نظام عدل میں اصلاحات ناگزیر ہیں

خلیل احمد قریشی  پير 15 اپريل 2019
ملک میں موجود دہرا نظام قانون اس کی جڑوں کو کاٹ رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ملک میں موجود دہرا نظام قانون اس کی جڑوں کو کاٹ رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی ہمارا نظام ظلم کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ یہاں طاقتوروں کے لیے الگ اور کمزوروں کے لیے الگ قانون ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران اس ملک میں قانون کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا ہے اس کو ایک المیہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں مرغی چور برسوں جیلوں میں قید رہتے ہیں اور طاقتوروں کو ریلیف پہنچانے کے لیے چھٹی والے روز بھی عدالتیں لگالی جاتی ہیں۔ کسی بھی ملک کا عدالتی نظام اس کا آئینہ ہوتا ہے۔

سرونسٹن چرچل نے جنگ عظیم دوم کے دوران کہا تھا کہ اگر برطانیہ کے لوگوں کو عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں تو کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔ ادھرپاکستان کا عدالتی نظام جن خطوط پر استوار ہے اس میں ایک عام شخص کو انصاف فراہم کرنا محال ہے۔ یہ نظام انگریز نے برصغیر میں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے نافذ کیا تھا جس کو ہم آج بھی سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ عدالتی نظام میں جن بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اس سے ہم کوسوں دور ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ہماری سیاسی قیادت کا رویہ ہے۔

آج جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف یہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں انصاف کا نظام انتہائی مہنگا اور پیچیدہ ہے تو بے اختیار ہنسی آجاتی ہے کہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والا شخص کس قسم کی بات کررہا ہے۔ اگر آپ اتنا عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود ملک کے نظام انصاف سے ہی آشنا نہ تھے تو آپ حکمرانی کا حق کس طرح رکھ سکتے ہیں۔ معروف کالم نگار جاوید چوہدری ایک جگہ لکھتے ہیں کہ دور طالب علمی میں ایک مطالعاتی دوے میں جیل جانے کااتفاق ہوا۔ وہاں قید مختلف افراد سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ہم نے ان کی داستانیں سنیں۔ ان سب میں مشترک بات یہ تھی کہ تمام لوگ کمزور طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔ مجھے پوری جیل میں ایک بھی ایسا شخص نظر نہیں آیا جو طاقتور طبقے کی نمائندگی کرتا ہو۔ میں نے اس دورے کے بعد اپنی رپورٹ میں یہ لکھا تھا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے ’’جہاں کوئی طاقتور جرم نہیں کرتا‘‘۔ یہ جملے ہمارے عدالتی نظام کے لیے کسی تازیانے سے کم نہیں ہیں۔

پاکستان میں ہونے والے عدالتی فیصلے ہمیشہ متنازع رہے ہیں۔ یہاں جسٹس منیر جیسے جج بھی تھے جنہوں نے آئین شکنی کو جائز قرار دے کر ایک نئی ریت ڈالی، جس کی وجہ سے ہم برسوں دور آمریت میں زندہ رہے۔ ہمار ا نہ کوئی دستور تھا اور نہ ہی کوئی آئین۔ شخصی آمریت نے اس ملک کو جتنا نقصان پہنچایا اس کی تلافی ناممکن ہے اور اس میں ہماری عدلیہ بھی برابر کی ذمے دار ہے۔ ہماری عدالتوں نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جیسے عظیم اسکالر کو سزائے موت سنائی، جسے بعد میں کالعدم قرار دیا گیا۔ کبھی ملک کا مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو عدالتی فیصلے کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ہماری عدالتیں تمام فوجی حکمرانوں کے حق حکمرانی کو تسلیم کرتی رہیں۔ ہمارے ججز پی سی او کے تحت حلف اٹھاتے رہے۔ ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں توعدلیہ کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی اچھی مثالیں موجود نہیں ہیں۔ نظام جیسا بھی تھا، ہماری عدالتیں اس کے تحفظ میں بھی ناکام رہیں۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور آخر میں برپا ہونے والی وکلا تحریک نے عوام میں شعور ضرور اجاگر کیا، لیکن جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری جو ایک ہیرو کی صورت میں قوم کے سامنے آئے تھے، بعد میں آنے والے حقائق نے ان کے کردار کو بھی متنازع بنادیا۔ ’ریاست ہوگی ماں کی جیسی‘ نظم کہنے والے چوہدری اعتزاز احسن جو اس وکلاء تحریک کے سرخیل تھے، انہوں نے اس کو ہی کافی سمجھا کہ ججوں کو بحال کروادیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی اس تحریک نے ملک کو ایک نیا کلچر دیا اور عوام وکلا گردی سے آشنا ہوئے۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بحال ہونے کے بعد عتیقہ اوڈھو سے شراب برآمد ہونے کا تو نوٹس لیا لیکن سانحہ 12 مئی کے شہدا اور طاہرپلازہ میں زندہ جلائے جانے والے وکلا کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ شہدا وہ تھے جو ان کی بحالی کے لیے کراچی کی سڑکوں پر نکلے تھے۔

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وکلا کی تحریک اور افتخار محمد چوہدری کسی مخصوص ایجنڈے پر کام کررہے تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس تحریک کو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تعاون فراہم کیا گیا اور تمام فنڈنگ بھی ان کی جانب سے کی گئی۔ اس تحریک کا مقصد میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ مشرف کی جانب سے دیے جانے والے این آر او کو، جس سے بے نظیر بھٹو اور ان کی پارٹی کو فائدہ پہنچا کر تو کالعدم قرار دے دیا گیا لیکن شریف خاندان کے منی لانڈرنگ کے حوالے سے چشم کشا کیس حدیبیہ کو نظرانداز کردیا گیا۔

پاکستان میں سپریم کورٹ کی سطح پر بات کی جائے تو ہم اس کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دے سکتے ہیں، تاہم ہائی کورٹس اور نچلی سطح کی عدالتوں میں معاملات مثالی نہیں ہیں۔ یہاں خصوصی طور ہائی کورٹس کے حوالے سے بات کرنا انتہائی ضروری ہے، جہاں سے ایسے فیصلے سامنے آرہے ہیں جن سے عوام کا اعتماد مجروح ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قائم کی جانے والی جے آئی ٹی کو لاہور ہائی کورٹ نے کام کرنے سے روک دیا ہے۔ میں کوئی ماہر قانون تو نہیں ہوں لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے ہونے کے باوجود لاہور ہائی کورٹ نے جے آئی ٹی کو کام کرنے سے کیسے روک دیا۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف کے معاملے میں بھی لاہور ہائی کورٹ کا کردار کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بات واضح کردی ہے کہ نیب جب اور جہاں چاہے کسی بھی ملزم کو گرفتار کرسکتی ہے۔ اس کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کے برعکس جب گزشتہ دنوں نیب نے حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تو چھٹی کا دن ہونے کے باوجود چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے چیمبر میں ان کے وکلا کی درخواست سنی اور انہیں عبوری ضمانت دے دی۔ بعد ازاں اس ضمانت میں توسیع کردی گئی۔ ایک عام شہری اس پر سوال کررہا ہے کہ اتنا تیز اور سستا انصاف اس کو کیوں میسر نہیں ہے؟ کیا لاہور ہائی کورٹ مستقبل میں ہر ملزم کو اسی طرح کا ریلیف فراہم کرے گی؟

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو احتساب عدالت نے سزا سنائی تو یہ سزائیں بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کردیں۔ ایک دوسرے کیس میں میاں نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف ان کے وکلا نے طبی بنیاد پر ضمانت کی درخواست دائر کی، جس پر سپریم کورٹ نے ان کو چھ ہفتوں کے لیے ضمانت دے دی تاکہ وہ اپنا علاج کراسکیں۔ فیصلے کے بعد میاں صاحب کو اتنی سہولت فراہم کی گئی کہ عدالتی وقت ختم ہونے کے باوجود رات گئے ان کی رہائی کا پروانہ جاری کردیا گیا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی جیلوں میں قید ہزاروں قیدیوں کا کیا قصور ہے؟ آخر ان کو اس طرح سہولتیں فراہم کیوں نہیں کی جاتی ہیں۔ جیل میں قیدیوں کو بیمار ہونے کی صورت میں ضمانت دینے کا سلسلہ ہر کسی کے لیے ہونا چاہیے۔

ملک میں موجود دہرا نظام قانون اس کی جڑوں کو کاٹ رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عدالتی نٖظام میں اصلاحات کے لیے یکجا ہوں اور ایسی قانون سازی کی جائے جس سے عوام کو سستا اور تیز انصاف مل سکے۔ اگر ملک میں انصاف کا نظام تبدیل نہیں کیا گیا تو یہ پورے سسٹم کو ہی اپنے ساتھ لے کر ڈوب جائے گا۔ یہ ہماری سیاسی قیادت کے لیے آخری موقع ہے۔ اگر انہوں نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا تو آنے والا وقت کسی نئے نظام کا ہوگا، جس میں ان سیاستدانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خلیل احمد قریشی

خلیل احمد قریشی

بلاگر گزشتہ تیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ملک کے مؤقر اخبارات میں مختلف عہدوں پر فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ آج کل روزنامہ پاکستان کراچی سے بحیثیت نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔ بین الاقوامی حالات خصوصاً افغانستان اور مشرق وسطیٰ ان کا خاص موضوع ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔