ساہیوال میں سی ٹی ڈی کا مبینہ مقابلہ؛ مقتولین کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری

ویب ڈیسک  اتوار 20 جنوری 2019
سی ٹی ڈی کی کارروائی میں زخمی تینوں بچوں کو لاہور منتقل کردیا گیا

سی ٹی ڈی کی کارروائی میں زخمی تینوں بچوں کو لاہور منتقل کردیا گیا

ساہیوال میں کاؤنٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے مبینہ مقابلے میں جاں بحق ہونے والوں کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کردی گئی جب کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے مطابق ساہیوال کے علاقے قادرآباد کے قریب پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی  کارروائی سے جاں بحق ہونے والے 4 افراد کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کردی گئی جس کے مطابق 13 سالہ بچی اریبہ کو 6 گولیاں لگی جب کہ کار ڈرائیور ذیشان کو 10، زخمی بچوں کی والدہ نبیلہ بی بی کو 4 اور خلیل کو 13 گولیاں لگی۔

دوسری جانب سی ٹی ڈی کی کارروائی میں زخمی ہونے والے بچوں کو لاہور منتقل کر دیا گیا جہاں انہیں جنرل اسپتال طبی امداد دی جارہی ہے، عمیر،منیبہ اور ہودیہ کو سرکاری ایمبولینس میں لایا گیا۔ زخمی عمیر کو سیدھی ٹانگ میں گولی لگی تھی، منیبہ کا ہاتھ گاڑی کا شیشہ ٹوٹنے کی وجہ سے زخمی ہوا تھا۔

خیال رہے گزشتہ روز ساہیوال میں ٹول پلازہ کے نزدیک سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں 4 افراد جاں بحق اور 3 بچے زخمی ہوگئے تھے۔ جاں بحق افراد میں ایک خاتون نبیلہ، ان کا شوہر محمد خلیل اور ان کی 13 سالہ چھوٹی بیٹی اریبہ شامل ہے جب کہ بیٹا اور 2 بیٹیاں بھی زخمی ہوئی ہیں۔ جاں بحق افراد میں چوتھا شخص ذیشان ان کا ہمسایہ تھا۔ یہ پورا خاندان لاہور کا رہائشی تھا جو شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے بورے والا جارہا تھا۔

tttttttt 2

سی ٹی ڈی نے ابتدائی بیان میں مرنے والے تمام افراد کو کالعدم تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) کا دہشت گرد قرار دیا، بعد میں اپنا مؤقف بدل کر چاروں جاں بحق افراد کو اغوا کار قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس نے ساہیوال میں جی ٹی روڈ پر ٹول پلازہ کے نزدیک ایک آلٹو گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا تو کار سوار افراد نے فائرنگ کردی۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے چاروں افراد ہلاک ہوگئے تاہم کوئی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا۔

پولیس نے کہا کہ اغوا کاروں کے قبضے سے تین بچے بازیاب کرالیے گئے جو گاڑی کی ڈگی میں موجود تھے۔ تاہم صورت حال اس وقت یکسر تبدیل ہوگئی جب لاشوں اور زخمی بچوں کو ڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی گئی۔

جب بچوں کا بیان قلمبند کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جاں بحق افراد میں ان کے والد، والدہ، بڑی بہن اور والد کا دوست شامل ہیں۔ وہ لوگ رشتے داروں سے ملنے لاہور سے بورے والا جارہے تھے کہ راستے میں پولیس نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی۔ بچوں نے کہا کہ پاپا نے پولیس سے بہت کہا کہ تلاشی لے لو، ہمارے پاس کچھ نہیں، لیکن پولیس نے گولیاں ماردیں۔

 عینی شاہدین نے بتایا کہ پولیس نے نہ گاڑی روکی اور نہ تلاشی لی بلکہ سیدھی فائرنگ کردی جبکہ گاڑی سے بھی کوئی اسلحہ برآمد نہیں ہوا۔ نیز ڈگی میں بچوں کے ہونے کا دعویٰ بھی غلط ہے۔

مقامی تھانہ یوسف والا پولیس نے ہلاک شدگان کی شناخت سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی سی ٹی ڈی کی جانب سے کی گئی ہے۔

جائے وقوعہ پر موجود عینی شاہدین کا کہنا ہے لاشوں کے پاس جب ایک پستول بھی موجود نہیں تو پولیس نے ان پر کیوں فائرنگ کی۔

اپنے دوسرے بیان میں پولیس نے اس معاملے پر اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔ پہلے ان افراد کو اغوا کار قرار دیا گیا تھا تاہم بعدازاں سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ہلاک افراد دہشت گرد تھے جن کا تعلق کالعدم تنظیم داعش سے تھا جن کا نام ریڈ بک میں بھی شامل ہے۔

سی ٹی ڈی ٹیم نے یہ بھی کہا کہ اس نے جائے وقوعہ سے خود کش جیکٹ، ہینڈ گرنیڈز اور رائفلز سمیت دیگر اسلحہ اپنے قبضے میں لیا۔ ان کے ساتھ ایک موٹرسائیکل پر دیگر 2 دہشت گرد تھے جو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

 

ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق یہ نیٹ ورک درجنوں قتل اور بم دھماکوں کے واقعات میں ملوث تھا، اس گروہ کا ایک کارندہ ذیشان جاوید ساہیوال میں مارا گیا جبکہ اس کا دوسرا ساتھی عدیل حفیظ فیصل آباد میں مارا گیا تھا۔ یہ لوگ ملتان میں آئی ایس آئی کے تین افسران اور فیصل آباد میں ایک پولیس افسر کے قتل میں ملوث تھے۔

ؤ

واقعے میں زندہ بچ جانے والے بچوں میں 2 لڑکیاں اور ایک بچہ شامل ہے جس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنا نام عمیر خلیل اور والد کا نام محمد خلیل بتایا۔ عمر خلیل نے کہا کہ وہ لوگ چاچا رضوان کی شادی میں شرکت کے لیے بوریوالا گاؤں جارہے تھے، جبکہ والدین کو مارنے کے بعد پولیس انہیں ایک پٹرول پمپ پر چھوڑ کر چلی گئی، تاہم پھر واپس آئی اور اسپتال پہنچایا۔

وزیر اعظم کا نوٹس، رپورٹ طلب

دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب سے فوری رپورٹ طلب کرلی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ حقائق کو سامنے لانے کے لیے واقعے کی مفصل اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے کمشنر اور ڈی سی کو واقعہ میں زخمی افراد کو تمام طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے جب کہ وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت اورکمشنر و ڈی سی کو لواحقین اور مظاہرین سے فوری رابطے کا بھی کہا ہے۔

سی ٹی ڈی اہلکار زیر حراست

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا۔ ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب نے گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہی وزیراعلیٰ میانوالی سے لاہور آنے کے بجائے ساہیوال روانہ ہوگئے ہیں۔

زخمی بچوں کی کفالت حکومت کے ذمہ ہوگی، وزیر اعلی پنجاب

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں سی ٹی ڈی کے اہلکار قصور وار ثابت ہوئے تو مرنے والوں کے لواحقین کو مناسب معاوضہ دیا جائے گا، جب کہ قصور وار اہلکاروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے اسپتال کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ زخمی ہونے والے بچوں کی کفالت حکومت کے ذمہ ہوگی۔

جے آئی ٹی کا سربراہ تبدیل 

آئی جی پنجاب کی جانب سے ڈی آئی جی ذوالفقار حمید کی سربراہی میں ساہیوال واقعے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی جس میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے افسران کو بھی شامل کیا گیا اور جے آئی ٹی کو 3 دن میں تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا۔

بعد ازاں ترجمان پنجاب پولیس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ساہیوال واقعہ کی تحقیقات کیلئے قائم جے آئی ٹی کا سربراہ تبدیل کر دیا گیا ہے، ڈی آئی جی ذوالفقار حمید کی جگہ اب ایڈیشنل آئی جی اعجاز شاہ کو جے آئی ٹی کا سربراہ بنا یا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔