- پارک لین ریفرنس سماعت؛ آصف زرداری کو اب صدارتی استثنیٰ حاصل ہے، وکلا
- انسداد انتہا پسندی؛ پولیس نے 462 سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کروا دیے
- خواتین کے حقوق کا بہانہ؛ آسٹریلیا کا افغانستان سے سیریز کھیلنے سے انکار
- کراچی؛ ایل پی جی کی دکان پر افطار کے وقت ڈکیتی، فوٹیج سامنے آ گئی
- پی ٹی آئی کا اسلام میں جلسے کیلیے ہائیکورٹ سے رجوع
- پاک فوج میں بھرتی کیپٹن سمیت افغان شہریوں کو برطرف کیا گیا، وزیر دفاع
- الشفا اسپتال پر اسرائیلی حملے میں غزہ کے پولیس چیف شہید
- حماس سے لڑائی میں ایک اور اسرائیلی فوجی ہلاک؛ مجموعی تعداد 250 ہوگئی
- پی ایس ایل9 فائنل؛ عماد وسیم نے کیا تاریخ رقم کی؟
- پی ایس ایل9؛ شاداب نے اہلیہ کو ایوارڈ، ماں کو میڈل دے دیا
- 5 ہزار ایکڑ پر چارے کی کاشت، سعودی کمپنی سے معاہدہ
- بجلی 5روپے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان
- ڈیجیٹل ذرائع سے قرض، ایس ای سی پی نے گائیڈ لائنز جاری کر دیں
- موبائل کی درآمدات میں 156 فیصد اضافہ
- ایچ بی ایف سی نے عوام کو سستے تعمیراتی قرضوں کی فراہمی بند کردی
- حسن اور حسین نواز کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
- مفت راشن اسکیم؛ عوام کی عزت نفس کا بھی خیال کیجیے
- مشفیق الرحیم، انجیلو میتھیوز کے ٹائم آؤٹ کا مذاق اڑانے لگے
- کراچی میں سی ٹی ڈی کی کارروائی، ٹی ٹی پی کا اہم دہشتگرد گرفتار
- تیسرے ون ڈے میں کئی بنگلہ دیشی کرکٹرز انجرڈ ہوگئے
تیزی سے سیکھنے والے تیز رفتار نیورون کے مالک ہوتے ہیں
سنگاپور: جس رفتار سے کوئی بھی شخص معلومات حاصل کرتا، سمجھتا اور پروسیس کرکے اسے جمع کرنے کے بعد استعمال کرتا ہے تو اس کا انحصار دماغی اعصابی خلیات (نیورون) کی فائرنگ پر ہوتا ہے۔
یعنی دماغ سے ایک نیورون کے بعد دوسرے نیورون کے خارج ہونے میں وقفہ جتنا کم ہوگا اسی رفتار سے دماغ میں معلومات وصول، محفوظ، پروسیس اور اسے استعمال کرنے کا عمل تیز ہوگا۔ بآلفاظ دیگر فوری اور بروقت سوچنے کے عمل میں نیورون فائر ہونے کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے۔
یہ اہم تحقیق یادداشت اور حافظے کے عمل کو سمجھنے میں نہایت اہم تصور کی جارہی ہے۔ نیورون یعنی دماغی خلیات طبعی طور پر جن تاروں سے جڑے ہوتے ہیں انہیں سائناپسِس کہا جاتا ہے اور اسی کی بدولت آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
سنگاپور میں واقع این یو ایس یونگ لو لِن اسکول آف میڈیسن کے ماہرین نے انسانی دماغ میں یادداشت کے مرکز ہیپو کیمپس کا بغور جائزہ لیا ہے۔
ماہرین نے سمجھنے اور سیکھنے کے ایک اہم دماغی مکینزم ’اسپائک ٹائمنگ ڈپینڈنٹ پلاسٹی سِٹی (ایس ٹی ڈی پی)‘ کو آزمایا جس میں ایک نیورون سے دوسرے نیورون کے درمیان سگنل یا رابطے کو دیکھا جاتا ہے۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ دو نیورون کے درمیان سگنل کے تبادلے کا وقت جتنا کم تھا معلومات نیورون میں معلومات اتنی ہی دیرپا اور مضبوط دیکھی گئی۔
عصبی سائنس دانوں کے ماہرین نے ایک جانب تو یہ بتایا ہے کہ قدرتی طور پر تیز رفتاری سے سیکھنے والے افراد کے دماغ میں عصبی رابطے بہت تیز ہوتے ہیں۔ عین اسی تحقیق کو دیکھتے ہوئے انسانی دماغ کی طرز پر کام کرنے والے نیورل نیٹ ورک اور مصنوعی ذہانت کے نظام کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔