بیمار قوم کے امیر مسیحا

محمد عرفات اختر  منگل 16 اکتوبر 2018
پاکستان میں بیماریاں اتنی منافع بخش ہیں کہ ڈاکٹر صاحبان چندسال میں اتنا کمالیتے ہیں کہ عام آدمی عمربھر نہ کماسکے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان میں بیماریاں اتنی منافع بخش ہیں کہ ڈاکٹر صاحبان چندسال میں اتنا کمالیتے ہیں کہ عام آدمی عمربھر نہ کماسکے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شہر کے ایک معروف چوراہے سے گزرتے ہوئے اچانک ایک بڑے ہورڈنگ پر جلی حروف میں ’’خوشخبری‘‘ لکھا نظر آیا تو لاشعوری طور پر بورڈ کی طرف متوجہ ہو گیا۔ بورڈ پر ایک بڑے شہر کے مشہور ڈاکٹر صاحب کی ہمارے شہر کےلیے خدمات کی خوشخبری دی گئی تھی جو اگلے ہی چوک میں بنے پرائیویٹ اسپتال کی عالیشان عمارت میں مریضوں کا علاج فرمائیں گے۔

ترقی یافتہ ممالک شاید ہمیں محاورتاً بیمار قوم کہتے ہیں مگر جب اپنے چھوٹے سے شہر میں بنے ایک بڑے سرکاری اسپتال اور لاتعداد پرائیویٹ اسپتالوں میں عوام کا جم غفیر دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم تو حقیقتاً بیمار قوم بن چکے ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں بیماریاں اس قدر منافع بخش ہوچکی ہے کہ ڈاکٹر صاحبان دکھی انسانیت کی خدمت کرتے کرتے چند سال میں مالی لحاظ سے اس مقام پر جا پہنچتے ہیں کہ جہاں عام آدمی شاید اچھا بزنس ایمانداری سے کرتے ہوئے عمر بھر نہ پہنچ سکے۔

بدقسمتی سے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو میڈیکل کالج میں داخل کروانے والا باپ اپنے بچوں کی تعلیم پر ہونے والے بھاری اخراجات کو ’’انویسٹمنٹ‘‘ سمجھ کر اسے سود سمیت واپس وصول کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ وہ عام آدمی جو اپنا نزلہ بخار ٹھیک کروانے کےلیے اسپتال چلا جاتا ہے، آہستہ آہستہ ایک منافع بخش گاہک کی صورت اختیار کر جاتا ہے جو اپنی باقی بچ جانے والی عمر میں اپنی محنت کی کمائی کا ایک مخصوص حصہ ’’صحتی بھتے‘‘ کی صورت میں اس منافع بخش انڈسٹری کو دینے پر مجبور ہوتا ہے۔

بلا شبہ درد سے تڑپتا ہوا انسان جب اپنے ہی جیسے انسان ’’مسیحا‘‘ کے ہاتھوں راحت پاتا ہے تو وہ مسیحا اس انسان کو خدا کا روپ ہی نظر آتا ہے مگر خدا کی صفت ’’مسیحا‘‘ سے معنون مسیحاؤں سے کیوں انسانیت کو کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچ رہا؟ آخر کیوں ہر عام آدمی اس عظیم خدائی پیشے سے وابستہ مسیحاؤں کے نام تک سے خوفزدہ ہے؟

میں اپنے قابل احترام مسیحاؤں سے یہی التماس کروں گا کہ خدارا ان اینٹوں پتھروں اور سیمنٹ سے بنی عالیشان عمارتوں کو، جن کا شاید انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں، تعمیر کرتے وقت یہ ضرور سوچیے کہ کہیں ان دیواروں میں لگی اینٹوں کے ساتھ ساتھ کسی مجبور کی سسکیاں تو نہیں چُنی گئیں۔ اس چمکتے دمکتے ماربل میں کسی مجبور کے خون کے رنگ کی آمیزش تو نہیں ہوگئی؛ اور اس انتہائی پائیدار سیمنٹ میں کسی درد سے بلکتے ہوئے انسان کی کراہیں تو شامل نہیں ہو گئیں؟

آخر میں بلاشبہ میں اس عظیم شعبے سے وابستہ ان خدا نما عظیم انسانوں کو خراج تحسین پیش کرنا نہیں بھولوں گا جو ذاتی اور مالی مفادات کے بجائے صرف اور صرف دکھی انسانیت کی خدمت میں مگن ہیں؛ مگر افسوس کہ ایسے عظیم لوگ صرف ’’آٹے میں نمک‘‘ کے برابر ہیں لیکن بلاشبہ وہ ﷲ تعالی کے ہاں بڑے اجر کے حقدار ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عرفات اختر

محمد عرفات اختر

بلاگر عرصہ دس سال سے جوہرآباد میں تقریباً تمام اخبارات اور اشاعتی اداروں کےلیے ادارتی و قلمی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔ قلم نگاری کو سماجی مسائل اجاگر کرنے کا اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔