حکومت جی ایس ٹی واپس لے فیصلے سے اسمگلنگ بڑھے گی ایکسپریس فورم

بجٹ نے تاجر برادری کو دکھی کردیا، شمیم فرپو، ارشد جمال، محمد ساجد، جلال محمود خان، محمد اسلم بھٹی


Staff Reporter June 24, 2013
کراچی: ایکسپریس فورم میں شمیم فرپو، اسلم بھٹی، محمد ساجد، جلال محمود خان، ارشد جمال، صغیر قریشی اور شہزاد مبین اظہار خیال کررہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

حکومت جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) فوری واپس لے، اس اقدام سے اسمگلنگ میں بہت اضافہ ہوجائے گا۔

بجٹ اقدامات سے حکومت نے عوام کے سر سے چادر اور پائوں کے جوتے تک اتارنے کا فیصلہ کر لیا، پرانے کپڑوں، گارمینٹس، جوتوں پر سیلزٹیکس عائد کرکے عام آدمی سے یہ سہولت بھی چھین لی گئی ہے۔نشاندہی شدہ7 لاکھ امیرترین افراد سے ٹیکس وصول کیا جائے۔اس وقت حکومت انہی لوگوں سے زیادہ ٹیکس لینا چاہ رہی ہے جو ٹیکس دے رہے ہیں ۔ وفاقی بجٹ نے ملک بھر کی تاجر برادری کو دکھی کردیا ہے، سابقہ حکومت کی پالیسیوں سے دلبرداشہ تاجر برادری پر موجودہ حکومت کے پہلے بجٹ نے خودکش حملہ کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار نزکس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات نے نئے قی بجٹ کے پرانے کپڑوں، گارمینٹس، شوز اور کمبل پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔

کراچی میں منعقدہ ''ایکسپریس فورم '' میں سینئر نائب صدر، کراچی چیمبر آف کامرس شمیم فرپو، چیئرمین پاکستان اکانومی فورم، سینئر وائس چیئرمین آل پاکستان کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن ارشد جمال، صدر گارمینٹس اینڈشوز امپورٹرز ایسوسی ایشن محمد ساجد، سیکریٹری جنرل گارمینٹس اینڈ شوز امپورٹرز ایسوسی ایشن جلال محمود خان، چیئرمین طارق روڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن محمد اسلم بھٹی، نائب صدر کراچی کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن صغیر احمد قریشی اور۔برانڈڈ شوز امپورٹر و ریٹیلر، چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی کراچی چیمبر آف کامرس شہزاد مبین نے شرکت کی۔ شمیم فرپو نے کہا کہ حکومت نے سیلز ٹیکس میں اضافہ کرکے عام آدمی کے لیے مہنگائی کا سامان مہیا کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ بعداز بجٹ ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے اور مزید مہنگی ہوتی چلی جائیں گی جبکہ اسمگلنگ کو بھی وسیع پیمانے پرفروغ حاصل ہوگا۔کراچی چیمبر نے اپنے پری بجٹ اور پوسٹ بجٹ سیمینار میںبجٹ سے متعلق ساری صورتحال کا جائزہ لیکر تجاویزمرتب کی ہیں جس میں لاتعداد بجٹ اناملیز کی نشاندہی کی گئی ہے۔



ہم حکومت سے بار بار کہتے ہیں کہ ٹیکس نیٹ کو ضرور بڑھائیں لیکن ٹیکس ریٹ میں اضافہ نہ کیاجائے۔ حکومت نے طویل مدت قبل ہی 7 لاکھ ایسے افراد کی نشاندہی کرچکی ہے جوانتہائی امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا طرز زندگی انتہائی شاہانہ ہے مگر نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر ایسے لوگوں سے ٹیکس وصولی نہیں کی جارہی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنے انفرااسٹرکچر کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا، امن سب سے اولین چیز ہے باقی کام ہوتے رہیں گے۔ارشد جمال نے کہا کہ بہت توقعات تھیں کہ بجٹ سے کاروباری طبقے کو فائدہ ہوگا، عام آدمی جو کافی عرصے سے پس رہا ہے، اسے بھی ریلیف ملے گا۔ لوگوں کو بہت امیدیں تھیں لیکن سب کچھ الٹ ہوگیا۔وفاقی بجٹ میں تجویز کیے گئے سیلزٹیکس کی شرح بڑھانے سے تیار شدہ وہ درآمدہ آئٹمزجنہیں ہرعام آدمی استعمال کرتا ہے کی قیمتوں میں ہوشربا حد تک اضافہ ہوجائے گا۔

اس اقدام نے ایک طرف تو عام آدمی کی کمر توڑدی ہے وہیں ایف بی آر اور اس کے ماتحت دیگر محکموں کے چند افسران اور ٹیکس چوروں کے سینڈیکیٹ کو مضبوط کرتے ہوئے انھیں قومی خزانہ کو مزیدلوٹنے کا موقع فراہم کردیا گیا ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ جی ایس ٹی ایس آراوز میں کی گئی ترامیم واپس لی جائیں، جنرل سیلز ٹیکس کو ختم کرکے فکس ٹیکس لگایا جائے۔محمد ساجد کا کہنا تھا کہ حکومت نے نئے وفاقی بجٹ کے ذریعے گارمینٹس اور جوتوں کی درآمدات پرٹیکس شرح میں تقریباً100 اضافہ کردیا ہے۔ یہ بجٹ ہمارے شعبے کیلیے انتہائی ظالمانہ ہے جو لاکھوں چھوٹے تاجروں کے معاشی قتل کا باعث بنے گا۔ وفاقی بجٹ کے اقدامات کے بعد اسمگلروں نے کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں کے بیوپاریوں کو سوست بارڈر سے انتہائی کم لاگت واخراجات پر گارمینٹس، جوتے کمبل ودیگر آئٹمز لانے کی پیشکشیں دینا شروع کردی ہیں، اس کے علاوہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دیگر راستے بھی ہیں۔



ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ ٹیرف کم کیا جائے کیونکہ اسی طرح حکومت کومطلوبہ ریونیو کی وصولیوں میں بھی کامیابی ہوگی اور اس اقدام کے ذریعے اسمگلنگ کو بھی روکا جاسکے گا۔شہزادمبین نے کہا کہ ہمارا سب سے اہم مطالبہ تو یہ ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈکو روکا جائے، اس کی وجہ سے بزنس کمیونٹی پر بہت منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ نومنتخب حکومت نے آتے ہی ایسا بجٹ دیا ہے کہ ہر کوئی پریشان ہے۔ تاجر برادری کو حکومتی فیصلوں پر شدید تحفظات ہیں، اگر موجودہ فیصلے واپس نہ لیے گئے تو ہر چیز کی قیمت دوگنی ہوجائے گی۔صغیر قریشی نے کہا کہ اسمگلنگ کو فروغ دینے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ مختلف اشیاء پر ٹیکس اور ڈیوٹی میں اضافہ کردیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے عوام سے سر کی چادر، تن کے کپڑے اور پائوں کے جوتے تک چھیننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ نئی حکومت نے آتے ہی جو اقدامات کیے ہیں، ان سے کاروباری برادری کو بہت زیادہ مایوسی ہوئی ہے۔

جلال محمود خان نے کہا کہ پاکستان میں درآمد ہونے والے ٹیکسٹائل میڈاپ میں چین کا حصہ 90 فیصد ہے ،جس کے بعد 3 فیصد حصہ تھائی لینڈ کا ہے اور باقی ماندہ 5 فیصد حصہ ملائیشیا،کوریا اور ویت نام کا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر سے ملک کو بڑی آمدنی ہوتی تھی مگر حکومتی سطح کے منفی اقدامات کا سلسلہ برقرار رہا تو صورتحال انتہائی پریشان کن ہوجائے گی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نئی حکومت کو کسی نے بجٹ اسکرپٹ فراہم کیا جو نئے وزیرخزانہ نے اسمبلی میں پڑھ دیا ہے اس طرح سے میاں نوازشریف مس گائیڈ ہوگئے ہیں۔ محمد اسلم بھٹی نے کہا کہ ہماری شٹر پاور نے8 سے 10 سال تک کراچی چیمبر کے ساتھ مل کر ایف بی آر کی کوششوں کو روکا لیکن حکومت نے بیوروکریسی، ایف بی آر اور آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر من پسند فیصلہ کرلیا۔ اس بار حکومت سے ہماری کوئی بات نہیں ہوئی۔ حکمرانوں کو عوام اور تاجربرادری کا سوچنا چاہیے تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ ہوا کیا ہے؟۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں