- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
لڑکیوں کی پیدائش روکنے کی متنازعہ ٹیکنالوجی پر ماہرین پریشان
ہیروشیما: ماہرین نے بچے کی جنس کے انتخاب کی ایک نئی ٹیکنالوجی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح جنسی بنیاد پر بچے کی پیدائش اور اسے روکنے کا عمل ممکن ہوگا اور بڑے پیمانے پر لڑکیوں کی پیدائش کو روکا جائے گا۔
حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی اس متنازعہ تکنیک کو ’نطفہ چھانٹنے‘ یا اسپرم سورٹنگ میتھڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ انسانی نطفے میں موجود طبعی کیفیات کی بنا پر یہ ممکن ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کی وجہ بننے والے ایکس کروموسوم کے حامل نطفے کو مادہ کے انڈے سے ملاپ اور بالآخر بیضہ بننے سے باز رکھا جاسکتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی میں بعض کیمیکل نطفے کے مجموعوں پر ڈالے جاتے ہیں اور ان سے ایکس کروموسوم کی رفتار سست پڑجاتی ہے جس کی بنا پر ان کو الگ کیا یا روکا جاسکتا ہے۔
اس متنازعہ عمل کا پہلا حوالہ جاپانی کی ہیروشیما یونیورسٹی سے ملتا ہے جہاں پروفیسر ماسایوکی شمیڈا نے اس پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے ہمارا خیال تھا کہ دودھ پلانے والے تمام جاندار یا میملز کے نطفے یا اسپرم یکساں صورت رکھتے ہیں لیکن ان میں صرف ڈی این اے کا فرق ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے تحقیق کرکے بتایا کہ اسپرم میں 500 ایسے جین سرگرم ہوتے ہیں جو ایکس کروموسوم کی جانب اشارہ کرتےہیں۔ اسی ایکس کروموسوم سے لڑکیاں جنم لیتی ہیں۔ دوسری جانب اگر وائے کروموسوم کی بات ہو تو یہ تمام 500 جین غیرسرگرم ہوتے ہیں اور یوں لڑکا جنم لیتا ہے۔
یہ تمام 500 جین مل کر 18 کے قریب ایسے کوڈ بناتی ہیں جن سے بننے والا پروٹین نطفے کی سطح پر تیرتا رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں ایکس کروموسوم ہے جو لڑکی کی پیدائش کی وجہ بنے گا اور یوں بعض ایسے کیمیکل ہیں جو اس پروٹین سے جڑ کر ایکس کروموسوم کی رفتار دھیمی کردیتے ہیں اور وائے کروموسوم کومتاثرکئے بغیر جانے دیتے ہیں۔ یوں حتمی طور پر لڑکا پیدا کیا جاسکتا ہے یا کم ازکم نظری (تھیوریٹیکل) طور پر ایسا ممکن ہے۔
اب ماہرین نے اس عمل کو چوہوں سے پیدا ہونے بچوں کی پیدائش پر آزمایا۔ پہلے مرحلے میں جب چوہے کے نطفے پر اسے آزمایا گیا تو 90 فیصد نرچوہے پیدا ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں مادہ چوہوں کی پیدائش کو روکنےکی کوشش کی گئی تو 81 فیصد چوہیا پیدا ہوئیں۔
اگلے مرحلے میں اسے مویشیوں کے باڑوں میں استعمال کیا گیا اور عین یہی نتائج برآمد ہوئے۔ ماہرین نے اب تک اسے انسانی نطفے پر نہیں آزمایا ہے لیکن اتنا کہا ہےکہ یہ ٹیکنالوجی انسانوں پر بھی کام کرسکے گی۔
تولیدی سائنس کے ممتاز ماہر اور کولاراڈو اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر جارج سائیڈل نے کہا ہے کہ اگلے دس سال میں یہ ٹیکنالوجی بازار میں عام دستیاب ہوگی۔
اس خوفناک ٹیکنالوجی پر سائنسدانوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ان کے مطابق اس سے اخلاقی، معاشرتی اور سماجی مسائل اور بحث کا ایک نیا دفتر کھل جائے گا۔ اس کی ایک مثال بھارت ہے جہاں ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں لڑکیوں کا اسقاط کیا جاچکا ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ اس طرح کئی ممالک میں اسے ہاتھوں ہاتھ اپنائیں گے۔ لیکن چند عشروں میں ہی آبادی میں مرد اور عورت کا تناسب بری طرح متاثر ہوجائے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔