عثمان بزدار ایک مضبوط سیاسی وزیر اعلیٰ

آپ کہہ سکتے ہیں کہ چوہدری برادران نے گھر آئی وزارت اعلیٰ ٹھکرا دی تھی۔


مزمل سہروردی November 20, 2018
[email protected]

ایک عام تاثر یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ایک کمزور وزیر اعلیٰ ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ سیاسی اور عددی اعتبار سے ایک کمزور حکومت کے مضبوط وزیر اعلیٰ ہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت سیاسی اور عددی اعتبار سے مرکز سے بھی کمزور ہے۔مرکز میں اپوزیشن تقسیم ہے، کوئی ایک جماعت بڑی اپوزیشن نہیں ہے۔

اپوزیشن تین بڑی سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہے۔ اس لیے ان کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا مشکل ہو گیا ہے۔ تینوں جماعتوں کی اپنی اپنی سیاست اور اپنے اپنے سیاسی اہداف ہیں۔ ان کے درمیان سیاسی چپقلش بھی موجود ہے۔ اس لیے وہ نہ ایک ہیں اور نہ ایک ہو سکتے ہیں۔ اپوزیشن کی اس تقسیم نے مرکز میں عمران خان کی کمزور سیاسی اور عددی حکومت کو بھی مضبوط بنا دیا ہوا ہے۔ جب تک اپوزیشن اکٹھی نہیں ہو گی عمران خان مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔عمران خان کو اس تقسیم کا بہت فائدہ ہو رہا ہے۔

تاہم دوسری طرف پنجاب کا منظرنامہ بالکل مختلف ہے۔ پنجاب میں ن لیگ اپوزیشن کی واحد بڑی پارٹی ہے۔ تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان ووٹوں کا فرق نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب کی حکومت ق لیگ اور چند آزاد کے سر پرکھڑی ہے۔ یہ درست ہے کہ پی پی پی کے چند ووٹ ہیں لیکن ایک طرف ڈیڑھ سو سے زائد کی ن لیگ دوسری طرف چند ووٹوں کی پی پی پی۔ اس لیے ن لیگ تنہا ہی بڑی اپوزیشن جماعت ہے۔ اس لیے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت مرکز کی حکومت کی نسبت کمزور ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس دن پنجاب میں تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا اس دن مرکز میں حکومت قائم رہنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

پنجاب میں سینیٹ کی دو نشستوں کے انتخابات نے اس کمزوری کو مزید عیاں کر دیا ہے۔ آپ دیکھیں جہانگیر ترین کی بہن سیمی ایزدی پنجاب سے سینیٹ کی سیٹ پر الیکشن لڑ رہی تھیں۔ جہانگیر ترین بلا شبہ تحریک انصاف میں عمران خان سے کم مضبوط اور طاقتور نہیں ہیں۔ نوے فیصد سے زائد ٹکٹیں جہانگیر ترین نے دی ہوئی ہیں۔

تمام جیتے ہوئے لوگوں کو انھوں نے ٹکٹیں دی تھیں۔ وزارتیں انھوں نے بانٹی ہیں۔ اتحادیوں سے معاملات بھی انھوں ہی نے طے کیے تھے۔ اور آپ دیکھیں جہانگیر ترین کی بہن صرف آٹھ ووٹوں کے مارجن سے سینیٹ کی سیٹ جیتی ہیں۔ سیمی ایزدی نے 183ووٹ حا صل کیے جب کہ مقابلے میں ن لیگ کی امیدوار سائرہ افضل تارڑ نے 175ووٹ حاصل کیے۔ اسی طرح سینیٹ کی دوسری نشست پر تحریک انصاف کو صرف سات ووٹوں سے کامیابی ملی ہے۔

سینیٹ کی ان دو نشستوں پر انتخابات میں تحریک انصاف کی قیادت نے بھر پور زور لگایا ہے۔ جہانگیر ترین خود لاہور آکر بیٹھ گئے تھے۔ اراکین اسمبلی کے ہر جائز ناجائز کام ہوئے ہیں۔ سب کو ہر طرح خوش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تب بھی مارجن اتنا کم رہا ہے۔ سینیٹ کی ان دو نشستوں کے نتائج پنجاب میں تحریک انصاف کی کمزور پوزیشن کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔

اسی تناظر میں دیکھا جائے تو عثمان بزدار ایک کمزور حکومت کے مضبوط وزیر اعلیٰ نظر آئیں گے۔وہ ایک کمزور حکومت کو نہایت کامیابی سے لیکر چل رہے ہیں۔ آپ دیکھیں پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ایک ایک لمحہ پر ق لیگ کی محتاج ہے۔ق لیگ کے ووٹ ہی اصل مارجن ہیں۔ اگر آج چوہدری ناراض ہو جائیں تو پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت گر جائے گی۔ یہ تو چوہدری پرویز الہی کی شرافت تھی کہ انھوں نے وزارت اعلیٰ کی شرط نہیں رکھی ورنہ وزارت اعلیٰ ان کے گھر آچکی تھی۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ چوہدری برادران نے گھر آئی وزارت اعلیٰ ٹھکرا دی تھی۔ لیکن دوسری طرف آپ عثمان بزدار کی سیاسی بصیرت اور حکمت عملی دیکھیں کہ چوہدری پرویز الہٰی اور ق لیگ اس وقت عثمان بزدار کے ساتھ کھڑی ہے۔ شاید تحریک انصاف اتنی طاقت سے عثمان بزدار کے ساتھ نہیں کھڑی ہے جتنی طاقت قوت اور خلوص کے ساتھ ق لیگ چوہدری عثمان بزدار کے ساتھ کھڑی ہے۔

حالیہ سینیٹ انتخابات میں چوہدری پرویز الہی اور جہانگیر ترین کے درمیان گفتگو کی جو ٹیپ لیک ہوئی ہے اس میں بھی ق لیگ کے چوہدری سرور کے حوالے سے تحفظات سامنے آئے ہیں لیکن عثمان بزدار سے وہ مکمل مطمئن ہیں بلکہ چوہدری پرویز الہی اور عثمان بزدار کی تو سیاسی جوڑی بن گئی ہے۔ اس وقت ق لیگ بزدار کے دفاع میں بزدار سے بھی آگے کھڑی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب نہ تو عثمان بزدار کی سیاسی مشکلات کا احساس کر رہے ہیں اور نہ ہی ان مشکل حالات سے نبٹنے میں ان کی صلاحیتوں کو جانچ رہے ہیں۔ ہم سب ایک لمحہ میں ان کا شہباز شریف سے موازنہ شروع کر دیتے ہیں۔ شہباز شریف کے پاس دوتہائی سے زیادہ اکثریت والی حکومت تھی۔ ایک چیونٹی سی اپوزیشن تھی۔ وہ کسی کو ملتے نہ ملتے اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔ وہ کسی کی بات مانتے نہ مانتے اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔ لیکن عثمان بزدار ایسا نہیں کر سکتے۔ عثمان بزدار کو احساس ہے کہ ان کی حکومت چار ارکان کی ناراضی کا بوجھ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔

ایک دن چار ارکان نے پریس کانفرنس کی دوسرے دن یہ سوال پیدا ہو جائے گا کہ اکثریت ختم ہو گئی ہے۔اس ضمن میں اگر موازنہ ہی کرنا ہے تو عثمان بزدار کا 1985میں نواز شریف کی وزارت اعلیٰ سے کیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف کی وہ حکومت بھی کمزور عددی اکثریت پر قائم تھی۔ اس لیے نواز شریف کو بھی سب کو ساتھ لیکر چلنا مجبوری تھی۔ جیسے آج عثمان بزدار کا سب کو ساتھ لیکر چلنا مجبوری ہے۔

ایسے نازک حالات میں جب علیم خان، چوہدری سرور سمیت کئی متنازعہ ہوگئے ہیں عثمان بزدار نے نہ صرف خود کو متنازعہ ہونے سے بچایا ہوا ہے۔ بلکہ وہ اراکین اسمبلی میں بہت مقبول بھی ہو گئے ہیں۔ میں عوامی تاثر کی بات نہیں کر رہا لیکن اراکین اسمبلی میں عثمان بزدار کی مقبولیت ان کی سیاسی طاقت میں روز بروز اضافہ کر رہی ہے۔ آج پنجاب میں حکمران اتحاد کا ایک بھی ایسا رکن نہیں ہے جو عثمان بزدار سے ناراض ہو۔ وہ ہر ایک سے پیار محبت سے ملتے ہیں۔ اپنے اخلاق اور سیاسی رواداری سے انھوں نے اپنے مخالفین کے بھی دل جیت لیے ہیں۔انھوں نے اپنی سیاست سے اپنی جگہ پکی کی ہے۔ عثمان بزدار کے خلاف ہلکی سی سازش بھی پنجاب میں تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج غروب کر سکتی ہے۔ چار ووٹوں پر کھڑی حکومت چلانا عثمان بزدار کی سیاسی کامیابی ہے۔ اس میں تحریک انصاف نے ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات ہی پیدا کی ہیں۔

پنجاب میں حالیہ سینیٹ انتخابات میں تبادلوں کے حوالے سے بہت شور مچایا گیا ہے۔ چند تبادلے کیے گئے پھر ان کو منسوخ کیا گیا۔ لیکن خبر دینے والوں نے اس بات کو ذہن میں نہیں رکھا کہ یہ تبادلے نہ تو عثمان بزدار کر رہے تھے اور نہ ہی ان کی ضرورت تھے۔ تحریک انصاف کی قیادت جہانگیر ترین کی سربراہی میں پنجاب میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھی۔ سینیٹ کی دو نشستوں کے انتخابات درد سر بنے ہوئے تھے۔ زندگی موت کا مسئلہ تھا۔ اس لیے یہ تبادلے کرنا ایک سیاسی مجبوری تھی۔اسی لیے سینیٹ انتخابات کے بعد پنجاب میں اسسٹنٹ کمشنرز کے تبادلے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سینیٹ کی ان دو نشستوں کے لیے عثمان بزدار نے بہت کام کیا ہے۔ اور اس جیت میں عثمان بزدار کا بڑا حصہ ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان اپنے ہر دورہ لاہور میں عثمان بزدار کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ وہ انھیں انضمام الحق اور وسیم اکرم سے تشبیہ دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ درست حکمت عملی نہیں ہے، عمران خان کو عثمان بزدارکی شخصیت کی نہیں بلکہ ان کے کاموں کی تعریف کرنی ہوگی۔

مقبول خبریں