تیزی سے سیکھنے والے تیز رفتار نیورون کے مالک ہوتے ہیں

ویب ڈیسک  منگل 23 اپريل 2019
جو لوگ تیزی سے سیکھتے اور یاد کرتے ہیں ان کے دماغ میں نیورون سے سگنل فائر ہونے کی رفتار قدرے تیز ہوتی ہے۔ فوٹو: فائل

جو لوگ تیزی سے سیکھتے اور یاد کرتے ہیں ان کے دماغ میں نیورون سے سگنل فائر ہونے کی رفتار قدرے تیز ہوتی ہے۔ فوٹو: فائل

سنگاپور: جس رفتار سے کوئی بھی شخص معلومات حاصل کرتا، سمجھتا اور پروسیس کرکے اسے جمع کرنے کے بعد استعمال کرتا ہے تو اس کا انحصار دماغی اعصابی خلیات (نیورون) کی فائرنگ پر ہوتا ہے۔

یعنی دماغ سے ایک نیورون کے بعد دوسرے نیورون کے خارج ہونے میں وقفہ جتنا کم ہوگا اسی رفتار سے دماغ میں معلومات وصول، محفوظ، پروسیس اور اسے استعمال کرنے کا عمل تیز ہوگا۔ بآلفاظ دیگر فوری اور بروقت سوچنے کے عمل میں نیورون فائر ہونے کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے۔

یہ اہم تحقیق یادداشت اور حافظے کے عمل کو سمجھنے میں نہایت اہم تصور کی جارہی ہے۔ نیورون یعنی دماغی خلیات طبعی طور پر جن تاروں سے جڑے ہوتے ہیں انہیں سائناپسِس کہا جاتا ہے اور اسی کی بدولت آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔

سنگاپور میں واقع این یو ایس یونگ لو لِن اسکول آف میڈیسن کے ماہرین نے انسانی دماغ میں یادداشت کے مرکز ہیپو کیمپس کا بغور جائزہ لیا ہے۔

ماہرین نے سمجھنے اور سیکھنے کے ایک اہم دماغی مکینزم ’اسپائک ٹائمنگ ڈپینڈنٹ پلاسٹی سِٹی (ایس ٹی ڈی پی)‘ کو آزمایا جس میں ایک نیورون سے دوسرے نیورون کے درمیان سگنل یا رابطے کو دیکھا جاتا ہے۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ دو نیورون کے درمیان سگنل کے تبادلے کا وقت جتنا کم تھا معلومات نیورون میں معلومات اتنی ہی دیرپا اور مضبوط دیکھی گئی۔

عصبی سائنس دانوں کے ماہرین نے ایک جانب تو یہ بتایا ہے کہ قدرتی طور پر تیز رفتاری سے سیکھنے والے افراد کے دماغ میں عصبی رابطے بہت تیز ہوتے ہیں۔ عین اسی تحقیق کو دیکھتے ہوئے انسانی دماغ کی طرز پر کام کرنے والے نیورل نیٹ ورک اور مصنوعی ذہانت کے نظام کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔