- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس جاری
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
- آئی پی ایل؛ ’’پریتی زنٹا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر کھلائے‘‘
- اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
سینیٹ کمیٹی کی ابراہیم ارمان لونی کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت
اسلام آباد: سینیٹ کمیٹی انسانی حقوق نے بلوچستان پولیس کو ابراہیم ارمان لونی کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کردی۔
اسلام آباد میں سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا جس میں بلوچستان میں پی ٹی ایم کے رہنما پروفیسر ارمان لونی کی ہلاکت کے واقعے پر بریفنگ دی گئی۔
ڈی آئی جی لورالائی نے کہا کہ لورالائی میں ستمبر 2018 میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی، یکم جنوری کو کینٹ پر چار خود کش حملہ آوروں نے حملہ کیا، 13 جنوری کو ایف سی پر حملہ کیا گیا، 29 جنوری کو ریکروٹمنٹس سنٹر پر حملہ کیا گیا جن میں متعدد افراد شہید ہوگئے۔
ڈی آئی جی لورالائی نے کہا کہ صوبائی حکومت نے صورتحال کے باعث احتجاج اور جلسے جلوسوں پر پابندی لگا دی، 13 جنوری کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت میں ریلی نکالی گئی اور پشتون تحفظ موومنٹ نے دھرنا دے دیا، لیکن پی ٹی ایم کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر کارروائی کی گئی، پولیس نے دھرنا ختم کرنے کا مطالبہ کیا تو مظاہرین نے دھرنا ختم کردیا، ایمل خان طوخی کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو پی ٹی ایم کے لوگوں نے دوبارہ احتجاج شروع کیا۔
ڈی آئی جی لورالائی نے بتایا کہ ایمل خان کی گرفتاری پر مزاحمت کی گئی جس پر پولیس واپس آگئی، اس دوران پروفیسر ابراہیم لونی گر گئے تو انہیں اسپتال لے جایا گیا جہاں دل کے دورے کی وجہ سے ان کی ہلاکت ہوئی، ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا جس کی رپورٹ کے مطابق ان پر کوئی تشدد نہیں ہوا، اب ان کی لاش کے اجزاء کا فرانزک تجزیہ کیا جا رہا ہے، تجزیاتی رپورٹ کا انتظار ہے، اگر رپورٹ میں پولیس تشدد ثابت ہوجائے تو ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیری مزاری نے کہا کہ حکومت کا پی ٹی ایم سے کافی رابطہ رہا ہے اور اب بھی ہے، ارمان لونی کی ہلاکت کی ایف آئی آر درج ہونی چاہئے تھی، پی ٹی ایم کارکنان کی گاڑی پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہیں۔
پی پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کچھ قوتیں ایسی ہیں جو پی ٹی ایم کو برداشت نہیں کررہی ہیں، اس کیس میں گواہان موجود ہیں مگر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، لاہور سے رپورٹ تاحال نہیں بھیجی گئی، دونوں میڈیکل رپورٹس میں ہارٹ اٹیک کا ذکر نہیں، پولیس کو کس نے کہا کہ ارمان لونی کی رپورٹ میں ہارٹ اٹیک لکھو، اس طرح کے واقعات میں جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، گواہان اور فیملی تحقیقات کے لیے بھی جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ارمان لونی کی بہن نے کہا کہ بھائی کو بروقت اسپتال نہیں لے جایا گیا، پولیس اہلکاروں نے ارمان لونی کو اسپتال جانے سے روکا، 40 روز ہوگئے لیکن ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں دی جارہی۔
بلوچستان کے پولیس حکام نے کہا کہ ہم پی ٹی ایم کے خلاف نہیں بلکہ عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، پی ٹی ایم کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی گئی، ہمیں پالیسی بتائیں کہ ہم کیا کریں؟، ریاست کے خلاف نعری بازی ہو تو کیا ہم خاموش بیٹھیں؟۔ عثمان کاکڑ نے کہا کہ تو کیا آپ لوگوں کو قتل کردیں گے؟۔
سینیٹ کمیٹی نے متعلقہ پولیس کو ابراہیم ارمان لونی کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کردی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔