ڈاکٹر عمران اور وحیدہ شاہ کے تناظر میں دو نہیں ایک پاکستان
عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کا ووٹر باقی جماعتوں کے ووٹر سے مختلف ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان ایک تبدیلی کے نعرے کے ساتھ بر سر اقتدار آئے ہیں۔انھوں نے اپنے حامیوں کے اندر ایک امید پیدا کر دی ہے۔ ان کے ووٹرز کو ان سے بہت امید ہے کہ وہ پاکستان میں ایک بڑی تبدیلی لائیں گے۔
عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کا ووٹر باقی جماعتوں کے ووٹر سے مختلف ہے۔ وہ پی پی پی اور ن لیگ کے ووٹر سے بہت مختلف ہے۔ اس لیے عمران خان کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ میں پہلے دن سے اس بات کا قائل ہوں کہ عمران خان نے جس تبدیلی کی امید پیدا کی ہے ، اسے لانے کے لیے ان کے پاس ٹیم نہیں ہے۔ وہ اکیلے تبدیلی نہیں لا سکتے۔لوگ کہتے ہیں کپتان اکیلا ہی کافی ہے، لیکن شائد حقیقت میں یہ ممکن نہیں۔
کیا صرف اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنا کر تبدیلی آسکتی ہے۔ نہیں، اب عمران خان کو اپنی کارکردگی سے تبدیلی کو ثابت کرنا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ اپوزیشن کی باتیں کر کے عمران خان اپنے ووٹرز کو مزید چند ماہ خوش رکھ لیں گے۔ لیکن بہر حال آخر میں انھیں اپنی کارکردگی سے جواب دینا ہوگا۔ آج جو باتیں معمولی لگ رہی ہیں،کل وہی بڑی بن جائیں گی۔ آج جو بات نان ایشو ہے وہ کل ایشو ہوگی۔ یہ ایک ہنی مون کا دورانیہ ہے۔ جس میں غلطی بھی غلطی نہیں لگے گی۔ آپ خود کو بہت مضبوط سمجھیں گے۔ طاقت کا نشہ سر چڑھنے لگے گا ۔ آپ کو لگے کہ آپ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ لیکن سب نے یہیں غلطی کی تھی اور خدشہ یہی ہے کہ آپ بھی یہیں غلطی کریں گے۔ شایدنا تجربہ کاری کی وجہ سے بڑی غلطیاں کریں گے۔
عمران خان ملک میں میرٹ کے نظام، گڈ گورننس اور دو نہیں ایک پاکستان کے نعرے پر آگے آئے ہیں۔ ان کا نعرہ رہا ہے کہ ملک میں امیر اور غریب کے لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیے۔ وہ وی آئی پی کلچر کے خاتمہ پر آئے ہیں۔اس ضمن میں ابھی تک ان کے اقدامات بہت مصنوعی ہیں۔ وہ گورنر ہاؤس گرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ وہ وی آئی پی کلچر ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ کمی یا زیادتی کا معاملہ نہیں ۔
آپ کراچی کے ایم پی اے ڈاکٹر عمران شاہ کے خلاف تو کوئی موثر ایکشن نہیں لے سکے۔ آپ دو نہیں ایک پاکستان کے نعرہ پر کیا ایکشن لیں گے۔ ڈاکٹر عمران شاہ نے کھلے عام سڑک پر ایک عام شہری کو تھپڑ مارے۔ عام شہری کمزور آدمی تھا ۔ وہ خاموش رہا۔ بعد میں میڈیا میں ایشو بن گیا اور تحریک انصاف نے ڈاکٹر عمران شاہ کو شو کاز نوٹس جاری کر دیا۔پہلے ڈاکٹر عمران شاہ نے بھر پور دفاع کرنے کی کوشش کی۔
لیکن پھر لگتا ہے کسی سیانے نے انھیں بتا دیا کہ ایسے تو وہ مزید پھنس جائیں گے۔ دباؤ بڑھنے لگا تو تحریک انصاف نے ڈاکٹر عمران شاہ کو شو کاز نوٹس جاری کر دیا۔ اس نوٹس نے بھی بہت ابہام پیدا کر دیے۔ ڈاکٹر عمران شاہ شو کاز نوٹس ملنے کے بعد اس عام شہری کے گھر پہنچ گئے۔ رسمی معافی مانگی ۔ اس معافی کی بھی میڈیاکوریج کرائی تا کہ ایشو کو ختم کیا جا سکے۔ بیچارے عام شہری نے اس موقع پر میڈیا کے سوال پوچھنے پر صاف ہی کہہ دیا کہ اس کے پاس معاملہ ختم کرنے کے سوا کیا آپشن تھا۔ وہ کیسے اتنے مضبوط ایم پی اے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی جرات کر سکتا ہے۔
بہر حال اب تحریک انصا ف نے ڈاکٹر عمران شاہ کو ایک عام شہری کو تھپڑ مارنے پر پانچ لاکھ روپے جرمانے اور بیس مریضوں کے علاج کا خرچہ برداشت کرنے کی سزا سنا دی ہے۔ خدا کی قسم جب سے تحریک انصا ف نے داکٹر عمران شاہ کو یہ سزا سنائی ہے میں اسے انصاف کے ترازو میں تولنے کی کوشش کر رہاہوں۔ خود کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ یہ دو نہیں ایک پاکستان کی شاندار ابتدا ہے۔ اس سے پہلے کسی ایم پی اے کو کسی عام شہری کو تھپڑ مارنے کی اتنی عبرت ناک سزا نہیں سنائی گئی۔ اب کسی ایم پی اے کو کسی طاقتور کو کسی کمزور کو تھپڑ مارنے کی جرات نہیں ہو گی۔ یہ گڈ گورننس کی شاندار ابتدا ہے۔
میں ابھی یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ ماضی میں گم گیا۔ مجھے پی پی پی کی ایم پی اے وحیدہ شاہ بخاری یاد آگئیں۔ انھوں نے پولنگ والے دن پولنگ اسٹاف کو تھپڑ مارے۔ اس تھپڑ مارنے کی فوٹیج بھی میڈیا پر آگئیں۔وحیدہ شاہ نے ڈاکٹر عمران شاہ کی طرح متاثرین سے معافی مانگ لی۔ اور کمزور متاثرین نے وحید شاہ کو معاف بھی کر دیا تھا۔ لیکن ریاست نے وحیدہ شاہ کو معاف نہیں کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے وحیدہ شاہ کو دو سال کے لیے نا اہل کر دیا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے وحیدہ شاہ کے خلاف سو موٹو نوٹس لیا تھا۔وحیدہ شاہ عدالت میں بطور مجرم پیش ہوئیں۔
موجودہ چیف جسٹس پاکستان نے انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کیے ہیں۔ انھوں نے بڑے سے بڑے معاملات سے لے کر عوامی مفاد کے چھوٹے چھوٹے معاملات پر بھی سو موٹو لیا ہے۔ وہ عام لوگوں کی سنتے بھی ہیں۔ان کے سوموٹو کی عوام میں بہت دھوم بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس کو ماضی کی روایت کی روشنی میں ڈاکٹر عمران شاہ کے معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ انھیں تحریک انصاف اور ڈاکٹر عمران شاہ دونوں کو طلب کرنا چاہیے اور ایک دفعہ یہ بھی طے کیا جانا چاہیے کہ جب بھی کوئی رکن پارلیمنٹ یا وی آئی پی کسی عام شہری سے زیادتی کرے گا تو اسے کیا سزا دی جا سکے گی۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف نے ڈاکٹر عمران شاہ کے معاملے میں انصاف نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے پاس ایک سنہری موقع تھا کہ وہ دو نہیں ایک پاکستان کے نعرے کو ایک عملی شکل دے سکتے تھے۔ عمران خان کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے سے ''دو نہیں ایک پاکستان'' نہیں بن سکے گا۔ تحریک انصاف کو اپنے عمل سے دو نہیں ایک پاکستان بنانا ہو گا۔ ۔ سیاسی دشمنوں کو مثال بنانے سے اب کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
کیا ہی اچھا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عمران شاہ خود ہی رکن اسمبلی سے استعفیٰ دے دیتے۔ وہ کہتے عمران خان کے نئے پاکستان اور تبدیلی کی ٹیم کا سپاہی ہوں۔ میں نے دو نہیں ایک پاکستان بنانے کا حلف لیا تھا۔ میرے حلف کا تقاضہ ہے کہ میں اب استعفیٰ دے دوں۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ تحریک انصاف ڈاکٹر عمران شاہ کو خود ہی پارٹی سے نکال کر ایک مثال قائم کر دیتی۔یہ پانچ لاکھ کاا یدھی کو چندہ کوئی سزا ہے۔ کیاا یک شریف شہری کی سرعام تذلیل کی یہ قیمت طے کر دی گئی ہے۔ کیا جب بھی کوئی طاقتور کسی کمزور کو تھپڑ مارے گا۔ اس کی تذلیل کرے گا تواس کی قیمت پانچ لاکھ اور بیس مریضوں کا علاج طے کر دی گئی۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ وحیدہ شاہ کو پانچ لاکھ جرمانہ اور بیس مریضوں کے علاج کی سہولت کیوں نہیں دی گئی۔کیا اب وحیدہ شاہ کی نا اہلی ختم نہیں کر دینی چاہیے۔