افغان امن مذاکرات میں دراڑ کیوں؟ (حصہ اول)

شاہد اللہ اخوند  بدھ 23 جنوری 2019
طالبان کی جانب سے اچانک انکار نے مذاکرات میں ایسی ڈیڈ لاک قائم کردی جو شاید کافی طوالت اختیار کرجائے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

طالبان کی جانب سے اچانک انکار نے مذاکرات میں ایسی ڈیڈ لاک قائم کردی جو شاید کافی طوالت اختیار کرجائے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

افغانستان میں امن کے قیام اور سترہ سالہ خون ریز جنگ کے خاتمے کےلیے آخر کار امریکا نے طالبان سے مذاکرات کےلیے آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ جب کہ طالبان اس سے قبل ہی براہ راست امریکا سے افغان حکومت کی شمولیت کے بغیر مذاکرات کےلیے نہ صرف راضی تھے بلکہ انہوں نے امریکا کو بار بار خون خرابہ نہ کرنے، اور افغانستان میں قیام امن کی خاطر مذاکرات کی پیش کش کی تھی۔ طالبان سے براہ راست مذاکرات کے میز پر بیٹھنے کےلیے امریکا نے آمادگی کا اظہار کیا۔ جس میں سب سے بڑا کردار پاکستان نے ادا کیا، یوں افغان طالبان اور امریکا کے مابین مفاہمت کے اس عمل کے سلسلے میں تین اجلاسں کیے گئے۔

قطر اور ابو ظہبی میں ہونے والے اجلاسوں سے مذاکرات کی کامیابی اور افغان امن عمل میں پیش رفت کی توقعات پیدا ہوگئی تھیں جس میں سب سے بڑا کردار پاکستان اور دوسرے نمبر پر قطر نے ادا کیا۔

مذاکرات کے سلسلے میں ہونے والے اجلاسوں سے کامیابی کی امیدیں اس لیے باندھی گئی تھیں کہ طالبان کی جانب سے کیے گئے چھ نکاتی ایجنڈے، اور مطالبہ پر ایک حد تک عمل درآمد شروع ہوا تھا۔

طالبان کی جانب سے بنیادی اور اہم نکتہ اور مطالبہ یہ تھا اور ہے کہ امریکی فوج افغانستان سے مکمل طور پر انخلا کرے، اسی مطالبہ کو طالبان نے تینوں اجلاسوں میں اٹھایا۔ البتہ امریکی وفد جس کی سربراہی زلمے خلیل زاد کررہے تھے، دو دفعہ اس نکتہ کو ہونے والے اجلاس کا ایجنڈا نہیں بنایا جس پر طالبان کے مذاکراتی وفد نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا۔ اور اس کو امریکی وفد کی جانب سے وعدہ خلافی کا نام دیا گیا تھا۔ البتہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے اپنی نصف فوج کے نکالنے کے اعلان نے مذاکرات کے اس عمل میں کامیابی کی امنگوں کو اور واضح کردیا تھا۔ اگرچہ پینٹاگون، افغان حکومت اور نیٹو کی جانب سے اس کی مخالفت کی توقع تھی۔ لیکن بہر حال اس سے مذاکرات میں پیش رفت کی قوی امید پیدا ہوگئی تھی۔

طالبان کی جانب سے دوسرا بڑا مطالبہ گرفتار افغان طالبان کے رہنماؤں کی آزادی کی صورت میں تھا، جس پر اعتماد کےلیے عمل درآمد کروائی گئی اور انس حقانی سمیت طالبان کے نو رہنماؤں کو چھوڑ دیا گیا۔

تیسرا مطالبہ افغان طالبان کے کئی رہنماؤں پر اقوام متحدہ اور امریکا کی جانب سے لگائی گئی پابندی کا ہٹانا تھا جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے کئی افغان طالبان کے رہنماؤں سے سفری پابندیاں ہٹائی گئیں اور یوں افغان طالبان کے کئی رہنماؤں نے ابوظہبی کا سفر کیا۔ جب کہ طالبان نے بھی افغانستان میں قیام امن کے مطالبے پر عمل درآمد کا اشارہ دیا تھا، افغان طالبان کا دورہ ایران اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

یوں افغان طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کا سلسلہ رواں دواں تھا اور چوتھے اجلاس کی تیاریاں جاری تھیں۔ لیکن مذاکرات کے اس تمام تر پراسس میں افغان حکومت اور انڈیا کو شامل نہ کرنا، ایک ایسا ایشو تھا جس نے افغان حکومت، امریکا، سعودی عرب اور پاکستان سمیت چین کو بھی مایوس کن صورت حال سے دوچار کردیا تھا۔ البتہ مذاکرات کے اس عمل میں تین خوش آئند اجلاس ہونے کی وجہ سے امریکا اور دوسرے ممالک نے یہ تجزیہ کیا تھا کہ شاید اب افغان طالبان اشرف غنی حکومت کے بابت نرمی اختیار کریں گی۔ اس لیے امریکا نے طالبان پر افغان حکومت کے ساتھ دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ جس کےلیے سعودی عرب کو کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا۔ اور یوں فیصلہ کیا گیا کہ مذاکرات کا چوتھا راؤنڈ اور اجلاس سعودی عرب کے شہر ریاض میں منعقد ہوگا۔ چنانچہ مذاکرات کےلیے 9 اور 10 جنوری کی تاریخ متعین کی گئی۔ جب کہ طالبان نے بھی اس پر ابتدا میں آمادگی کا اظہار کیا تھا، کہ مذاکرات کا چوتھا اجلاس جو دو دن بعد 9 اور 10 جنوری کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہونا تھا، لیکن بعدازاں طالبان نے اس سے انکار کردیا۔

طالبان نے سعودی عرب میں ہونے والے اس چوتھے راؤنڈ سے انکار کرتے ہوئے سخت مؤقف اپنایا کہ مذاکرات قطر میں ہوں گے۔ طالبان کی جانب سے اچانک انکار نے مذاکرات میں ایسی ڈیڈ لاک قائم کردی جو شاید کافی طوالت اختیار کرجائے۔

افغان طالبان کی جناب سے ایسی کیا وجوہات تھیں جس کی بناء پر تین اجلاس ہونے کے باوجود اگلی نشست سے انکار کا سبب بنیں، درج ذیل ہیں:

مذاکرات کے سلسلے میں چوتھی نشست سے طالبان کی انکار کے وجوہات میں سے پہلے طالبان کا مؤقف لیں گے۔

طالبان نے سعودی عرب میں ہونے والے اجلاس سے انکار کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ دباؤ کے تحت مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے۔ ‏طالبان نے مؤقف اپنایا کہ امریکا کا کردار اور مذاکرات کے حوالے سے غیرسنجیدہ اقدامات اور نامناسب رویے سے امن مذاکرات پر منفی اثرات مرتب ‏ہوں گے‎۔

مذاکرات سے انکار کے حوالے سے طالبان نے جو آفیشل بیان جاری کیا، سب سے پہلے وہ قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں:

’’جب امریکی صدر ٹرمپ نے امارت اسلامیہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا فیصلہ کیا تو امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے ‏کئی بار امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے نمائندوں سے مختلف ممالک میں ملاقاتیں کیں۔ امارت اسلامیہ کے رہنماؤں نے ان کو ایجنڈا ‏پیش کیا کہ وہ افغانستان پر امریکی جارحیت کے خاتمے اور افغانستان سے متعلق امریکا کے خدشات دور کرنے کے اہم موضوع پر بات ‏چیت کریں گے۔ اس کے علاوہ ملاقاتوں میں دیگر ضروری امور بھی زیر غور آئے۔ جارحیت پسندوں کے ساتھ امن مذاکرات جنگ کے ‏‏17 سال بعد شروع ہوئے، امریکا طویل جنگ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں؛ افغان تنازع کا سیاسی حل ممکن ہے۔

‏تاہم امریکی نمائندے بنیادی مسائل کے حل کے بجائے سطحی مسائل، بالخصوص جن کا غیرملکی پہلو کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے، بات ‏چیت کرتے ہیں۔ اس طرح کے رویے سے افغان تنازع کبھی بھی حل نہیں ہو سکتا۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ مذاکرات کی آڑ میں جنگ ‏اور جارحیت کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کریں، لیکن ایسے اقدامات سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے‎۔

دوسرا امر یہ ہے کہ امریکی نمائندے کوشش کرتے ہیں کہ وہ مختلف اسلامی ممالک کو دباؤ میں لے کر ان کے ذریعے ہم پر دباؤ ڈالنے ‏کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا نے انہیں دباؤ بڑھانے کا ٹاسک دیا ہے یا وہ امریکی نمائندے کے مشن کو دیکھ کر ‏دباؤ ڈال کر اپنے اہداف حاصل کرنے کی مذموم کوشش میں ہیں‎۔

دوسری بات یہ ہے کہ فریقین کی رضامندی کے بغیر کچھ باتوں کا راز میڈیا پر افشا کرنا مذاکرات میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔ جیسا کہ ‏ابوظہبی مذاکرات کے بعد فریقین کی اتفاق رائے کے بغیر سعودی عرب میں آئندہ مذاکرات کےلیے اجلاس طلب کیا گیا۔ امارت ‏اسلامیہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ افغانستان کی آزادی اور ملک میں قیام امن کےلیے جنگ اور مذاکرات دونوں محاذوں پر فعال اور ‏سرگرم ہے۔ جب تک ملک پر ناجائز قبضہ برقرار رہے گا، کسی معاملے پر بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ نہ ہی کسی کے دباؤ کے نتیجے میں ‏مقدس جہاد اور جدوجہدِ آزادی کےلیے دی گئی قربانیوں کی توہین کی جا سکتی ہے‎۔

جاری ہے…

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔