تھر کا گورانو ڈیم دنیا بھر کے نایاب پرندوں کا مسکن بن گیا

اسٹاف رپورٹر  بدھ 6 فروری 2019
1500 ایکڑ پر محیط ڈیم اسلام کوٹ ٹاؤن سے 30 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، محمود اختر، گورانو اہم مقام ہے، ابو الفضل رضوی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

1500 ایکڑ پر محیط ڈیم اسلام کوٹ ٹاؤن سے 30 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، محمود اختر، گورانو اہم مقام ہے، ابو الفضل رضوی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کراچی: تھر پارکر میں واقع گورانو ڈیم جو کول مائننگ کے دوران نکلنے والے پانی سے بنایا گیا تھا جو دنیا بھر سے مختلف نسل کے نایاب پرندوں کا مسکن بنتا جا رہا ہے۔

فطرت کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل یونین فارکنزرویشن آف نیچر(آئی یو سی این)نے حال ہی میں مختلف نسل کے پرندوں کی نقل مکانی سے متعلق ماحولیاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا کہ تھر پارکر میں واقع گورانو ڈیم جو کول مائننگ کے دوران نکلنے والے پانی سے بنایا گیا تھا دنیا بھر سے مختلف نسل کے نایاب پرندوں کا مسکن بنتا جا رہا ہے۔

رپورٹ کہا گیا ہے کہ موسمِ سرما کی ابتدا میں دنیاکے مختلف علاقوں میں موسم انتہائی سرد اور خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے مختلف نسل کے نایاب پرندے نسبتاً گرم علاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کردیتے ہیں۔

پاکستان میں ہر سال موسمِ سرما میں10لاکھ پرندے ہجرت کرکے آتے ہیں جن میں زیادہ تر صوبہ سندھ کی مرطوب زمین اور گرم جھیلوں کی وجہ سے سندھ کے مختلف علاقوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔

گورانو ڈیم اپنی مرطوب زمین کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے مختلف انواع کے پرندوں کے رہنے کے لیے موزوں ترین جگہ بنتا جا رہا ہے جہاں ان پرندوں کے لیے ڈیم میں موجود مچھلیوں کی صورت میں خوراک کا بھی وافر انتظام موجود ہے۔

ہجرتی پرندوں میں لٹل گربی یا ڈیبچک، سفید اور گلابی پلیکن، ڈیموسویل کرین، انڈین کراؤسر، یوروشین گریگن گدھ، اسٹیپ ایگل، لمبی ٹانگوں والے بزارڈ، انڈین اور پاریا کائٹ، انڈین رولر،گرے ویگ ٹیل، بلیک ڈونگو، بلبل، انٹرمیڈیٹ ایگرٹ، گرے اینڈ پانڈ ہیرون، ریڈ ویٹلڈلیپونگ، بلیو روک پیجن اور دیگر مختلف اقسام کے نایاب پرندے شامل ہیں۔

گورانو ڈیم اسلام کوٹ ٹاؤن سے 30 کلومیٹر کی دوری پر تھر پارکر کے ڈسٹرکٹ تعلقہ اسلام کوٹ میں واقع ہے۔ 1500 ایکڑپر محیط ریت کے ٹیلوں اور وادیوں پر مشتمل اس ڈیم کو سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کی جانب سے تعمیر کیا گیا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔