پاکستان کے قرضے اور آئی ایم ایف

جب 2013ء میں ن لیگ نے حکومت سنبھالی تھی تو تب بھی یہی رونا تھا کہ پاکستان کی معیشت ڈوب چکی ہے


مزمل سہروردی August 06, 2018
[email protected]

کسی بھی سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر کی پہچان اس کے سیاسی نظریات ہی ہوتے ہیں۔ اس نے عوام سے کیا وعدے کیے ہیں۔ وہ کس نعرے پر الیکشن جیت کر آیا ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے لیڈر عمران خان نے حالیہ انتخابات میں پاکستان کے بڑھتے بیرونی قرضوں کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے قرضوں کو ن لیگ کی حکومت کی معاشی ناکامی بتایا ۔ انھوں نے بیرونی قرضہ نہ لینے اور قرضوں کے حجم کو کم کرنے کا بھی نعرہ لگایا ہے۔

لیکن ابھی تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا بھی نہیں اور متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف سے مدد لینے کا اشارہ کر دیا ہے۔ انھوں نے آئی ایم ایف سے بارہ ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج لینے کی بات کی ہے۔ ادھر امریکا بہادر نے اس کی کھلم کھلا پاکستان کے لیے کسی ممکنہ بیل آوٹ پیکیج کی مخالفت کردی ہے۔ خیر سے اسد عمر نے بھی امریکا کے خلاف ہی بیان داغ دیا ہے۔ ایک دوست نے کہا ہے کہ تحریک انصاف نئی ہے، اسے آہستہ آہستہ احساس ہو گا کہ عالمی سطح پر کس بات کا جواب دیتے ہیں اور کس بات کا جواب نہیں دیتے۔ کیونکہ اگر آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہے تو امریکا کی ماننی ہوگی اور اگر امریکا کو ترکی بہ ترکی جواب دینا ہے تو قرضہ نہیں لینا ہو گا۔تحریک انصاف کو یہ بات سیکھنے میں بھی وقت لگے گا۔ ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔ اس سے ملک کا نقصان ہوتاہے۔

اس وقت تحریک انصا ف یہ کہہ سکتی ہے کہ ن لیگ ملک کی معیشت اتنی بری حالت میں چھوڑ کر گئی ہے کہ آئی ایم ایف جانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ ن لیگ معیشت کو تباہ کر گئی ہے، اس لیے ہم کیا کریں۔ ہمیں حالات ٹھیک کرنے کے لیے وقت چاہیے۔ اس لیے یہ ایک قرضہ تو لینا ہی ہوگا۔ لیکن اگر غور سے دیکھیں تو گزشتہ دس سال سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔ جب 2013ء میں ن لیگ نے حکومت سنبھالی تھی تو تب بھی یہی رونا تھا کہ پاکستان کی معیشت ڈوب چکی ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے 2008ء میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت بر سر اقتدار آئی تو تب بھی یہی رونا تھا کہ ملکی معیشت ڈوب چکی ہے۔ مشرف نے شوکت عزیز نے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ ملک میں نہ بجلی ہے نہ پیسہ۔ اس لیے ملک تباہ ہو گیا ہے۔ دنیا سے قرضہ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ آپ اس سے بھی پیچھے چلے جائیں جب پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تب بھی ان کا یہی نعرہ تھا کہ نواز شریف نے ملک تباہ کر دیا تھا۔ اسحاق ڈار عالمی معاشی اداروں کو جعلی اعداد و شمار دیتے رہے۔ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے۔ مجھے ملک بہت بری حالت میں ملا ہے۔ اس لیے قرضہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس سے بھی پیچھے چلے جائیں۔ جہاں تک آپ کا دل کرتا ہے۔ آپ چلے جائیں۔ ایک ہی رونا ملے گا کہ جانے والا ملک کو تباہ کر گیا ہے۔ا س لیے قرضہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

مجھے معیشت کے بارے میں کچھ خاص نہیں پتہ ہے۔ یہ اعداد و شمار کا نہ سمجھ آنے والا کھیل ہے۔ لیکن پھر بھی زر مبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے بہت شور رہتا ہے۔ اگر زرمبادلہ کے ذخائر کے تناظر میں دیکھا جائے تو 2008ء میں جب انتخابات ہوئے تو زرمبادلہ ذخائر 11 ارب ڈالر کے قریب تھے۔ 2013ء میں جب ن لیگ کی حکومت آئی تو ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر11 ارب ڈالر کے قریب ہی تھے۔ اس طرح پیپلزپارٹی کی حکومت نے کوئی خاص تبدیلی نہیں کی۔ اب 2018ء میں جب تحریک انصاف حکومت بنانے جا رہی ہے تو ملک میں زرمبادلہ 17 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ میں اس پر اس سے زیادہ کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔

لیکن عمران خان نے قوم کو یہ امید دلوائی تھی کہ وہ آئیں گے تو مزید قرضہ نہیں لیں گے اور ملک کو پیروں پر کھڑا کر دیں گے۔ لیکن یہ سب ایک دن میں ممکن نہیں۔ ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ کہ وہ بنی گالہ میں بیٹھے بیٹھے سب کچھ ٹھیک کر دیں۔ لیکن پھر بھی عمران خان کہتے تھے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ان پر بہت اعتماد ہے۔ وہ آئیں گے تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد واپس آجائے گا۔ وہ کہتے تھے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مدد سے وہ پاکستان کی قسمت بدل دیں گے۔

کیا آج آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے تحریک انصاف اور عمران خان کو پہلے مرحلہ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے مدد نہیں مانگنی چاہیے۔ ایک دوست کے مطابق اگر اس عید پر بیرون ملک مقیم 76 لاکھ پاکستانی قربانی کے لیے تین سو سے پانچ سو ڈالر بینک سے اپنے خاندانوں کو یہاں بھیج دیں تو ایک ارب ڈالر آ جائے گا۔ جس سے فوری طور پر آئی ایم ایف جانے کا خطرہ ٹل جائے گا۔ یہ پاکستان کے لیے چندہ نہیں ہو گا۔ انھوں نے صرف اپنے گھر والوں کو پیسے بھیجنے ہیں۔ پاکستان کو زرمبادلہ مل جائے گا۔ اور اگر یہ پاکستان کو چندہ دیں تو پھر تو مشکلات مزید آسان ہو جائیںگی۔

عمران خان کی تو پہچان ہی یہ ہے کہ انھوں نے شوکت خانم کے لیے نمل یونیورسٹی کے لیے اور پھر تحریک انصاف کے لیے بہت فنڈز اکٹھے کیے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے دل کھول کر عمران خان کو چندہ دیا۔ویسے تو تحریک انصاف کا بیرون ملک سے فنڈنگ لینے کا کیس ابھی الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔ تحریک انصاف کا ایک دفاع یہ بھی ہے کہ بیرون ملک پاکستانی انھیں چندہ دے سکتے ہیں۔

آج بھی قوم کو اسی عمران خان کی ضرورت ہے۔ 1997ء میں جب نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تھا تو انھوں نے قرض اتارو ملک سنوارو کی مہم چلائی تھی۔کہا جاتا ہے کہ تب بھی قوم نے دل کھول کر اس مہم میں چندہ دیا تھا۔ لیکن یہ بھی کہانیاں ہیں کہ اس رقم کا درست استعمال نہیں کیا گیا۔ لیکن عمران خان کا تو دعویٰ ہے کہ ان پر سب کو اعتماد ہے۔ ایسے میں کیا عمران خان کو نہیں چاہیے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے پاکستان کے قرضے ادا کرنے کے لیے ایک بڑی مہم کا آغاز کریں۔ جو لوگ آج بنی گالہ میں وزارتوں اور دیگر اہم عہدوں کے لیے ڈیرے ڈال کر بیٹھے ہیں۔ انھیں بیرون ملک پاکستان کے لیے چندہ مہم کے لیے کیوں نہیں بھیجا جا رہا ہے۔اگر آئی ایم ایف کے پاس ہی جانا ہے۔ اگر عمران خان اور اسد عمر نے بھی پرانے حکومتوں کی طرح نئے قرضے ہی لینے ہیں۔ تو پھر ان میں اور باقیوں میں کیا فرق رہے گا۔

مقبول خبریں