قربانی کا مقصد

مجدی رشید  پير 12 اگست 2019
قربانی کا مقصد نمود ونمائش کے بجائے خالصتاً اللہ کی رضا اور مستحقین کی مدد ہونا چاہئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

قربانی کا مقصد نمود ونمائش کے بجائے خالصتاً اللہ کی رضا اور مستحقین کی مدد ہونا چاہئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عیدالفطر کے گزرتے ہی تمام امت مسلمہ عیدالاضحیٰ کے استقبال کی منصوبہ بندی اور تیاریوں کےلئے کمر کس لیتی ہے۔ عیدِ قرباں پر رسمِ قربانی جہاں رضائے الٰہی کے حصول کا موجب بنتی ہے، وہیں پر اُن کروڑوں غریب اور مستحق افراد کےلئے بھی مسرت کا باعث ثابت ہوتی ہے جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

قربانی کا دن، وہ دن ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو ذبح کررہے ہیں۔ اس خواب کو حکم خداوندی سمجھتے ہوئے انہوں نے اپنے لختِ جگر کے ذبح کا ارادہ کیا، لیکن جیسے ہی گردن پر چھری چلائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی کہ ’’اے ابراہیم! آپ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا‘‘۔ اور پھر انعام کے طور پر قربانی کےلئے ایک دنبہ بھیجا گیا۔

قربانی کے اس جذبہ نے خداوند کریم کے دربار میں وہ مقام پایا کہ جسے زندہ رکھنے کےلئے تاقیامت قربانی ہر صاحبِ استطاعت مرد و زن پر فرض کردی گئی۔

قربانی کا مقصد نمود ونمائش کے بجائے خالصتاً اللہ کی رضا اور مستحقین کی مدد ہونا چاہئے اور یہی اس کی اصل روح ہے۔ صدقہ و خیرات کےلئے تو کوئی دن مقرر نہیں ہے لیکن اس کےلئے ایک خاص دن مقرر کیا گیا ہے، جسے یوم النحر یا یوم الضحیٰ کہا جاتا ہے۔ اسلام کے نظام عبادت میں ہر لحاظ سے قربانی کا وجود پایا جاتا ہے، یعنی نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ انسان کے مال و زر کی قربانی ہے۔ اسی طرح حج بیت اللہ بھی انسان کی ہمت اور مال و دولت کی قربانی ہے۔ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر قربانی کی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’تم اپنے رب کےلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘ (سورہ کوثر)

’’اور ہم نے ہر امت کےلئے قربانی مقرر کردی ہے، تاکہ وہ اللہ کا نام لیں، ان جانوروں پر جو ہم نے ان کو عطا کئے ہیں۔‘‘ (سورۃ حج)

حدیث مبارکہ میں ہے ’’جس شخص نے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کی، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘ (ابن ماجہ جلد 2 صفحہ 232)

’’جس نے خوشی اور اخلاص کے ساتھ قربانی کی، وہ اس کےلئے جہنم سے آڑ اور رکاوٹ بن گئی۔‘‘ (طبرانی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا جن کی قربانی میں نے کردی تھی۔‘‘ (صحیح بخاری۔ 1707)

ایسا ملک جہاں لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو، ننھے ننھے کتنے ہی بچے بھوکے پیٹ سوتے ہوں، پینے کا صاف پانی بھی دسترس سے باہر ہو۔ الغرض کوئی پرسان حال نہ ہو۔ وہاں اسلام کے اس فلسفۂ قربانی کو باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر میں بھائی چارے اور غریب نوازی کا فقیدالمثال مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ افراد جو سال بھر دو وقت کی روٹی کےلئے ترستے ہیں، ان کو بھی اس مذہبی تہوار پر پیٹ بھر کر گوشت کھانا نصیب ہوتا ہے۔ یہ تہوار حقیقی معنوں میں ان پسے ہوئے افراد کےلئے خوشیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔

انفرادی طور پر صاحبانِ استطاعت قربانی کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور اس کے گوشت کے تین حصوں میں سے ایک غربا و مساکین کےلئے مختص کیا جاتا ہے، جبکہ اس مقصد کےلئے اب بھی ایسے بہت سے رفاہی ادارے موجود ہیں، جو کسی بھی ذاتی مفاد کو پسِ پشت ڈالے خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول کےلئے میدانِ عمل میں کوشاں ہیں۔ یہ ادارے بڑے پیمانے پر بہت منظم انداز میں قربانی فی سبیل اللہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک ادارہ الخدمت فاؤنڈیشن ہے۔ الخدمت کے تحت عیدالاضحیٰ کے موقع پر ملک کی سب سے بڑی قربانی فی سبیل اللہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

دورِ حاضر کے رجحانات کے پیش نظر اب ملک گیر جانوروں کی قربانی کرنے اور اس کے بعد ان کا گوشت ملک کے دور دراز پسماندہ علاقوں میں مستحق افراد تک پہنچانے کےلئے جدید طریقہ کار اپنائے جارہے ہیں۔ کراچی، لاہور سمیت چند دیگر شہروں میں جدید سلاٹر ہاؤسز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جہاں جانوروں کی قربانی، چرم قربانی الگ کرنے اور گوشت کو پیکٹوں میں پیک کرنے تک کا عمل نہایت منظم اور حفظانِ صحت کے تمام تر اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاف طریقے سے سرانجام دیا جاتا ہے۔ اس گوشت کو بحفاظت دور دراز علاقوں تک منتقل کرنے کےلئے چلر ٹرکوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔

پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک کے برعکس یورپ، امریکا اور ایسے ممالک جہاں جانور خریدنا، اس کی دیکھ بھال کرنا، قربانی کرنا اور اس کا گوشت تقسیم کرنا قدرے مشکل ہے یا قربانی کی سہولیات میسر نہیں اور وہاں کے قوانین بھی اس حوالے سے سخت ہیں، تو وہاں کے مسلمان قربانی کی رقم پاکستان یا دیگر ایسے ممالک بھجوا دیتے ہیں، جہاں فلاحی تنظیمیں ان کی قربانی مستحقین تک پہنچانے کا اہتمام کرتی ہیں۔ کچھ ایسے صاحبانِ استطاعت بھی موجود ہیں، جو اپنی قربانی آفت زدگان کےلئے وقف کرنا چاہتے ہیں یا ایک سے زائد قربانی کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی اس سلسلے میں ایسے فلاحی اداروں سے رجوع کرتے ہیں۔

شام میں خانہ جنگی اور میانمار میں حکومتی سرپرستی میں روہنگیا مسلمانوں پر جاری مظالم سے لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین ترکی اور بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور عارضی کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے شب وروز بسر کررہے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اِن بہن بھائیوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کریں۔

رفاہی اداروں کی مسلمہ حقیقت اور اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی معاشرہ ایسا نظر نہیں آتا جہاں ان کا قیام عمل میں نہ لایا گیا ہو۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں معاشی و معاشرتی مسائل بھی گمبھیر صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومتوں کےلئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ ان تمام مسائل کا حل سرکاری طور پر کرسکیں، لہٰذا ایسے میں اگر کچھ ادارے فلاحِ عامہ کےلئے نیک نیت کے ساتھ اس کام کو مشن سمجھ کر سرانجام دے رہے ہیں تو اس سے بہتر اور کوئی خدمت ہوہی نہیں سکتی۔ اپنی ذات سے باہر نکل کر دوسروں کے حقوق کےلیے لڑنا اور دکھی انسانیت کی خدمت یقیناً اولین انسانی فریضہ اور شیوۂ پیغمبری ہے۔ لہٰذا ہمارا اولین فرض ہے کہ ایسے اداروں کے ساتھ ہر ممکن تعاون جاری رکھیں۔ رمضان میں زکوٰۃ و فطرانہ، عیدالاضحیٰ پر قربانی فی سبیل اللہ اور چرم قربانی کے علاوہ بھی سال بھر اپنے صدقات و عطیات دیتے ہوئے انہیں ضرور یاد رکھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مجدی رشید

مجدی رشید

بلاگر نے پنجاب یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ مختلف چینلز کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد آج کل ایک رفاعی تنظیم میں میڈیا ریلیشنز آفیسر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ طبیعت کی حساسیت اور صحافت سے لگاؤ کے باعث گردونواح میں ہونے والے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اُسے احاطہءِ تحریر میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔