ایرانی سیاست اور صدارتی انتخابا ت …

ایران میں گارڈئن کونسل تمام انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کرتی ہے


شکیل چوہدری June 14, 2013

اس ماہ ایرانی سیاست میں ایک اہم تبدیلی آ رہی ہے کیونکہ 14 جون بروز جمعہ گیارہویں صدارتی انتخابات ہو ہے ہیں۔ اگر کسی امیدوار کو پچاس فیصد سے زائد ووٹ نہ ملے تو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان 21 جون کو دوبارہ مقابلہ ہو گا۔ انتخابات کے لیے 686 امیدوار میدان میں اترے لیکن گارڈئن کونسل (نگہبان شوریٰ) نے آٹھ کے سوا سب امیدواروں کو نا اہل قرار دے دیا۔ ان میں سے قدامت پسند سابق اسپیکر غلام علی حداد عادل انتخابات سے دست بردار ہو چکے ہیں۔

نااہل قرار دیے جانے والوں میں اسلامی انقلاب کے ایک ستون اور سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی ــ' صدر احمدی نژاد کے ایک اہم اتحادی اور چیف آف اسٹاف اسفندیار رحیم مشاہی کے علاوہ کئی سابق وزراء اور پارلیمنٹ (مجلس) کے ارکان شامل ہیں۔ ان نا اہلیوں نے ان انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کچھ لوگو ں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہے۔ اسفند یار کی نا اہلی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ ایران کے سیاسی نظام میں صدر احمدی نژاد کی اہمیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ واحد خفت نہیں جس کا انھیں حالیہ سالوں میں سامنا کرنا پڑا ہے۔ مارچ 2012 کے پارلیمانی انتخابات میں ان کے حامیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور خود ان کی بہن بھی منتخب نہیں ہو سکی تھیں۔ انھوں نے اپریل 2011 انٹیلی جنس کے وزیر کو برطرف کر دیا تھا لیکن رہبر معظم (سپریم لیڈر ) آیت اللہ علی خامنائی نے انھیں بحال کر دیا تھا۔ اس کے بعد احمدی نژاد صاحب ا حتجاجاً گیارہ روز تک ریاستی امور سے تقریباًلا تعلق ہو گئے تھے۔

اس کے بعد ان کے درجنوں اتحادیوں کو حراست میں لیا گیا جن میں ان کے میڈیا ایڈوائزر اور سرکاری خبر رساں ادارے اِرنا کے سربراہ علی اکبر جواں فکر بھی شامل تھے۔ ستمبر2012 میں جواں فکر کو اس وقت دوبارہ گرفتار کیا گیا جب ایرانی صدر نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ بعد ازاں انھیں جیل جا کر جوا ں فکر سے ملنے تک سے منع کر دیا گیا تھا۔

ایران میں گارڈئن کونسل تمام انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کرتی ہے اور اس کے اس کردار پر ایران میں بہت تنقید ہوتی رہی ہے۔ اب اس تنقید میں مزید شدت آ گئی ہے۔ مثلاً ایران کے رہبر معظم کے بھائی ہادی خامنائی نے کہا ہے کہ جانچ پڑتال کا یہ عمل ایرانی جمہوریت کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ واضح رہے کہ گارڈئن کونسل کے بارہ ارکان میں سے چھ فقہا ہوتے ہیں اور ان کی نامزدگی براہ راست رہبر معظم خود کرتے ہیں۔ با قی چھ ارکان ماہرین قانون ہوتے ہیں اور وہ پارلیمنٹ کی منظوری سے آتے ہیں لیکن ان کی نامزدگی ایک ایسا ادارہ کرتا ہے جس کے سربراہ کا تقرر رہبر معظم کرتے ہیں۔ گارڈئن کونسل پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کو مسترد کرنے کا اختیا ر بھی رکھتی ہے۔ چھیاسی سالہ آیت اللہ احمد جنتی گزشتہ پچیس برس سے اس کونسل کے چیئرمین چلے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران میں انتخاب لڑنے کے لیے رہبر معظم سے وفا داری شرط اول ہے۔

جناب رفسنجانی نے 2009 کے صدارتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کی کھل کر حمایت تو نہیں کی تھی البتہ انھوں نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر تنقید ضرور کی تھی۔ اس دفعہ انھوں نے ایرانی قیادت پر نہ صرف نالائق بلکہ جاہل ہونے کا الزام بھی لگایا ہے۔ یہا ں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنا ب رفسنجانی کی بیٹی ـ فائزہ حکومت کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کے الزام میں چھ ماہ قید کاٹ چکی ہیں۔ فائزہ صحافی اور پارلیمنٹ کی سابق رکن ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رفسنجانی صاحب کا شمار ایران کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔

اس وقت جو امید وار میدان میں موجود ہیں ان میں رہبر معظم کے مشیر برائے امور خارجہ اور سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی' سا بق وزیر پٹرولیم محمد غرضی' تہران کے میئر اور سابق ملٹری کمانڈر باقر قالی باف انقلابی گارڈز کے سابق چیف کمانڈر محسن رضائی اور سابق ایٹمی مذاکرات کار حسن روحانی شامل ہیں۔ امید واروں میں سے روحانی صاحب واحد عالم دین ہیں۔ وہ مجتہد او ر سابق ڈپٹی اسپیکر ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم میر حسین موسوی اور سابق اسپیکر مہدی کروبی جیسے اپوزیشن رہنمائوں کی نظر بند ی ختم کرانے اور شہری آزادیوں کے لیے کام کریں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ منتخب ہو گئے تو مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنائیں گے۔ انھیں احسا س ہے کہ مغربی ممالک کی پابندیوں کے باعث ایرانی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے اور ایک ڈالر کی مالیت بارہ ہزا ایرنی ریا ل سے زیادہ ہو چکی ہے۔ فروری1979 میں آیت اللہ خمینی کے ساتھ فرانس سے ایران آنے والے محمد غرضی کا کہنا ہے کہ ایران کی تمام حکومتیں مہنگائی کی ذمے دار ہیں کیونکہ وہ آمدنی سے زیادہ اخراجات کرتی رہی ہیں۔ اصلاح پسند سا بق صدر خاتمی کے قریبی ساتھی رضا عارف نے بھی روز افزوں مہنگائی اور علاج معالجے کی مہنگی سہولتوں پر تنقید کی ہے۔

سب سے کم عمر امیدوار سعید جلیلی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مضبوط ترین امیدوار ہیں۔ لیکن ان کی کم عمری ان کے لیے منفی عامل بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ 6 ستمبر 1965 کو مشہد میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1982 میں تہران میں قا ئم ہونے والی اما م صادق یونیورسٹی سے سیاسیا ت میں پی ایچ ڈی کی اور کچھ عرصہ اپنی مادر علمی میں لیکچرر رہے۔ عراق کے خلاف جنگ کے ان کی دائیں ٹانگ شدید زخمی ہو گئی تھی جس کے باعث وہ اب تک لنگڑا کر چلتے ہیں۔ وہ نائب وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری اور ایٹمی مذاکرات کا رہیں۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ باقی تمام امیدواروں سے زیادہ سخت گیر مو قف رکھتے ہیں اور ایران کے طاقتور ترین شخص یعنی علی خامنائی کے پسندیدہ امیدوار ہیں۔ اگر آخری وقت میں رہبر معظم نے علی اکبر ولایتی کی حمایت کا عندیہ دے دیا تو ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ایر انی عدلیہ کے سابق سربراہ آیت اللہ یزدی نے پہلے ہی ان کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔

بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر ولایتی کا کہنا ہے کہ ایران کو ترقی دینے کے لیے ایک مہاتیر محمد کی ضرورت ہے اور اس کا ڈاکٹر ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ ڈاکٹر نہ صرف تشخیص بلکہ علاج کرنا بھی جانتے ہیں۔ انھوں نے سعید جلیلی کی سفارت کاری پر تابڑ توڑ حملے کیے ہیں جسے وہ ناقص اور ناکا م قرار دیتے ہیں۔ تاہم ان کے جیتنے سے ایران کے لیے کچھ پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ ارجنٹینا میں 1994 میں یہود ی ثقافتی مرکز پر حملے کے سلسلے میں وہ 2007 سے انٹرپول کو مطلوب ہیں۔ حا لیہ دنوں میں باقر قالی باف نے اپنی پوزیشن کافی مضبوط بنا لی ہے۔ احمدی نژاد پر بد انتظامی کا الزام لگاتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ میئر کے طور پر ان کی کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ تباہ حال معیشت کو بحال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے سیاسی جغرافیہ میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ دوسری طرف رضا عارف حسن روحانی کے حق میں دست بردار ہو گئے ہیں۔یوں اصلاح پسندوں کی پوزیشن بہت بہتر ہو جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں