’’روزگارِ سفیر‘‘ (پہلا حصہ)

زاہدہ حنا  بدھ 26 جون 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

سفارت کاری آج کا نہیں سیکڑوں ، ہزاروں برس پرانا معاملہ ہے۔ اسے جدید رنگ تیرہویں صدی میں اس وقت ملا جب اٹلی میں نشاۃ ثانیہ کا دور شروع ہوا ۔اس زمانے سے سفارت کاروں کی اہمیت بڑھ گئی، چھوٹی چھوٹی اطالوی ریاستوں میں جنگ وجدال کا رواج ہوا ، ایسے میں یہ سفارتکار تھے جو پیچیدہ سفارتی معاملات کو نمٹاتے تھے اور اٹلی کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

آہستہ آہستہ یورپ میں سفارت کاری کی اہمیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کی ایک جھلک ہمیں کارپاسیو کی اس روغنی تصویر میں نظر آتی ہے۔ جو 1495ء سے 1500ء کے درمیان بنائی گئی تھی۔ اس تصویر میں برطانوی سفیر کی آمد کا کروفر ہے۔ اسے دیکھ کر جہانگیر کے دربار میں برطانوی سفیر طامس رو کی آمد یاد آتی ہے۔ طامس رو جہانگیر کے دربار کے تزک و احتشام سے جس قدر متاثر ہوا تھا، اس کا بیان تاریخ میں ملتا ہے۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ وہ برطانوی سفیر جس نے جہانگیری دربار کی شان و شوکت کے قصیدے پڑھے ہیں، اسی کی بعد آنے والے سفیروںنے اپنی ذہانت سے وہ جال بچھائے جس میں مغل ہندوستان ایسا پھنسا کہ پھر جاں بر نہ ہوسکا۔

یہاں یہ باتیں اس لیے یاد آئیں کہ چند دنوں پہلے پاکستان کے ایک سابق سفیر کرامت اللہ غوری کی ایک کتاب ’’روزگارِ سفیر‘‘ نظر سے گزری۔ اس ضخیم کتاب کو نظر سے گزارنا بھی ہفتوں مہینوں سے کم میں ممکن نہیں۔

کرامت غوری نے یہ بات بلاتکلف لکھی ہے کہ انھیں اپنی یاد داشتیں لکھنے کی تحریک ملک کے ایک معروف انگریزی صحافی آصف نورانی نے دلوائی۔ آصف نورانی ’’دی اسٹار‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ کرامت غوری اس کے لیے A Reluctant Recruitکے عنوان سے اپنی یادداشتیں لکھتے رہے ’’اسٹار‘‘ بند ہوا تو ان یادداشتوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی موقوف ہوا۔ کچھ عرصے بعد راشد اشرف کے اصرار پر کرامت نے اردو میں اپنی یادیں لکھیں جو ’’روزگارِ سفیر‘‘ کے عنوان سے لگ بھگ ہزار صفحے پر مشتمل ہیں۔

انھوں نے اپنی کہانی وہاں سے شروع کی ہے جب چھ بہنوںکے اکلوتے بھائی کے لیے منت مانگنے کی ’’ہدایت‘‘ ایک مجذوب نے ان کے والد کو دی تھی۔ والد نے مجذوب کے اشارے پر خواجہ کی چوکھٹ پر حاضر ی دی اور اجمیر شریف سے واپس آنے کے سال بھر بعد کرامت پیدا ہوئے۔ دلی سے کراچی کے سفر کا انھوں نے جس طرح احاطہ کیا ہے۔ وہ دل دوز ہے اور روح پرور بھی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:

’’آج جس کراچی میں ہر طرف کوڑے کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں اور سڑکوں پر گرد کی دبیز تہیں دکھائی دیتی ہیں۔ میں نے اپنے بچپن میں اسی کراچی کی سڑکوں کو رات کے وقت دھلتے دیکھا ہے۔ بات اگر سنی سنائی ہو تو اس کی صداقت میں ایک لمحے کو گمان بھی کیا جاسکتا ہے لیکن یہ تو آنکھوں دیکھی بات ہے۔ ایڈوانی اسٹریٹ کے اپنے فلیٹ کی بالکنی میں کھڑے ہوکر دیکھا کرتے تھے کہ رات گئے میونسپلٹی کے پانی کے ٹرک آتے تھے جن میں نیچے کی طرف سے چہار جانب پانی کے فوارے چھوٹتے تھے۔ بندر روڈ تو دھلتی ہی تھی کہ بڑی شاہراہ تھی لیکن ایڈوانی اسٹریٹ اور ایسی ہی دوسری گلیوں کو بھی دھلائی سے محروم نہیں رکھا جاتا تھا۔ میونسپلٹی کے خاکروب بھی اس زمانے میں کام چور نہیں تھے۔ سو گلیوں میں ہر دوسرے، تیسرے دن صفائی ہوتی تھی اور کوڑا کرکٹ بھی پابندی سے اٹھا کرتا تھا۔ اس عہد کے کراچی میں وہ تمام لوازمات پائے جاتے تھے جو ایک مہذب شہرمیں ہونے چاہئیں اور جس میں شہریوں کے حقوق کا تحفظ ایمان کا درجہ رکھتا ہے!‘‘

وہ ہمیں ایک ہندو سیٹھ کے گھر کے لٹنے کا منظر دکھاتے ہیں اورپھر یہ بھی کہ سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پیر الٰہی بخش نے کس طرح اس سیٹھ کا لوٹا ہوا سازو سامان لوگوں سے نکلوایا اور اسے سمیٹ کر ہندو سیٹھ کے سپرد کیا ۔ پیر الٰہی بخش لوگوں سے یہ کہتے ہوئے لوٹ گئے کہ آیندہ ایسی نوبت نہ آئے۔

انھوں نے اردو میڈیم اسکول سے طالب علمی کے دن شروع کیے۔ وہ اپنے استادوں کا ذکر کرتے ہوئے بے اختیار لکھتے ہیں:

کیا لوگ تھے جو راہِ جہاں سے گزر گئے

جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں

وہ کراچی میں ابتدائی دور کے مشاعروں اور انھیں لوٹ کر لے جانے والے شاعروں کا ذکر کرتے ہیں۔ استاد قمر جلالوی، ذوالفقار علی بخاری، جمیل الدین عالی، سید محمد جعفری، زہرا نگاہ، سحاب قزلباش کیسے کیسے نام ان کی یادوں کی کھتونی سے نکلتے چلے آتے ہیں۔ وہ امریکن لائبریری ، چینی ثقافتی مرکز، ووکس لائبریری (سوویت فرینڈ شپ لائبریری) کا قصہ سناتے ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ سات سمندر پار امریکا ہمارا یار غار تھا جب کہ پڑوسی ملک چین اور روس کے ثقافتی اداروں کی طرف ہمارا رخ کرنا دراصل سرخ سیاست سے وابستہ ہونا تھا۔

’’روزگارِ سفیر‘‘ میں سفارت کاری کے معاملات تو بہت بعد میں آتے ہیں، اس سے پہلے ہندوستان سے نقل مکانی، کراچی میں قیام اور یہاں کے نقش و نگار تفصیل سے سامنے آجاتے ہیں۔ کراچی کی سڑکیں۔ یہاں کے پرانے اور نو آباد محلے، یہاں کے سینما گھر، ان کے قوانین اور ان میں دکھائی جانے والی فلمیں۔ کوئی کراچی کے شب و روز سے آگاہ ہونا چاہے تو کرامت غوری کی یادکہانی قدم قدم پر اس کو راہ دکھاتی ہے۔

وہ ہمیں ابن صفی کے ناولوں، ان کے ناقابل فراموش کرداروں کے بارے میں بتاتے ہیں، اس کے ساتھ ہی خلیل جبران کی کہانیوں سے آشنا کرتے ہیں، یہ بتاتے ہیں کہ ان پر بیرونی سفر کے دروازے کس طرح کھلے۔ اسے وہ خلیل جبران کی عطا کہتے ہیں۔ بیروت میں پیدا ہونے اور پھر امریکا چلے جانے والے جبران کا سفر بھی کچھ اسی طرح شروع ہوا تھا۔

کرامت زندگی کا سفر بیروت سے آغاز کرتے ہیں۔ جس پر پہلی نظر پڑتے ہی وہ اس پر فریفتہ ہوجاتے ہیں۔ وہ پڑھنے والوں کو بیروت کی تاریخ سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ لبنان، اردن اور شام کا علاقہ خلافت عثمانیہ کے زیر نگین تھا۔ جسے پہلی جنگ عظیم کے بعد مختلف ناموں سے تقسیم کردیا گیا۔ وہ ہمیں اس خطے کی ثقافت اور تہذیب کے بارے میں بتاتے ہیں۔ کرامت ایک امریکی وظیفے پر بیروت یونیورسٹی گئے تھے۔ اس زمانے میں یہ ایک بڑا اعزاز تھا جو کم کم نوجوانوں کے حصے میں آتا تھا۔

وہ لبنانیوں کی فلسطینیوں سے پرخاش کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہمیں خلیل جبران کے گاؤں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ جبران چھوٹے سے پہاڑی گاؤں ’’بُشریٰ‘‘ میں پیدا ہوا۔ زندگی نیویارک میں گزاری، وہیں ایک جید ادیب بن کر دنیا کے سامنے آیا۔ المصطفیٰ اس نے امریکا میں تخلیق کی۔ یہ اسی نے لکھا کہ ’’تمہارے بچے، تمہارے بچے نہیں، وہ روحِ ازل کی تخلیق ہیں۔ تم اپنے بچوں کو اپنی محبت ضرور دو لیکن انھیںاپنا وجدان دینے کی کوشش نہ کرنا۔ اس لیے کہ اپنا وجدان وہ خود لے کر آتے ہیں۔‘‘ تمام عمر ایک جلا وطن کے طور پر زندگی گزارنے والا جبران جب آخری نیند سوگیا تو اس کی وصیت کے مطابق اس کی میت ’’بُشریٰ‘‘ لائی گئی اور وہیں اس خاک میں آسودہ ہوا جہاں سے اس کا خمیر اٹھا تھا۔

بیروت سے وہ شاہراہ جو دمشق جاتی تھی۔ جب شہر سے گزر کر پہاڑی رستے پر چکرانے لگی ہے تو پھر ایک ایک کرکے وہ خوبصورت پہاڑیوں کی آغوش میں رکھے ہوئے قصبے اور دیہات شروع ہوتے ہیں جن کے نام بھی ان کے قدرتی حسن کی طرح خوبصورت ہیں۔ بحمدون، زحلے، شتورا اور ایسے ہی درجنوں نام۔ قدرت کی فیاضی ان بستیوں سے گزرتے ہوئے  دکھائی دیتی ہے۔ اور محسوس بھی ہوتی ہے۔ وہ دنیا میں مجھے اور کہیں محسوس نہیں ہوئی۔ کیا لازوال حسن عطا کیا ہے۔ مبدائے فیض نے لبنان کی ان پہاڑی بستیوں کو۔

زرخیزی کا یہ عالم ہے کہ سڑک کے ساتھ ساتھ سیب، آڑو، ناشپاتی اور خوبانی کے درخت پھلوں سے لدے ہوئے ملتے ہیں اور عام بات تھی کہ جہاں کہیں بس کی رفتار سست پڑتی تھی ہم اپنے فارم کو جانے والے، بس کی کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر اپنی پسند کے پھل توڑ لیا کرتے تھے۔  میں سوچتا تھا کہ زندگی میں کچھ بن جانے اور کچھ کر گزرنے کے بعد میں ریٹائر ہوں گا تو ان میں سے کسی بستی میں آکر ایک چھوٹے سے ، خوبصورت کاٹیج میں بس جاؤں گا اور پھر زندگی کے بچے ہوئے ایام وہیں گزار دوں گا۔ لیکن جو چاہو وہ سب کہاں ملتا ہے۔ ورنہ فیضؔ کیوں کہتے۔ ’’یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہوجائے‘‘

لیکن خواب دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ نوجوانی سے بہتر اور کون سا زمانہ ہوتاہے خواب دیکھنے کے لیے۔ سوکرامت بھی دیکھ رہے تھے اور یہ بھی سچ ہے کہ اس عمر میں یہ فکر نہیں ستاتی کہ ان خوابوں کی تعبیرکبھی ملے گی بھی یا نہیں اور اگر ملے گی تو کیا ویسی ہی ہوگی جیسی ہم چاہ رہے ہیں۔ یہ  فکریں تو جوانی گزر جانے کے بعد دامن تھامتی ہیں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔