وفاقی بجٹ 2019-20ء ......عوامی توقعات پوری ہوئیں؟؟

فوٹو : ظفر راجہ

فوٹو : ظفر راجہ

موجودہ حکومت نے مالی سال 2019-20ء کیلئے وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے جو تمام حلقوں میں زیر بحث ہے۔ اس بجٹ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ اسلام آباد‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین معاشیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

زاہد لطیف خان
(چیئرمین اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج ٹاور آر ای آئی ٹی مینجمنٹ کمپنی لمیٹڈ (سابقہ اسلام آباد سٹاک ایکسچینج )

2017ء کے بجٹ تک سٹاک مارکیٹ مستحکم تھی۔ اس کے بعد مسلسل گرنی شروع ہوئی ۔ ڈالر کی قدر میں اضافے سے بیرونی سرمایہ کا ر مارکیٹ سے نکل گئے۔  حکومت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے باعث ملکی حالات یہاں تک پہنچے اور روپے کی قدر میں کمی آئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ذمہ دار لوگوں کو ترجمان مقرر کرے جو میڈیا میں سنجیدگی سے بات کریں اور ایسے بیانات سے پرہیز کریں جن سے مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس وقت ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ اسمبلیوں کا ماحول بھی ٹھیک نہیں۔ معاشی بہتری کے لیے سیا سی استحکام کی ضرورت ہے۔ 2008 ء میں جب سٹاک مارکیٹ کریش ہوئی تھی تو اس وقت بحران کی یہ کیفیت تھی کہ مارکیٹ میں خریدار ہی موجود نہیں تھے اور لوئرسرکٹ بریکر لگ گئے تھے لیکن اس وقت کی حکومت نے بروقت اقدامات اٹھائے اور آئی ایم ایف سے فوری معاہدہ کیا جس سے سرمایہ کاروں کو اعتماد ملا اور صورتحال بہتر ہونا شروع ہوئی۔

پھر نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ اور این آئی ٹی کے ذریعے او جی ڈی سی ایل، پی ایس او اور دوسرے بڑے سرکاری اداروں کے شیئرز کی خریدوفروخت کے ذریعے مارکیٹ کو سہارا دیا گیا۔ سٹا ک ایکسچینج میں 2011ء تک مندی کا رجحان رہا اس کے بعدحالات میں بہتری آئی اور 2012  میں سٹاک مارکیٹ  کے انڈیکس میں بڑھوتری شروع ہوئی، اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن )کی حکومت آئی تو اس نے بھی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور پھر جامع اصلاحات متعارف کروائیں جس کے نتیجے میں اقتصادی سرگرمیاں زور پکڑ گئیں اور سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس 53 ہزار کی نفسیاتی حد پر پہنچ گیا جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تھی۔

چین پاکستان اقتصادی راہدا ری کے منصوبے 2015میں شروع ہوئے تو ملک میں فارن ایکسچینج آیا ، انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے باعث ملک میں ترقی ہوئی اور کاروباری لاگت میں کمی واقع ہوئی۔ اس دوران ملک میں شرح سود6 فیصد سے بھی نیچے آگئی جو کہ ملکی تاریخ کی کم ترین سطح تھی۔ اسی طرح مہنگائی کی شرح بھی بہت کم رہی جس کی وجہ سے مارکیٹ میں بہتری آئی لیکن اس کے بعد 2014  میں دھرنے شروع ہوگئے جس سے ملکی سٹاک مارکیٹ اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور معیشت پھر سے پٹٹری سے اترنا شروع ہوگئی۔ حکومت نے 8ماہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے ضائع کیے۔

تین ممالک نے حکومت کو سپورٹ کیا پھر بھی ملک کی معاشی حالات میں بہتری نہیں آئی جو حکومت کی ناکامی ہے۔ بدلتی حکومتی پالیسیوں کے باعث بزنس مین تذبذب کا شکار ہے لہٰذا بزنس کمیونٹی کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ سٹاک مارکیٹ پاکستان میں سب سے زیادہ ڈاکومنٹڈ ہے ،ہم کراس چیک کی صورت میں پیسے دیتے ہیں ،ہم پر ٹیکسز کا جو سلسلہ ڈالاجا رہا ہے ،یہ سمجھ سے بالا تر ہے ۔ پہلی مرتبہ بجٹ سے پہلے بزنس کمیونٹی سے مشاورت نہیں کی گئی تاہم خوشی ہے کہ حکومت ڈاکومنٹیشن کی طرف جا رہی ہے ،اس سے غیر قانونی کاروبار کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ حکومت ٹیکس دھندگان کو ہراساں کرنے سے گریز کرے، اس سے خرابی پید ا ہو گی۔ یہ خوش آئند ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف سطح کا معاہدہ کیا اور سٹاک مارکیٹ کو دباؤ سے نکالنے کیلئے فنڈ قائم کیا جس کے نتیجے میں ملکی سٹاک ایکسچینج میں کاروباری سرگرمیاں تیز ہوئی ہیں اور انڈیکس بڑھ رہا ہے تاہم ڈالر کا بے قابو ہونا پریشان کن ہے۔ اس سے ایک جانب قرضے بڑھ رہے ہیں تو دوسری جانب معیشت تنزلی کی جانب جارہی ہے لہٰذا اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے ورنہ حکومت کے تمام تر اصلاحاتی اقدامات کے اثرات زائل ہوجائیں گے۔

ضیا بانڈے
(ماہر معاشیات)

ملکی معیشت کے فروغ کے لیے حکومت کا کردارمحدود ہونا چاہیے جبکہ معاشی ترقی کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کو آگے لانا چاہیے۔ حکومت نے کہا تھا ہم اپنے اخراجات کم کر یں گے لیکن کفایت شعاری کے بجائے حکومت نے بجٹ آؤٹ لے میں 30فیصد اضافہ کر دیا ۔ شرمپ فارمنگ ، یو تھ لون وغیرہ جیسے اخراجات بجٹ میں نہیں ہو نے چاہیے تھے بلکہ حکومت کو پروڈکٹیو ایکٹویٹی کی طرف جانا چاہیے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کو موثر طریقے سے سامنے لائے جو معیشت کی بہتری کے لیے اپنا بھرپور کر دار ادا کرسکے۔ عوام دوست بجٹ کا مطلب یہ ہے کہ سرکار عوام پر ٹیکس کم لگائے ،بے روزگار نوجوانوں کے لیے بجٹ میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔

کاروبار کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں لیکن ایسا بالکل نہیںہوا۔بجٹ میں مثبت بات یہ ہے کہ ڈاکومنٹیشن کو بڑھایا جا رہاہے اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میرے نزدیک یہ فیکٹر معیشت کو بہتر کر یں گے۔ سرکا ر کی کوشش ہے کہ بلیک منی کو کنٹرول کیا جائے اور ملک میں سرمایہ کا ری لائی جائے جو ایک اچھا اقدام ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے قرضوں میں اضافہ ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ پروڈکٹیو ایکٹیویٹی میں فنڈ ز خر چ کرے اور 7 ٹریلین کے بجٹ میں غیر ضروری اخراجات کو کم کیا جائے۔

عبدالوحید شیخ
( نائب صدر فیڈریشن آف پاکستانچیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

سابقہ حکومتیں  بجٹ کے حوالے سے ایف پی سی سی آئی سے تجا ویز لیتی رہی تاہم اس دورحکومت میں ہما ری کوئی تجویز نہ ماننا لمحہ فکریہ ہے۔ہم نے حکومت کو بہت تجا ویز دی لیکن حکومت انڈسٹری کو پروموٹ کرنے کی بجائے نیچے لے آئی ہے لہٰذا اس بجٹ پر بزنس کمیونٹی کو شدید تحفظات ہیں۔  اب تک حکومت نو ارب ڈالر سے زائد کا قرض لے چکی ہے مگر اس کے باوجود حالات سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑتے جارہے ہیں جس کی بنیادی وجہ مس مینجمنٹ ہے اور عمران خان کی جانب سے پوری اقتصادی ٹیم فارغ کرکے حفیظ شیخ کی قیادت میں نئی ٹیم لانا اس کا اعتراف ہے۔

اب حکومت نے اقدامات اٹھائے ہیں جن سے کچھ بہتری آئی ہے لیکن مستقل بنیادوں پر بحران سے نکلنے کیلئے مارکیٹ کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے ۔ حکومت نے تمام محاذ ایک ساتھ کھول دیئے ہیں لہٰذا اگر حکومت ملکی معیشت کو درست کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور ماحول کو ہر صورت ٹھیک کرنا ہوگا۔ ماحول کو سرمایہ کار دوست بنائے بغیر معیشت کا پہیہ چلنا مشکل ہے۔

حکومت نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں سیکشن 65 ای کے تحت انڈسٹری کو مشینری کی درآمد پر دی گئی ڈیوٹی سے چھوٹ واپس لے لی ہے جس سے ملک میں سرمایہ کاری متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ایف پی سی سی آئی نے ٹیکسٹائل سمیت برآمدی شعبوں کیلئے زیرو ریٹنگ برقرار رکھنے سمیت اپنے طور پر حکومت کو بجٹ تجاویز پیش کی تھیں مگر کوئی ایک تجویز بجٹ میں شامل نہیں کی گئی۔ یہی حال ایمنسٹی سکیم کا ہے۔ اسے سرمایہ کاری سے مشروط کرنا چاہیے تھا کہ جو پیسہ انڈسٹری لگانے کیلئے خرچ کیا جائے گا اس پر پوچھ گچھ نہیں ہوگی ۔ایسا کرنے سے حکومتی ریونیو بڑھنے کے ساتھ ساتھ ملک میں روزگار کے نئے مواقع بھی پید اہوسکتے تھے ۔ میرے نزدیک کیش ظاہر کرنے پر بینک میں جمع کروانے کی شرط بھی غلط اقدام ہے اس سے نہیں لگتا کہ ایمنسٹی سکیم کامیاب ہوپائے گی۔ کاروبار کرنے کیلئے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔

 عارف جیوا
(سابق چیئرمین ایسو سی ایشن آف بلڈ ر ز اینڈ ڈویلپر ز)

موجودہ حکومت نے بے گھر افراد کو چھت فراہم کرنے کا وعدہ کیا لیکن تاحال کسی بھی عام آدمی کے لیے رہائشی منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکا۔ حکومت نے اسلام آباد کے جی تیرہ سیکٹر اور کوئٹہ میں جو رہائشی سکیمیں لانچ کیں وہ سرکاری ملا زمین کی ہیں جن کو حکومت کی پالیسی کے تحت ویسے بھی پلاٹ دیے جاتے ہیں ،اگر حالات یونہی رہے تو حکومت اپنا 50لاکھ گھروں کا ٹارگٹ کسی صورت حاصل نہیں کر پائے گی ۔

حکومت ہمیں پانی، بجلی ، گیس اور ون ونڈی کی سہولت فراہم کرے ہم تین ماہ میں لوگوں کو رہائش گاہوں کی فراہمی شروع کر دیں گے۔ ہماری بہت سی آبادی ناخواندہ ہے گھر خریدنے کیلئے کراس چیک کی شرط لگانا درست عمل نہیں ہے ، بہت سے لوگوں کے بینک اکاؤنٹ نہیں ہیں لہٰذا حکومت اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ سابق دور حکومت میںہم نے حکومت کو 15لاکھ روپے لاگت کے گھر بناکر دینے کی تجویز دی تھی لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ اب اینٹ ، ریت ، بجری ، سریا سمیت ہر چیز کی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ 15لاکھ روپے میں کم آمدن والوں کے لیے گھر بنانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

اب حکومت خو د بھی 30لاکھ سے کم لاگت پر گھر نہیں بنا سکتی۔پراپرٹی فروخت پر 10سال تک کیپٹل گین ٹیکس لگانے کا فیصلہ اچھا ہے ، اس سے ملک میںپراپرٹی کی قیمت مستحکم ہو گی اور لوگوں میں خریدنے کی استعد اد بھی پید اہوجائے گی۔رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی ہوگی اور اصل خریدار سامنے آئیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وزیر اعظم کی زیر صدارت یا پھر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں زیر بحث آنے والی تجاویز پر میڈیا پر شور نہ مچایا کرے، اس سے معیشت پر اثرات پڑتے ہیں لہٰذا سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔

خور شید برلاس
 (چیئرمین انٹرنیشنل ایونٹ آرگنائر ز ایسوسی ایشن و کنوینئر برائے بین القوامی تجارت ایف پی سی سی آئی)

بجٹ درست نہیں ہے اور اس میں بزنس کمیونٹی کے لیے کوئی مراعات نہیں رکھی گئیں۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ جب تک بزنس مین کو آن بورڈ نہیں لیں گے ملکی معیشت نہیں چلے گی ۔ ڈالر کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے بیرونی ممالک میں جو بزنس ڈیل 132روپے ڈالر میں کی تھی اب ہمیں اس میں نقصان ہو رہا ہے کیونکہ ڈالے 157 پر پہنچ چکا ہے۔

حکومت کی جانب سے ریونیو اکٹھا کرنے کے لیے ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی گئی، اگر اس میںکیش کے بجائے انڈسٹری میں سرمایہ کاری پر خرچ کروائیں تو ملک کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ہما رے ملک میں سیاحت کا بہت زیادہ پوٹینشل ہے اور موجو دہ حکومت بھی ملک میںسیا حت کا فرو غ چاہتی ہے۔ اس سے فارن ایکسچینج کی مد میں  فائدہ ہو گا ۔ملکی معیشت کی بہتری کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا اور معیشت کیلئے متفقہ طور پر جامع روڈ میپ بنانا ہوگا تاکہ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو پالسیوں کا تسلسل برقرار رہے۔

اس اقدام سے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا اور ملکی برآمدات بڑھیں گی۔ملکی انڈسٹری کی کاروباری لاگت و پیداواری لاگت میں کمی لانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی مصنوعات کوعالمی مارکیٹ میں رائج قیمتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ چین نے پاکستانی مصنوعات کو ڈیوٹی و ٹیکسوں میںچھوٹ اور رعایت کے ساتھ چینی مارکیٹ تک رسائی دی ہے لیکن اب پاکستانی انڈسٹری سر پکڑ کر بیٹھی ہے کہ وہ چین کو کیا ایکسپورٹ کرے اور کیسے کرے کیونکہ ہمارے پاس ایکسپورٹ کرنے کیلئے کچھ ہے ہی نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ چین اور امریکہ کے حالیہ تنازعہ سے عالمی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کیلئے ایک موقع پیدا ہوا ہے وہ بھی مسابقت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے۔ یہ نادر موقع تھا کہ ہم امریکا وو یورپی منڈیوں میں اپنی مصنوعات کو فروغ دیتے۔ حکومت کو ٹریدنگ اور امپورٹ کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور مینوفیکچرنگ کو فروغ دینا چاہیے تاکہ ملک ٹریڈنگ کنٹری بننے کے بجائے مینوفیکچرنگ و ایکسپورٹ پر مبنی ملک کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔

فراز فضل
(سینئر نائب صدر ٹیکس بار ایسو سی ایشن )

پہلی مر تبہ ایسا ہوا ہے کہ ٹیکس کنسلٹنٹ و بزنس چیمبرز کو معلوم نہیں کہ بجٹ کیا آیاہے، ہم اس بجٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اینٹی ٹیکس پیئر بجٹ ہے۔ حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ سٹیک ہولڈرز کے بغیر نہیں چل سکتی۔ سختی کے ساتھ ٹیکس وصول نہیںکیا جا سکتا تاہم آسانیاں پیدا کرنے سے لوگ خو د ٹیکس جمع کرائیں گے۔ حکومت کی جانب سے رکھا جانے والا 5ہزار 555ارب کا ریونیو ہدف کبھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔ ہم تاریخ کی کم ترین جی ڈی پی پر کھڑے ہیں۔ معیشت کی رفتار اتنی کم ہے تو ریونیو کہاں سے آئے گا؟بجٹ میں ایسے فیصلے کیے گئے ہیں جن کا نہ تو زمینی حقائق سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ حقیقت پسندانہ ہیں۔ آگے چل کر ان میں سے بیشتر فیصلے واپس لینا پڑیں گے۔بجٹ میں فائلر اور نان فائلر کی تفریق ختم کرکے جو نیا نظام تجویز کیا گیا ہے کہ جو بھی نان فائلر بیس لاکھ روپے سے زائد مالیت کی گاڑی یا گھر خریدے گا اسے پینتالیس دن میں ٹیکس ریٹرن جمع کروانا ہوگی ورنہ اس کے خلاف ایف بی آر کے ٹیکس حکام ازخود تخمینہ لگا کر ٹیکس نوٹس بھجوادیں گے۔ یہ نظام مکمل طور پر ناقابل عمل ہے اور نہ ہی ایف بی آر کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد کرواسکے۔

اس سے قبل بھی انکم ٹیکس آرڈیننس میں سیکشن 214 ڈی متعارف کروائی گئی تھی اور صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ سیکشن ہی ختم کرنا پڑا ۔ حکومت کنفیوژن کا شکار ہے۔ دوسرے منی بجٹ میں پہلے منی بجٹ کے برعکس فیصلے کئے گئے اور اسی طرح اب جو بجٹ لایا گیا ہے اس میں دوسرے منی بجٹ کے برعکس فیصلے کئے جارہے ہیں۔ گاڑیوں پر پہلے ٹیکس لگایا اور اب کم کیا جارہا ہے، اسی طرح پہلے نان فائلرز کیلئے گھر اور گاڑی خریدنے کی پا بندی ختم کی، دوسرے منی بجٹ میں دوبارہ عائد کردی اور اب جو بجٹ لایا گیا ہے اس میں یہ پابندی ایک بار پھر ختم کردی گئی ہے۔ اسی طرح پہلے ایف بی آر سے اختیارات واپس لئے گئے اور حکومت کو اختیارات دئے گئے اب جو وفاقی بجٹ پیش کیا گیا ہے اس میں دوبارہ اختیارات حکومت سے لے کر ایف بی آر کو دیئے جارہے ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایف بی آر یہ اختیارات انچارج وزیر کی مشاورت سے استعمال کرے گا۔ ایف بی آر کو فٹ بال بنادیاگیا ہے۔ اسی طرح بجٹ میں رٹیلرزاور کاٹیج انڈسٹری کیلئے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔