اسلام آباد میں مذاکراتی اجلاس میں تاخیر اور ماسکو کانفرنس

شاہد اللہ اخوند  جمعـء 1 مارچ 2019
مستقبل میں معاملات افغان حکومت اور افغان قوم میں طے ہونے ہیں، ماسکو اجلاس اس بارے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مستقبل میں معاملات افغان حکومت اور افغان قوم میں طے ہونے ہیں، ماسکو اجلاس اس بارے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکا اور افغان طالبان کے مابین امن مذاکرات کا عمل خصوصی ٹاسک کے طور پر جاری ہے جس میں اب تک دو اہم حریفوں کے مابین چار اجلاس ہوچکے ہیں۔ بظاہر قطر، ماسکو اور عرب امارات میں ہونے والے اجلاسوں کو نتیجہ خیز سمجھا جاسکتا ہے کیوں کہ دونوں فریق اس بنیادی مسئلے پر متفق ہوگئے ہیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہوگا، جس کی موجودگی افغان جنگ کا بنیادی سبب ہے۔

البتہ مذاکرات کا یہ عمل کب اپنی تکمیل کو پہنچنے والا ہے؟ فریقین کب تک افغانستان کے امن میں اپنا کردار ادا کریں گے؟ اس بابت کچھ کہنا اور لکھنا قبل از وقت ہے کیوں کہ افغانستان سے متصل ممالک اور ایشیاء کے حالات میں خصوصی اور تشویش ناک تغیر واقع ہورہا ہے، جب کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے بعد ایک نیا اسٹریٹیجک بلاک بننے کی جانب گامزن ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: افغان مذاکرات میں پاکستان کا کردار ناگزیر کیوں؟

امریکا اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات میں تعطلی کے بعد امریکا اور پاکستان کی مسلسل کوششوں کے بعد طالبان کو ایک بار پھر سے مذاکرات کےلیے آمادہ کیا جس میں پاکستان نے خصوصی کردار ادا کیا۔ طالبان کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں پاکستانی کردار کا اعتراف امریکی صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے بھی کیا جب کہ وزیراعظم عمران خان اور میجر آصف غفور نے خصوصی کردار ادا کرنے کا اظہار بھی کیا۔ ساتھ ہی ساتھ مذاکرات میں پیش رفت کےلیے خصوصی کردار ادا کرنے اور افغانستان میں امن کی قیام کےلیے دعا گو ہوئے۔

چنانچہ 21 جنوری کو دوحہ میں مذاکراتی اجلاس کا چوتھا راؤنڈ منعقد ہوا جو نہایت اہم رہا۔ پہلی مرتبہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں میں منعقد ہونے والے اس اجلاس کے چوتھے راؤنڈ کو چھ دنوں تک طول دیا گیا۔ 21 جنوری کو شروع ہونے والا اجلاس 26 جنوری تک جاری رہا جس میں نہایت اہم ترین پیش رفت ہوئی۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: افغان امن مذاکرات میں دراڑ کیوں؟ (حصہ اول)

چھ روز پر مشتمل اس اجلاس میں چند ایسی تبدیلیاں کی گئی تھیں جنہیں پہلے مذاکراتی اجلاسوں کے دوران دیکھا نہیں گیا تھا۔ مذاکراتی اجلاس کے اس چوتھے راؤنڈ کی تفصیلات مکمل طور پر واضح نہیں کی گئیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: افغان امن مذاکرات میں دراڑ کیوں؟ (حصہ آخر)

اسی طرح حسب سابق کسی دوسرے ملک کے نمائندوں کو اس میں شریک نہیں کیا گیا جو طالبان کو سابقہ اجلاسوں سے حاصل ہونے والے سبق کا نتیجہ تھا، جس میں طالبان کو دبانے کی کوشش کی گئی تھی جس کے بعد طالبان نے مکمل طور کسی بھی دباؤ میں نہ آنے کا واضح اعلان کیا تھا۔

مذاکرات کے اس چوتھے راونڈ میں امریکی انخلا پر دنوں فریقوں کا اتفاق ہوا۔ البتہ اس بابت فریم ورک اور انخلا کا ٹائم ٹیبل مقرر نہیں کیا گیا جس پر طالبان بضد تھے کہ افواج کے انخلا کا ٹائم ٹیبل جلد بنایا جائے جب کہ طالبان کا جلد افواج کے انخلا کا مطالبہ تھا۔ اس کے برعکس، امریکا اس انخلا کا ٹائم ٹیبل مقرر کرنے کے موڈ میں فی الحال نہ تھا۔ اسی اختلافی نکتے کی وجہ سے امریکی انخلا پر تو اتفاق ہوا لیکن کتنی مدت امریکی افواج کا انخلا ہوگا؟ اس ضمن میں کوئی خصوصی پیش رفت نہ ہوئی جس کے باعث ٹائم ٹیبل مقرر کرنے کا ٹاسک اگلے اجلاس تک مؤخر کردیا گیا۔ اگلے اجلاس کےلیے 25 فروری کی تاریخ مقرر کی گئی جس کا مرکزی نقطہ نظر امریکی فوج کے انخلا کےلیے ٹائم ٹیبل مقرر کرنا تھا۔

پاکستانی قیادت کی جانب سے طالبان کو پاکستان میں مذاکراتی اجلاس کرانے کی خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ یہ اقدام اس لیے کیا گیا کیوں کہ بعض عناصر نے مذاکرات میں پاکستانی کردار کو یکسر مسترد کر دیا تھا کہ پاکستان کا مذاکرات کے اس عمل میں کوئی کردار نہیں۔ اس بناء پر پاکستانی قیادت نے خصوصی طور پر طالبان کو اگلا مذاکراتی اجلاس پاکستان میں کرانے کی دعوت دی، جو انڈیا اور افغان حکومت کےلیے اس کی زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ چنانچہ طالبان نے پاکستان کی اس خصوصی دعوت کو قبول کرلیا۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق طالبان اور امریکی مذاکراتی وفد کے مابین اجلاس کےلیے 18 فروری کا دن منتخب کیا گیا۔ 18 فروری کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں امریکا اور طالبان کے وفد کے مابین مذاکراتی اجلاس کا تعین کیا گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ طالبان نے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کا عندیہ دیا۔ جس میں پاک افغان تعلقات، پاکستان میں افغان پناہ گزینوں اور تاجروں کے مسائل پر بھی تفصیلی گفتگو کی جانی تھی۔ اسی طرح سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو بھی 17 اور 18 فروری کو پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔ بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی طالبان کے مذاکراتی وفد سے ملاقات کریں گے۔ البتہ اس بابت ان کے شیڈول میں اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن اچانک 17 فروری کو اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس کو مؤخر کردیا گیا۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس اجلاس کی منسوخی کے بارے میں اپنی آفیشل بیان میں کہا: ’’مذاکرات کے حوالے سے مملکت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد شہر میں 18 فروری 2019 کو امریکی وفد کے ساتھ امارت اسلامیہ کی مذاکراتی ٹیم کا اجلاس منعقد ہونے والا تھا۔ امارت اسلامیہ نے مذکورہ اجلاس میں اپنے نمائندوں کی شرکت کی مکمل منصوبہ بندی کرلی تھی، مگر بدقسمتی سے امارت اسلامیہ کے مذاکراتی ٹیم کے اکثر اراکین کو امریکا اور اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں ہونے کی وجہ سے سفر کا موقع میسر نہ ہوسکا، اسی لیے اجلاس مؤخر ہوا۔

’’یاد رہے کہ اجلاس مؤخر ہونے سے امارت اسلامیہ کا کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ امارت اسلامیہ نے اجلاس میں شرکت کےلیے پوری تیاری کرلی تھی۔ اس کے علاوہ میڈیا میں اس حوالے سے جو رپورٹیں شائع ہورہی ہیں، کہ گویا اجلاس کو امارت اسلامیہ کی جانب سے لغو کہا گیا یا دیگر وجوہ کا تذکرہ ہورہا ہے، وہ تمام بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔‘‘

طالبان کے اس آفیشل بیان میں مذاکراتی اجلاس کے مؤخر ہونے کی بنیادی وجہ وفد کے بعض اراکین کے نام امریکا اور اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ شامل ہونا بیان کی گئی ہے، حالانکہ اس سے قبل مذاکراتی وفد دوسرے ممالک میں سفر کرچکے تھے۔ لیکن چونکہ مذاکرات کے چوتھے راؤنڈ کے بعد طالبان نے مذاکراتی وفد کے ارکان کی تعداد 5 سے بڑھا کر 13 کردی تھی جن میں زیادہ تر وہ افراد شامل تھے جو امریکی قید میں وقت گزار چکے تھے، اور اب تک ان کے نام اقوام متحدہ اور امریکا کی بلیک لسٹ میں ہیں۔

لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ اگر مذاکراتی وفد کے بعض ارکان کے نام اقوام متحدہ یا امریکی بلیک لسٹ میں شامل ہیں، اور ان پر سفری پابندی عائد ہیں، تو پھر انہوں نے پاکستان کے علاوہ متحدہ عرب امارات، قطر اور روس کا سفر کیسے کیا؟ اس حوالے سے چند حقائق اور امریکا کی دوغلی پالسی کچھ اور عیاں ہورہی ہے۔

مختلف ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ طالبان رہنماؤں کو تمام دستاویزات ہونے کے باوجود امریکا نے مبینہ طور پر قطر حکومت کو دھمکی دی تھی کہ اگر طالبان کے بعض رہنماؤں کو پاکستان جانے کی اجازت دی گئی تو وہ قطر میں مذاکرات نہیں ہونے دیں گے؛ جب کہ دوسری جانب اگر قطر میں موجود رہنماؤں کے علاوہ دیگر رہنما پاکستانی حکام سے ملاقات کرلیتے تو افغان حکومت کو پاکستان اور افغان طالبان کے خلاف پروپیگنڈے کا موقع مل جاتا۔

یہ بھی اطلاعات ہے کہ امریکا نے گوانتا نامو بے سے رہا کیے گئے طالبان رہنماؤں ملا محمد فاضل، ملا عبدالحق، مولوی محمد نبی عمری، ملا نور اللہ نوری اور ملا خیر اللہ خیرخواہ کو پاکستان جانے کی اجازت اس لیے نہیں دی کیوں کہ پانچ اور چھ فروری کو ماسکو میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے امریکا نے پیشکش کی تھی کہ اگر یہ مذاکرات ازبکستان میں ہوں تو ان پانچ افراد کو سفر کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ تاہم ملا فاضل اور ملا خیر اللہ نے سفری پابندی کے باوجود ماسکو کانفرنس میں شرکت کی تھی جس کے بعد امریکا نے قطر حکومت پر دباؤ ڈال کر طالبان کے بعض رہنماؤں کو پاکستان جانے سے روک دیا۔

اکتوبر 2017 میں ان طالبان رہنماؤں کو افغانستان کے پاسپورٹ جاری کردیئے گئے تھے لیکن ان سے ضمانت لی گئی کہ ان پاسپورٹس پر وہ پاکستان کا سفر نہیں کریں گے۔ کہا جارہا ہے کہ بھارتی ایما پر افغان حکومت نے یہ شرط عائد کی تھی، جس کی وجہ سے طالبان کے یہ رہنما امریکا کی خواہش کے برعکس کسی ملک کا سفر نہیں کرسکتے۔ اس وجہ سے افغان طالبان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سترہ اور اٹھارہ دسمبر 2018 کو ملا فاضل اور ملا خیر اللہ کو دوحہ کے ہوائی اڈے پر تین گھنٹے تک روکے رکھا گیا اور پھر امریکا کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل زاد کی مداخلت پر انہیں دبئی جانے کی اجازت دی گئی۔ تاہم انہیں دبئی میں بھی صرف دو دن قیام کی اجازت دی گئی تھی۔

لب لباب یہ کہ 18 فروری کو پاکستان میں منعقد ہونے والے اجلاس کو بڑی اہمیت حاصل تھی اور اس میں خاصی پیش رفت ہونے والی تھی لیکن بعض ممالک کی شرارتوں اور خود امریکی ضد نے اسے ناکام بنا دیا۔

اب تک جتنے بھی اجلاس، مذاکرات کے حوالے سے ہوئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر امریکی انخلا اور خارجہ پالیسی کو چھیڑا گیا ہے۔ کیوں کہ طالبان افغانستان میں بدامنی کی اصل وجہ امریکی اشتعال انگیزی اور افغانستان میں قیام کو گردانتے ہیں۔ اس بناء پر جب تک امریکی فوج افغانستان سے انخلا نہیں کرتی، اس وقت تک افغان حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کےلیے تیار نہیں۔

البتہ پانچ اور چھ فروری کو روسی دارالحکومت ماسکو میں ہونے والے اجلاس کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے جو روس میں مقیم افغانیوں کی جانب سے ماسکو میں منعقد کیا گیا۔ اس کا مقصد افغانستان کے مستقبل کے بارے میں تجاویز سامنے لانا اور امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی داخلہ پالیسی پر غور و فکر کرنا تھا۔ اس اجلاس میں افغان طالبان کو بھی دعوت دی گئی۔ افغانستان کے مستقبل میں اہم کردار ادا کرنے والے طالبان کو اس اجلاس میں مدعو کرنا از حد لازمی تھا۔ اس دعوت کو طالبان نے نہایت اہم قرار دے کر منظور کرلیا اور دس اراکین کے ساتھ اس اجلاس میں شرکت کا اعلان بھی کردیا۔

دوسری جانب اس اجلاس کےلیے افغان حکومت کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں اور عام عوامی و سماجی افراد کو بھی دعوت دی گئی جس میں سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی شامل تھے۔ البتہ افغان حکومت کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی جو افغان حکومت کےلیے نہایت شرمندگی کا باعث بنا اور افغان صدر اشرف غنی نے اس اجلاس کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔

دو دن جاری رہنے والے اس اجلاس میں افغان قوم کے نمائندوں کے تحفظات سنے گئے جب کہ طالبان نے بھی اپنی تمام تر صورتحال سے افغان قوم کے نمائندوں کو آگاہ کردیا۔ کانفرنس کے اختتام پر افغان طالبان کے وفد کے سربراہ مولوی شیر محمد عباس ستانکزئی نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس کے مطابق اس کانفرنس میں افغان قومی نمائندوں نے اس پر اتفاق کیا کہ افغانستان سے امریکی انخلا ضروری ہے۔ کسی بھی صورت میں امریکی افواج کو یہاں سے نکلنا ہوگا۔ طالبان اور افغان نمائندوں نے اس پر مکمل اتفاق کرلیا۔ اور افغان نمائندوں کو اس بابت مکمل طور پر آن بورڈ لے لیا گیا۔

اسی کے ساتھ افغانستان میں نظام حکومت کے حوالے سے بات کی گئی جس میں افغان طالبان نے اسلامی نظام حکومت کے قیام کا عندیہ سب کے سامنے پیش کیا۔ اسی پر افغان نمائندوں کے تحفظات کو دور کیا گیا اور افغان قوم کو مکمل طور پر اعتماد میں لیا گیا، کہ اپنے عوام کی حفاظت اولین ترجیح ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ملی اردو/ سرود ملی (افغان قومی ترانے) کو ختم نہیں کیا جائے گا بلکہ اس میں اصلاحات کی جائیں گی۔

ماسکو میں منعقد ہونے والا یہ اجلاس نہایت اہم رہا کیوں کہ اس میں ایک تو افغان قومی نمائندوں کو ایک ساتھ مل جل کر بیٹھنا پڑا جس سے ایک دوسرے کو سمجھنے اور تحفظات دور کرنے کا موقع ملا۔ ساتھ ہی ساتھ افغانستان کے داخلی معاملات پر غور و فکر کرنے اور تجاویز سامنے رکھنے کا موقع طالبان اور افغان قومی نمائندوں دونوں کو ملا۔ اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ماسکو میں ہونے والی کانفرنس کا کردار سب سے اہم رہا۔ کیوں کہ امریکی انخلا کے بعد معاملات افغان حکومت اور قوم کے ساتھ طے پانے ہیں جس کےلیے یہ اجلاس پیش خیمہ اور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔