دمے میں سینے کی تکلیف کے دوروں کا احوال بتانے والا ’زندہ‘ آلہ

ویب ڈیسک  منگل 27 اگست 2019
رٹگرز یونیورسٹی کے محققین نے انسانی بال سے باریک ایک زندہ آلہ بنایا ہے جو دمے کی کئی کیفیات سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے (فوٹو: فائل)

رٹگرز یونیورسٹی کے محققین نے انسانی بال سے باریک ایک زندہ آلہ بنایا ہے جو دمے کی کئی کیفیات سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے (فوٹو: فائل)

 نیویارک: سائنس و ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کے باوجود نہ صرف دمے کے مرض کو اچھی طرح سمجھا نہیں گیا بلکہ دمے کے دوران سینے اور پھیھپڑوں میں درد کے دورے بھی پڑتے ہیں اور اس کی وجہ بھی درست انداز سے نہیں سمجھی گئی ہے لیکن اب ایک بہت چھوٹے آلے سے یہ راز فاش کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ بہت چھوٹا سا آلہ ہے جو عین انسانی سانس کی نالیوں کی نقل کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ ’برونکو اسپیسم‘ یا سانس کی نالیوں میں تکلیف کےدوران آخر کس طرح پٹھے سکڑتے اور پھیلتے ہیں۔ یہ اہم کام رٹگرز یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ فار ٹرانسلیشنل میڈیسن اینڈ سائنس کے پروفیسر رینلڈ پینٹائری اور ان کے ساتھیوں نے انجام دیا ہے۔

اس طریقے سے سانس کے امراض کے علاج کے نئے طریقے دریافت ہوں گے۔ برونکو اسپیسم صحت مند افراد اور دمے کے مریضوں کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہے۔

علاوہ ازیں کرونک آبسٹرکٹوو پلمونری ڈیزیز(سی او پی ڈی) کے مرض میں اور دمے وغیرہ میں ایسا ہوتا ہے کہ سانس کی نالیوں میں کوئی سوزش نہیں ہوتی اور وہ نارمل ہوتی ہیں لیکن اچانک ہموار پٹھے اس شدت سے سکڑتے ہیں کہ سانس لینا دوبھر ہوجاتاہے۔ اس اہم معاملے کو سمجھنا ضروری ہے اور اسی لیے اب تک کسی جانور پر بھی اس مرض کا ماڈل نہیں بنایا گیا ہے۔

اس آلے کو ’برونکائی آن چِپ‘ کا نام دیا گیا ہے جو انسانی بال سے بھی ایک ہزار گنا چھوٹا ہے۔ اس پر صحت مند اور دمے کے شکار افراد کے پھیپھڑوں کے خلیات (سیلز) لگائے گئے ہیں۔ یعنی خلوی سطح پر یہ پھیپھڑوں کا ایک حقیقی مگر مائیکرو ماڈل ہے۔

ماہرین نے جب آلے میں پھیپھڑوں کی دمے والی تکلیف یا برونکو اسپیسم متعارف کروائے تو انہوں نے دیکھا کہ پہلے خلیات سکڑے اور ان سے ہارمون جسی کوئی شے خارج ہوئی جس نے یا تو مزید سکڑاؤ پیدا کیا یا پھر وہ آرام کی وجہ بنی۔ پھر ماہرین نے دیکھا کہ جب خلیات میں دمے کا دوسرا دورہ متعارف کرایا گیا تو تمام خلوی پٹھے سکون میں آگئے اور ظاہری طور پر ان کا درد دور ہونے لگا۔

اس طرح معلوم ہوا کہ خلیات کی سطح پر کس طرح سکڑاؤ اور پھیلاؤ پیدا ہوتا ہے اور اس طرح کئی اقسام کے امراض کو سمجھنا ممکن ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔