اسلام اور صحت

بنت عطاء  جمعـء 31 اگست 2018
بیماری کسی بھی قسم کی ہو، اس کا علاج کرانا سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہے، اس سے غفلت نہیں برتنا چاہیے۔ فوٹو:فائل

بیماری کسی بھی قسم کی ہو، اس کا علاج کرانا سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہے، اس سے غفلت نہیں برتنا چاہیے۔ فوٹو:فائل

اللہ نے انسان کو بنیادی طور پر اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اس مقصد عظیم کو پورا کرنے کے لیے اس کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔

بسا اوقات انسان کی صحت کو کچھ ایسے عوارض لاحق ہوجاتے ہیں جس سے اس کی صحت متاثر ہوجاتی ہے۔ بیماری کسی بھی قسم کی ہو، اس کا علاج کرانا سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہے، اس سے غفلت نہیں برتنا چاہیے۔

جامع ترمذی کی ایک روایت کا مفہوم ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے علاج معالجے کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ کے بندو! تم اپنا علاج کراؤ۔ بلاشبہ اللہ نے سوائے بڑھاپے کے کوئی ایسا مرض نہیں پیدا کیا جس کا علاج نہ ہو۔‘‘

بہت سے امراض ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ لاعلاج ہے مگر اس حدیث کے مطابق کوئی مرض لاعلاج نہیں ہے۔ ہم جن امراض کو لاعلاج قرار دیتے ہیں دراصل وہ ہمارے محدود علم کے مطابق لاعلاج ہوتے ہیں، اس کا علاج اور اس کی دوا موجود ہے مگر ہماری دریافت ابھی اس تک نہیں پہنچی۔ آج جن امراض کا علاج تشخیص ہوچکا ہے گزشتہ دور میں انہیں بھی لاعلاج سمجھا جاتا تھا، تو جن امراض کو ہم لاعلاج قرار دیتے ہیں آنے والے دور میں ان کا علاج ہونا کوئی بعید نہیں۔

فرمان باری کا مفہوم ہے: ’’ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔‘‘ اسی طرح صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’ اللہ نے کوئی مرض بنا علاج نہیں پیدا کیا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ وقت ضرورت اپنا بھی علاج کروایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ کا بھی کروایا۔ سینگی بھی لگوائی، یہ بھی دیگر طریقۂ علاج میں ایک اور سنت طریقوں میں سے ہے، جس کی جدید شکل آج حجامہ کہلاتی ہے اور ہمارے ہاں اس طریقۂ علاج کے ماہرین ہر جگہ موجود ہیں، اس میں فاسد خون کو جسم سے نکالا جاتا ہے۔

کچھ لوگ بہ وجہ توکّل علاج سے گریز کرتے ہیں کہ اگر مقدر میں شفا ہے تو علاج کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر شفا نہیں تو علاج کا کیا فائدہ۔ توکّل کے معنی یہ نہیں کہ اسباب ترک کردیے جائیں بل کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اسباب ہی کو موثر حقیقی نہ سمجھ لیا جائے بل کہ نظر فاعل حقیقی ہی پر رہنا چاہیے کہ اگر اللہ چاہے تو اس دوا سے شفا ہوجائے گی ورنہ نہیں۔

جس طرح ہم سردی گرمی بھوک پیاس مٹانے کے لیے کوشاں رہتے اور تگ و دو کرتے ہیں، یہ توکّل کے منافی نہیں تو اسی طرح علاج کرانا بھی توکّل کے منافی نہیں ہے۔ ورنہ سیدالمتوکّلین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیسے یہ فعل سر انجام دیتے اور امت کو بھی تلقین کرتے۔

علاج معالجے کے اسباب مختلف ہیں جن کے مطابق علاج کے حکم کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر مرض ایسا ہے کہ علاج کرانے سے جان یقینی طور پر بچ جائے گی اور نہ کروانے سے موت واقع ہوجائے گی، یا کسی عضو کی خرابی یا مفلوج ہونے کا خدشہ ہو، یا وہ مرض متعدی ہو کہ دوسرے لوگوں کو لگ جائے گا تو اس صورت میں علاج کرانا واجب ہے، نہ کروایا اور جان چلی گئی تو وہ شخص گناہ گار ہوگا۔ اگر مرض ایسا ہو کہ علاج سے مرض ختم ہونے کے بھی امکانات ہوں اور ایسا بھی ہوسکتا ہو کہ نہ ٹھیک ہو، یعنی ظن غالب ہو فائدہ ہوگا تو اس صورت میں علاج کرانا بہتر ہے تاکہ لاشعوری طور پر کچھ بڑا نقصان نہ ہوجائے۔ علاج صرف مباح چیزوں سے کرانا واجب ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ نے حرام چیزوں میں تمہارے لیے شفا نہیں رکھی۔‘‘

یاد رکھیے! اپنی صحت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے نہ صرف طب نبوی ﷺ سے راہ نمائی لی جاسکتی ہے بل کہ قرآن پاک میں بھی بے شمار مقامات پر ایسی چیزوں کا ذکر ہے جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اسلام نے صحت کی نگہہ داشت اور تن درستی پر بہت زور دیا ہے۔ کھانے پینے کے جتنے بھی طریقے ہیں ان کو اگر اسلامی احکامات کے مطابق اپنایا جائے تو شاید ہی کبھی کوئی بیمار ہو۔ اور جن چیزوں کے کھانے کا حکم دیا گیا اگر ان کو استعمال کیا جائے تو بھی کافی حد تک ہماری صحت ٹھیک رہ سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔