ضمنی انتخابات میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کیوں
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ الیکشن کمیشن سے عام انتخابات میں صرف نتائج کے حصول کے لیے بنایا گیا
یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ نے ضمنی انتخابات میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینے کے لیے الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کی ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کے حوالے سے کو ئی تنازعہ پیدا ہو جائے توبے شک ان کے ووٹ گنتی میں شامل نہ کیے جائیں۔ یوں یہ ایک مبہم حکم لگتا ہے۔ جب لوگ حق رائے دہی استعمال کر لیں گے تواس کے بعد ان کے ووٹ گنتی میں شمار کیے جائیں یا نہ کیے جائیں، ایک تنازعہ پیدا کر دیں گے۔
ایک فریق کہہ دے گا کہ ان کو گنتی میں شامل کیا جائے دوسرا فریق کہے گا کہ ان کو گنتی میں شامل نہ کیا جائے۔ اس طرح دھاندلی کا ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا جائے گا۔ لگتا یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹنگ سسٹم کے حوالہ سے شکوک و شبہات موجود ہیں۔ حالیہ عام انتخابات سے قبل بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے کافی کوششیں کی گئی تھیں۔
نادار کی جانب سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے جو ایک ووٹنگ سسٹم بنایا گیا تھا، ملک بھر کے ماہرین کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی متفقہ طور پر یہ تجویز کرچکی ہے کہ نادرا کی جانب سے ای ووٹنگ کا جو سسٹم تیار کیا گیا وہ اس قابل نہیں ہے کہ اسے جنرل الیکشن میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس سسٹم کے نقائص کے بارے میں تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ اور یہ تجویز کیا گیا کہ اس نظام کو کسی بھی طرح انتخابات میں استعمال نہ کیاجائے۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ الیکشن کمیشن سے عام انتخابات میں صرف نتائج کے حصول کے لیے بنایا گیا RTSسسٹم تو چلایا نہیں جا سکا۔ وہ بیٹھ گیا۔ اور آج تک یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ یہ بیٹھ گیا، بٹھا دیا گیا، بیٹھا بھی کہ نہیں بیٹھا۔ لاکھوں ووٹ کا ای سسٹم کیسے چلایا جا سکے گا۔ ہم نتائج تو برو وقت لے نہیں سکے۔ فارم 45 تو دے نہیں سکے۔ حالیہ عام انتخابات اس قدر ناقص تھے کہ انھوں نے 2013ء کے عام انتخابات کی دھاندلی کی شکایات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ صرف حزب اختلاف ہی نہیں حزب اقتدار کی جماعتیں بھی دھاندلی کا شور کر رہی ہیں۔
پارلیمنٹ میں پارلیمانی کمیشن کا شورہے۔ عدالتوں میں انتخابی عذر داریوں کی بھر مار ہے۔ دھاندلی اتنی سنگین تھی کہ وزیر اعظم عمران خان کو شور کم کرنے کے لیے اعلان کرنا پڑا کہ وہ ہر حلقہ کھولنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن بعد میں وہ اپنا حلقہ ہی کھولنے سے بھاگ گئے۔ دھاندلی کا یہ شور بظاہر اس وقت کم لگ رہا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دھاندلی کا یہ شور ایک مرتبہ پھر اٹھے گا۔ یہ ایسے بیٹھنے والا نہیں۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ محترم چیف جسٹس پاکستان جو چھوٹے سے چھوٹے معاملہ پر بھی سو موٹو لے کر انصاف کی بروقت فراہمی یقینی بناتے ہیں۔
انھوں نے بھی دھاندلی پر سو موٹو نہیں لیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ خود ہی سوموٹو لے کر ایک اعلیٰ سطحی جے آئی ٹی بنا دیتے جو دھاندلی کا فرانزک آڈٹ کر دیتی۔ اس سے کم از کم ن لیگ کو بھی تسلی ہو جاتی کہ جے آئی ٹی صرف ہمارے خلاف ہی نہیں بن سکتی بلکہ ہمارے حق میں بھی بن سکتی۔
بہر حال میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ضمنی انتخاب میں ای ووٹنگ کی بات کر رہا تھا۔ ماہرین کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں واضح لکھا ہے کہ ابھی تک دنیا میں کہیں بھی اتنی بڑی تعداد میں ووٹرز کے لیے ای ووٹنگ کو استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ناروے کے 2013ء کے انتخابات میں صرف 70,090/- ووٹرز نے ای ووٹنگ سے حق رائے دہی استعمال کیا تھا جب کہ اسی طرح ESTONIAکے 2015ء کے عام انتخابات میں صرف176,491/- ووٹرز نے ای ووٹنگ سے ووٹ ڈالے تھے۔
اسی طرح نیو ساؤتھ ویلز کے حالیہ انتخابات میں یہ نظام صرف 280,000/- ووٹرز پر استعمال کیا گیا۔ جب کہ ہم ساٹھ لاکھ سے زائد ووٹرز کے لیے یہ نظام استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کی دنیامیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس نظام نے محدود علاقہ اور کم ووٹرز میں بھی مسائل کو جنم دیا ہے۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک بھی اپنے عام انتخابات میں اس کو استعمال کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے لیے یہ موزوں نہیں جہاں انتخابات میں دھاندلی کے باقی نقائص پر ابھی قابو نہیں پایا جا سکا۔ ایسے میں ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا جائے۔
کمیٹی نے یہ بھی واضح کیا ہے۔ اس ای ووٹنگ کے نظام سے ووٹ کو خفیہ رکھنا بھی ممکن نہیں۔ اس ضمن میں قوانین میں تبدیلی کرنی ہوگی اور کھلے عام سب کے سامنے ووٹ ڈالنے کی اجازت دینی ہوگی۔ جس سے پاکستان میں ووٹنگ کا سارا نظام ہی تبدیل ہو جائے گا۔ ہم خفی حق رائے دہی سے کھلے عام ووٹ دینے کی طرف چلے جائیں گے۔ جس سے ووٹ کی خرید و فروخت کے مسائل پیدا ہونگے۔ یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ بیرون ملک تو ووٹ کی خرید و فروخت بہت بڑھ جائے گی۔ لوگ ووٹرز کو ایک جگہ ایک کمپیوٹر پر جمع کر کے اپنی مرضی کے ووٹ ڈلوائیں گے۔
پاکستان کے حالیہ انتخابات میں جیت کا مارجن پہلے ہی ا س قدر کم رہا ہے کہ بیرون ملک کے یہ ووٹ فیصلہ کن بھی ہو سکتے ہیں۔ اور باہر منڈیاں لگ سکتی ہیں۔ اس ضمن میں یہ بھی حقیقت ہے کہ باہر نہ تو پاکستان کے قوانین نافذ ہیں نہ ہی الیکشن کمیشن وہاں اپنے قواعد ناٖفذکر سکتا ہے۔ اس طرح ہم بے بس ہونگے۔ وہاں جو بھی ہو گا اس پر ہمارے قوانین لاگو نہیں ہونگے۔ ان پر پاکستان کی عدالتوں میں اعتراض کیسے داخل ہونگے۔
ہیکنگ کا خطرہ تو اپنی جگہ موجود رہے گا۔ ابھی تک جو نظام بنایا گیا ہے اس کی سیکیورٹی پرتو شدید تحفظات ہیں۔ ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اگربینکوں کی ای بینکنگ کی مثال لی جائے تو انھوں نے ایک طرف کہیں زیادہ سیکیورٹی پروٹوکول بنائے ہوئے ہیں۔ پھر ہیکنگ کی شکل میں وہ اپنے کلائنٹ کو پیسے واپس کرتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ بلاک کر دیتے ہیں۔ اکاؤنٹ کے فنڈز بحال کرتے ہیں۔ لیکن یہاں کیا ہوگا۔ ہیکنگ سے ڈالے گئے ووٹ کا کیسے پتہ چلے گا۔ ہیکرز کیوں نہیں ووٹ ڈالیں گے تا کہ نتائج پر اثر انداز ہوا جا سکے۔ آپ ای ووٹنگ کا ای بینکنگ سے ہر گز موازنہ نہیں کر سکتے۔دونوں میں بہت فرق ہے۔
ماہرین کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں واضح لکھا ہے کہ پاکستان میں سائبر سیکیورٹی کی مہارت میں بہت کمی ہے۔ سونے پر سہاگہ الیکشن کمیشن کے پاس تو سائبر سیکیورٹی کی کوئی مہارت نہیں ہے۔ لہذا لیکشن کمیشن ای ووٹنگ کو نافذ کرنے سے پہلے سائبر سیکیورٹی کا الیکشن کمیشن میں ایک خصوصی سیل قائم کرے۔ جو انتخابی معاملات اور بالخصوص ای ووٹنگ کی سائبر سیکیورٹی کے لیے اپنی خود کی مہارت پیدا کرے۔یہ ملک میں اقتدار کا معاملہ ہے۔ کوئی بچوں کی گیم نہیں ہے۔ ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ کرائے کی مہارت پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی اتنی بیتابی کیوں ہے۔ ہم پاکستان میں مقیم لوگوں کے ووٹ کا تقدس تو برقرا ر رکھنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کا تقدس کیسے برقرار رکھیں گے۔ کہیں نہ کہیں یہ رائے موجود ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کے حق سے تحریک انصاف کو فائدے کا امکان ہے۔ اس لیے وہ زور لگا رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پہلے ہی الیکشن کمیشن سمیت انتخابات کے انعقاد میں شریک تمام ادارے بہت متنازعہ ہو گئے۔ ایسے میں اس ناقص ای ووٹنگ سے مزید پنڈوار بکس کھولنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ اسے بعد کے لیے رکھ لیں۔ اسی میں ملک کی بہتری ہے۔