نواز شریف کو سزا اور باقی آزاد کون مانے گا
صرف بھٹو کو پھانسی دینے سے قتل نہیں رک سکے۔ اسی طرح نواز شریف کو سزا دینے سے کرپشن نہیں رک سکے گی۔
ملک میں نئے انتخابات ہو گئے۔ کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن بھی ہو گئے۔ چند جگہ عدالتوں کے حکم امتناعی ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ لیکن کیا ان انتخابات اور ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت کے آنے سے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ مجھے ایسا نہیں لگتا بلکہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن ان انتخابی نتائج پر کہیں نہ کہیں کسی ادارے کی مہر ہے۔ ایک ادھورے احتساب کی مہر ہے۔ کرپشن کے خلاف ایجنڈے کے اثرات ہیں۔
یہ طے ہونا باقی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز اڈیالہ جیل میں کرپشن کے قیدی ہیں یا ضمیر کے قیدی ہیں، یہ فیصلہ کسی عدالت نے نہیں کرنا بلکہ عوام نے کرنا ہے۔ جیسے ہر گزرتے وقت کے ساتھ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عوام کی عدالت میں مسترد ہو گیا۔ اسی طرح حالیہ انتخابی نتائج کے حوالہ سے بھی یہ بات قابل بحث ہے کہ کیا عوام کی عدالت نے نواز شریف کی کرپشن پر مہر ثبت کی ہے یا نواز شریف کی بے گناہی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کا مقدمہ ابھی عوام کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ عوام ابھی دیکھ رہے ہیں۔ اگر تو پاکستان میں کرپشن بیرون ملک جائیداد رکھنے اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر صرف نواز شریف کو سزا ہوتی ہے تو پھر یہ بھٹو کی پھانسی والا معاملہ ہے۔ عوام اس کو قبول نہیں کریں گے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ نواز شریف ضمیر کے قیدی بنتے جائیں گے۔ جس طرح بھٹو کی پھانسی کے وقت یہ دلیل دی جاتی تھی کہ دیکھیں قتل تو ہوا ہے۔
دیکھیں بھٹو کے اپنے ساتھی وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ آج ایک قتل پر بھٹو کو پھانسی ہو گئی تو کل کوئی طاقتور کسی کو قتل کروانے کی جرات نہیں کرے گا۔ جیسے آج یہ دلائل دیے جا رہے ہیں کہ دیکھیں فلیٹ تو موجود ہیں۔ قطری خط جعلی نہیں ہے۔ منی ٹریل نہیں ہے۔ آج ایک نواز شریف کو سزا دے دی گئی تو پھر کوئی آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ لیکن یہ دلائل کل بھی غلط تھے۔ آج بھی غلط ہیں۔
صرف بھٹو کو پھانسی دینے سے قتل نہیں رک سکے۔ اسی طرح نواز شریف کو سزا دینے سے کرپشن نہیں رک سکے گی۔ احتساب اور انصاف کی خوبصورتی یہی ہے کہ جب تک یہ یکساں نہ ہوں اس کا اثر نہیں ہوتا۔ پتہ نہیں کیوں لیکن ایک تاثر بن رہا ہے کہ نواز شریف سے لڑائی کے بعد آصف زرداری مقتدر حلقوں کی ضرورت بن گئے۔ نواز شریف سے لڑائی کے بعد ملک کی اسٹبلشمنٹ آصف زرداری سے لڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایک ساتھ دو محاذ نہیں کھولے جا سکتے۔ اگر اس موقع پر آصف زرداری سے بھی لڑائی شروع ہو گئی تو آصف زرداری اپنا سارا سیاسی وزن نواز شریف کے پلڑے میں ڈال دیں گے اور اس طرح نواز شریف کی ہاری ہوئی بازی جیت میں بدل جائے گی۔ حالیہ انتخابی نتائج کوبھی عوامی سطح پراسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ خود آصف زرداری بھی شش و پنج میں ہیں کہ ان کی اور اسٹبلشمنٹ کی یہ ڈیل چلے گی کہ نہیں ۔ دوسری طرٖف دوست بھی پریشان ہیں کہ آخر کب تک زرداری صاحب کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ دونوں طرف اعتماد کا فقدان نظرآرہا ہے۔ آصف زرداری کو جس کلین چٹ اور محفوظ مستقبل کی نوید درکار ہے وہ انھیں نہیں مل سکی ہے۔ دوسری طرف زرداری سے تعاون کا واحد مقصد نواز شریف کی سیاسی موت تھی۔ وہ بھی نہیں ہو سکا ہے۔ اس طرح دونوں ہی ایک دوسرے سے نا خوش نظر آرہے ہیں۔ اسی لیے ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ یہ دوستی آج ٹوٹی کہ کل ٹوٹی۔ مجھے یقین ہے ایسا نہیں ہے۔
انصاف اور احتساب کے ادارے بلا تفریق کام کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی پتہ نہیں کیوں ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس کو آصف زرداری اور پیپلزپارٹی کے لیے بطور دباؤ استعمال کرنے کی کوشش ہے۔ پیپلزپارٹی صاف چھپ بھی نہیں رہی اور سامنے آبھی نہیں رہی۔ انتخابات کے بعد ن لیگ کے ساتھ محبت کے دروازے کھولے بھی جا رہے ہیں لیکن فاصلہ بھی رکھا جا رہا ہے۔
آصف زرداری اور بلاول خود فاصلہ رکھ رہے ہیں اور ان کی جماعت ن لیگ کے ساتھ بیٹھ بھی رہی ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف اس سارے کھیل سے بہت خوش ہیں۔ ان کے دونوں طرف چاندی ہے۔ اگر آصف زرداری بچ جاتے ہیں تو بھی نواز شریف کی چاندی ہے۔ وہ ضمیر کے قیدی بن جائیں گے۔ عوام کی عدالت میں ان کی بے گناہی کا مقدمہ مضبوط ہو جائے گا۔ لیکن اگر زرداری پھنس جاتے ہیں تو پیپلزپارٹی ن لیگ کی جھولی میں آگرے گی۔ اس طرح آصف زرداری اب کچھ بھی کریں اس کا نواز شریف کو فائدہ ہی ہوگا۔ وہ بچ جائیں تب بھی فائدہ پھنس جائیں تب بھی فائدہ۔
لیکن پاکستان کے ادروں کو اب یہ بات سوچنی اور سمجھنی ہو گی کہ تاریخ میں اب ان کے پاس دوبارہ غلطی کی گنجائش نہیں۔ وہ لاڈلے پالنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ تاثر بھی ختم کرنا ہو گا کہ سیاسی بساط کی ایک طرف بیٹھے لوگ لاڈلے ہیں اور دوسری طرف بیٹھے لوگ سوتیلے ہیں۔ ایک طرف کے مقدمات فاسٹ ٹریک پر ہیں دوسری طرف کے مقدمات میں لمبی تاریخیں ہیں۔ اب کرپشن کے ہر مقدمہ کو نواز شریف کے مقدمہ کی اسپیڈ سے چلانا ہوگا۔ کوئی یہ نہیں مانے گا ایک سائیڈ کی انکوائریاں چلتی رہیں اور دوسری سائیڈ کے فیصلے آتے رہیں۔ یہ احتساب ادھورا ہے۔
صرف نواز شریف کا احتساب ۔ صرف ن لیگ کو سزائیں۔ ن لیگ کی بے گناہی کا باعث بن جائیں گی۔ نواز شریف ضمیر کے قیدی بن جائیں گے۔ نواز شریف کو بھی پتہ ہے کہ یہ ادارے یہ نظام کسی اور کو سزا نہیں دے سکتا۔ اسی لیے انھوں نے خود گرفتاری دی ہے۔ بات صرف زرداری کے احتساب کی بھی نہیں ہے۔ جب تک احتساب سب کا نہیں ہو گا۔ یکساں نہیں ہو گا۔ اس کو کوئی نہیں مانے گا۔