پنجاب میں عثمان بزدار کی بیوروکریسی ٹیم آگئی

مزمل سہروردی  منگل 16 اپريل 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پنجاب میں تبادلوں کا شور ہے۔ بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر تبادلے کیے گئے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پنجاب میں بیوروکریسی کی پوری ٹیم ہی تبدیل کی جارہی ہے۔ تمام اہم محکموں کے سیکریٹری تبدیل ہو گئے ہیں۔ ایک عموی رائے یہ ہے کہ پرانے لوگ واپس آرہے ہیں۔ تجربہ کار بیوروکریٹس واپس آرہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ یہ ہے کہ شہباز شریف کی ٹیم واپس آرہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ تجزیہ غلط ہے۔ بیوروکریٹ کسی کا نہیں ہوتا۔ وہ سرکاری ملازم ہے اور سرکار کا ہی ملازم رہتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ پنجاب میں نئے تبادلے کیوں کیے جا رہے ہیں۔ میں اپنے پہلے تجزیہ اور رائے پر قائم ہوں کہ پنجاب میں عثمان بزدار ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہو رہے ہیں۔ ان کا راستہ روکنے کی خواہش رکھنے والے نہ صرف ناکام ہو رہے ہیں بلکہ مائنس بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین مائنس ہو چکے ہیں۔ ان کی قیادت پر ایمان لا چکے ہیں۔ اب بیوروکریسی میں ان کے مخالف بھی گیم سے باہر ہو رہے ہیں۔

یہ بات کوئی راز نہیں ہے تحریک انصاف کی حکومت بننے  کے بعد پنجاب کی بیوروکریسی کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا تھا۔ بہت سے بیوروکریٹس کو صرف اس لیے صوبہ بدر کیا گیا تھا کہ انھوں نے ماضی کی حکومت کے ساتھ اہم عہدوں پر کام کیا ہے۔ اس و قت یہ نہیں سوچا گیا کہ نئے بیوروکریٹ کہاں سے لائے جائیں گے۔

اس وقت بیوروکریسی کے حو الے سے فیصلے عثمان بزدار کے ہاتھ میں نہیں تھے بلکہ اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس میں کیے جا رہے تھے بلکہ وزیر اعظم ہا ؤس میں بیٹھے وہ لوگ فیصلے کر رہے تھے جنھیں پنجاب کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ انھوں نے کبھی پنجاب میں کام نہیں کیا تھا۔ بس دور بیٹھے تاثر کی بنیاد پر فیصلے کر رہے تھے جب کہ سندھ اور کے پی میں کوئی تبدیلی نہیں تھی، اس لیے وہاں کی بیوروکریسی میں بھی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ بلوچستان میں بھی ایک تسلسل تھا۔

اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تحریک انصاف نے ایک خاص سوچ کی وجہ سے پنجاب کی بیوروکریسی کو نشانہ بنایا ۔ بہر حال اس میں عثمان بزدار کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن اس کا براہ راست نقصان عثمان بزدار کو ہوا۔ پنجاب میں عثمان بزدار کو کام کرنے کے لیے بیوروکریسی کی جو ٹیم دی گئی وہ پنجاب کو جانتی ہی نہیں تھی۔ عثمان بزدار کو سب زیادہ نقصان ان اناڑی بیوروکریٹس نے ہی پہنچایا ہے۔لیکن یہ صورتحال صرف پنجاب میں ہی نہیں رہی بلکہ مرکزی حکومت بھی اسی قسم کے مسائل کا شکار نظر آتی ہے۔

اس کی وجہ صاف ہے کہ جنہوں نے پنجاب میں بیوروکریسی کی ٹیم بنائی تھی انھوں نے ہی مرکز میں بیوروکریسی کی ٹیم بنائی تھی۔ ان کی بنائی ہوئی دونوں ٹیمیں ڈلیور نہیں کرسکیں۔ا س لیے وہ لوگ بھی اب اہم سے غیر اہم ہو گئے ہیں۔ اب فیصلہ سازی میں ان کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ پہلے جن کی مرضی کے بغیر ایک بھی تبادلہ ممکن نہیں تھا۔ اب انھیں کچھ معلوم ہی نہیں کیا ہو رہا ہے بلکہ ان کے لگائے ہوئے لوگ فارغ ہو رہے ہیں اور وہ بے بس نظر آرہے ہیں۔

پنجاب کی پہلی بیوروکریسی سے صرف عثمان بزدار ہی پریشان نہیں تھے بلکہ وزیر اعظم بھی پریشان تھے۔ عثمان بزدار تو دور کی بات خود عمران خان کے احکامات پر بھی عمل نہیں ہو رہا تھا۔ جو لوگ عثمان بزدار کے کمزور ہونے کی دلیل دیتے ہیں میرا ان سے سوال ہے کہ کیا عمران خان بھی کمزور ہیں۔ ان کے احکامات پر عمل کیوں نہیں ہوتا تھا۔ آپ حالات کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ عمران خان نے چیف سیکریٹری سمیت پنجاب کے تمام پرانے سیکریٹریوں کواس لیے اسلام آباد طلب کیا ہوا ہے کہ وہ انھیں وضاحت دیں کہ ان کے احکامات پر عمل کیوں نہیں ہوا۔ ایک اندازہ ہے کہ ان کی معافی مشکل ہے۔ کیونکہ وزیر اعظم بھی غصہ میں ہیں۔ وہ اسلام آباد میں مرکز کی بیوروکریسی سے بھی اسی طرح نالاں ہیں۔

اسی لیے پنجاب کی طرز پر مرکز میں بھی تبادلوں کی پکار نظرا ٓرہی ہے۔ جن لوگوں کے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں یہ بھی وہی لوگ ہیں جنھیں اس خاص گروپ نے لگایا تھا۔ عمران خان کو سمجھ آگئی ہے کہ افسر کو لگانے کے لیے حکومت کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ افسران کو سیاسی آنکھ سے دیکھنا بند کرنا ہوگا۔ یہ افسران کسی سیاسی جماعت کے نہیں ہیں۔ یہ حکومت وقت کے ملازم ہیں۔ ان میں جو کام کے افسران ہیں ان سے ہر حکومت کو کام لینا چاہیے۔

سردار عثمان بزدار کی مشکل یہ تھی کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تو بن گئے تھے لیکن ساتھ ہی ان کے پر کاٹنے کا عمل بھی تحریک انصاف نے شروع کر دیا تھا۔ سیاسی محاذ پر تو عثمان بزدار نے اپنے مخالفین کو چت کر دیا تھا۔ وہ سب خود وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش میں خود ہی حکومت کو ناکام کرنے میں مصروف تھے اب سمجھ گئے ہیں کہ عثمان بزدار نے کہیں نہیں جانا۔ البتہ عثمان بزدار کی چھٹی کرانے کے چکر میں ان کی اپنی چھٹی ہو سکتی ہے۔ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں کے اضافے پر شور مچانے والے اس موقعے پر بھی عثمان بزدار کو فارغ کرانے میں ناکام رہے بلکہ اب وہ مزید طاقتور ہوتے جارہے ہیں۔

پنجاب میں بیوروکریسی کی نئی ٹیم وزیر اعظم ہاوس سے نہیں بنائی گئی۔ یہ ٹیم عثمان بزدار کی ٹیم ہے۔حا لیہ تبادلوں میں کسی ارسطو کی کوئی رائے شامل نہیں ہے۔ کسی مشیر وزیر کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ عثمان بزدار کو مکمل فری ہینڈ مل چکا ہے کہ وہ پنجاب میں گورننس کو بہتر کرنے کے لیے اپنی مرضی کی ٹیم بنائیں۔ انھیں کسی کو کہیں لگانے اور کہیں سے ہٹانے کے لیے کسی گرین سگنل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پنجاب میں عثمان بزدار نے اب اس فری ہینڈ کا مظاہرہ کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔

پنجاب میں حالیہ تبادلوں نے اکثر تجزیہ نگاروں کو حیران بھی کر دیا ہے۔لیکن میرے لیے یہ حیران کن نہیں ہیں۔یہ وقت کی ضرورت تھے۔ پنجاب حکومت کو چلانا ہے تو یہ تبادلے کرنے تھے۔ جب تک عثمان بزدار کو ان کی ٹیم لگانے کی اجازت نہیں دی جاتی ان سے کارکردگی کا سوال کرنا بھی غلط تھا۔ جس کی ٹیم تھی وہی جواب دیتا۔ اب بیوروکریسی میں سو فیصد عثمان بزدار کی ٹیم آگئی ہے۔ اس لیے اب جوابدہ بھی عثمان بزدار ہی ہوںگے۔

کیا پنجاب میں عثمان بزدار کی سیاسی ٹیم میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ ایک اہم سوال ہے۔ لیکن پنجاب کیا مرکز میں بھی سیاسی ٹیم کی تبدیلی کی بات کی جا رہی ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بیوروکریسی کو بدلنا آسان ہے، سیاسی ٹیم کی تبدیلی ایک مشکل کام ہے۔ عمران خان کی حکومت سیاسی طور پر ایک کمزور حکومت ہے۔ ان کے لیے  ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہے۔ آگے بجٹ ہے، ایسے میں ایک بھی رکن کی ناراضی مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ اس لیے میں سیاسی ٹیم میں تبدیلی ممکن نہیں۔

کسی ایک آدھے وزیر کے محکمہ کی تبدیلی تو کوئی تبدیلی نہیں ہے۔بہر حال پنجاب میں تو اس کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ مرکز میں یہ ممکن نظر آرہا ہے۔ بالخصوص پٹرولیم کی وزارت کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ لیکن کسی وزیر کو گھر بھیجنا مشکل ہوگا۔ اس کے سیاسی نقصان ہو سکتے ہیں۔اتحادی جماعتوں کی طرف تو دیکھا بھی نہیں جا سکتا ۔ ان کو ناراض کرنے سے حکومت قائم رکھنا ممکن نہیں رہے گا ۔

میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو اتحادیوں کو خوش رکھنے کا طریقہ بھی عثمان بزدار سے سیکھنا چاہیے۔ پنجاب میں عثمان بزدار نے ق لیگ کو جس طرح خوش رکھا ہوا ہے، اس کی تقلید کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں ق لیگ عثمان بزدار کی طاقت ہے۔ جب کہ مرکز میں یہی ق لیگ ناراض ہے۔ اس لیے عثمان بزدار کی سیاسی حکمت عملی بہتر نظر آرہی ہے۔اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔