا شور بھی مچائے۔
ایم کیو ایم کی جانب سے تحریک انصاف کی حمایت ایک غیر فطری فیصلہ ہے جس کی سیاست کے مروجہ اصولوں میں کوئی گنجائش نہیں۔ تحریک انصاف نے ایم کیو ایم سے کراچی کی حاکمیت چھین لی ہے۔ جو بچ گئی ہے اگر تحریک انصاف کامیاب ہو گئی تو اگلی بار چھن جائے گی۔ اس لیے اب ایم کیو ایم کا اگر کوئی سیاسی حریف ہے تو وہ تحریک انصاف ہے۔ سیاست میں آپ سب سے تعاون کر لیتے ہیں لیکن اپنے سیاسی حریف سے تعاون نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو سیاست کے لیے زہر قاتل کی حیثیت حاصل ہے۔ اب یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ایم کیو ایم کیوں اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف سے تعاون کرنے کے لیے مجبور ہے۔
اگر تحریک انصاف سے ہی تعاون کرنا تھا تو اس سے بہتر تھا کہ مصطفیٰ کمال سے تعاون کر لیتے۔ کیا مصطفیٰ کمال سے تعاون تحریک انصاف سے تعاون سے کم کڑوی گولی نہیں تھی۔ تب تو عامر خان نے فوراً ایم کیو ایم کی موت کی نوید سنا دی تھی۔ کیا اب بھی ایم کیو ایم بتدریج اپنی سیاسی موت کی طرف نہیں جا رہی۔ کیا اب عامر خان کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ایم کیو ایم کو میٹھے زہر کے ساتھ سیاسی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے۔ کیا ایسے نہیں ہے کہ ایم کیو ایم کے ساتھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔
لیکن اس میں پریشانی والی کون سے بات ہے ۔ ایم کیو ایم پہلی بار تو ایسا نہیں کر رہی۔ عام انتخابات سے قبل سینیٹ کے انتخابات میں بھی ایم کیو ایم کا مینڈیٹ چوری کر لیا گیا تھا۔ اس کو اس کے حصہ کی سینیٹ کی سیٹوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔لیکن بعد میں انھی سے تعاون پر مجبور بھی کر دیا گیا تھا جنہوں نے ان کی سینیٹ کی نشستیں چرائی تھیں۔ اس لیے نہ تو ایم کیو ایم ایسا پہلی بار کر رہی ہے اور نہ ہی ایم کیو ایم کے ساتھ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ ایم کیو ایم بھی اس سلوک کی عادی ہو چکی ہے ۔ اور سب کو پتہ ہے کہ جو مرضی کر لو ان کی کیا مجال کہ ادھر سے ادھر ہو جائیں۔ایم کیو ایم نے سنجرانی کو ووٹ دیا۔ تب بھی ایم کیو ایم میں اتنی جرات نہیں ہے کہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر احتجاج بھی کر سکتی ہے۔
شائد سیاست کرنا اب ایم کیو ایم کی قیادت کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔یہ مجبور اور بے کس لوگ اب سیاسی فیصلہ کرنے کے قابل ہی نہیں رہے ہیں۔ یہ اپنے حق کے لیے کھڑے نہیں ہو سکتے، کراچی کے عوام کے لیے کیا کھڑے ہونگے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سب پر تو مقدمے ہیں۔ وہ اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اس سے تو اچھا ہے کہ یہ سب سیاست سے کنارہ کشی کر لیں۔ سیاست میں غیر فطری فیصلوں سے ووٹ بینک کم ہوتا ہے بڑھتا نہیں ہے۔ لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی ایم کیو ایم کے ساتھ ہو رہا ہے۔ شاید ڈیزائن ہی یہ ہے اور ایم کیو ایم کی قیادت کو بھی پتہ ہے۔ اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔