- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
- پی آئی اے نجکاری، جلد عالمی مارکیٹ میں اشتہار شائع ہونگے
- صنعتوں، سروسز سیکٹر کی ناقص کارکردگی، معاشی ترقی کی شرح گر کر ایک فیصد ہو گئی
- جواہرات کے شعبے کو ترقی دیکر زرمبادلہ کما سکتے ہیں، صدر
- پاکستان کی سیکنڈری ایمرجنگ مارکیٹ حیثیت 6ماہ کے لیے برقرار
- اعمال حسنہ رمضان الکریم
- قُرب الہی کا حصول
- رمضان الکریم ماہِ نزول قرآن حکیم
- پولر آئس کا پگھلاؤ زمین کی گردش، وقت کی رفتار سست کرنے کا باعث بن رہا ہے، تحقیق
کئی افراد کو مچھر زیادہ کیوں کاٹتے ہیں؟
آپ نے کئی لوگوں کو یہ شکایت کرتے ہوئے سنا ہوگا کہ مچھر بہت کاٹتے ہیں۔ ان کی شکایت سُن کر شناسا ازراہ تفنن کہتے ہیں کہ آپ کا خون میٹھا ہے اس لیے مچھروں کو زیادہ پسند ہے۔ تاہم سائنسی تحقیق اس کی مختلف وجہ بیان کرتی ہے کہ بعض افراد مچھروں کے ’پسندیدہ‘ کیوں ہوتے ہیں اور بعض کو وہ کاٹنا کیوں پسند نہیں کرتے۔
سائنس کہتی ہے کہ اس کا سبب ہمارے جسم سے فضا میں خارج ہونے والے کیمیکل ہیں۔ نیدرلینڈ کی واخننگن یونیورسٹی سے منسلک ماہر حشریات جوپ وان لون کے مطابق مچھر اپنے خصوصی طرزعمل، حسی غدود اور انسانی جسم سے فضا میں خارج ہونے والے کیمیکلز کے ذریعے ہدف کا تعین کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خاص طور سے ان کی راہ نمائی کرتی ہے۔ جب ہم سانس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں تو یہ فوراً ہوا میں شامل نہیں ہوجاتی بلکہ مرغولوں کی صورت میں موجود رہتی ہے جن کی طرف مچھر لپک لپک جاتے ہیں۔
جون وان لون کہتے ہیں کہ مچھر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ان غیرمرئی مرغولوں کے ماخذ کی طرف بڑھتے ہیں۔ جیسے جیسے وہ ماخذ کی طرف بڑھتے ہیں اس گیس کے ارتکاز میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مدد سے مچھر 50 میٹر ( 164 فٹ) کی دوری سے اپنے ہدف کی موجودگی کا اندازہ کرلیتے ہیں۔ جب وہ ہدف سے ایک میٹر کی دوری پر پہنچتے ہیں تو پھر دیگر عوامل بھی ان کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ عوامل ہر فرد کے لیے مختلف ہوتے ہیں جیسے جلد کا درجۂ حرارت، آبی بخارات کی موجودگی اور رنگت وغیرہ۔
سائنس دانوں کے مطابق سب سے اہم عامل جس کی بنیاد پر مچھر ہدف کے انتخاب میں ایک فرد کو دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں وہ کیمیائی مرکبات ہیں جو ہماری جلد پر موجود جراثیم کی آبادیاں پیدا کرتے ہیں۔ وان لون کہتے ہیں کہ پسینے کے غدود سے خارج ہونے والی رطوبتوں کو جراثیم طیران پذیر (اُڑجانے والے) مرکبات میں بدل دیتے ہیں جو فضا میں شامل ہوجاتے ہیں اور مچھر کے سر پر موجود نظام شامہ سے ٹکراتے ہیں۔ انسانی جسم سے 300 قسم کے مرکبات خارج ہوتے ہیں اور ہر انسان کی جینیاتی ساخت کے لحاظ سے ان کی مقدار اور تناسب مختلف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کے جسم کی بُو بھی جدا جدا ہوتی ہے۔
واشنگٹن یونی ورسٹی میں حیاتیات کے پروفیسر جیف ریفل کہتے ہیں کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے باپ اور بیٹے کے جسموں سے خارج ہونے والے جراثیمی مرکبات میں مختلف کیمیکلز کا تناسب مختلف ہوتا ہے جو انھیں مچھروں کے لیے ایک دوسرے سے منفرد بناتا ہے۔ تحقیق کے مطابق انسانی جلد پر جراثیم کی اقسام اور آبادیوں میں کمی بیشی پائی جاتی ہے۔ جس انسان کی جلد پر زیادہ اقسام کے جراثیم ہوتے ہیں وہ مچھروں کے لیے اتنی ہی کم کشش رکھتا ہے۔ اس کے برعکس جس انسان کی جلد پر جراثیم کی کم اقسام پائی جاتی ہیں اس کا خون مچھر زیادہ رغبت سے چوستے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔