کشمیر، ہم اور امریکا

زمرد نقوی  پير 2 ستمبر 2019
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

امریکی صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جی سیون کانفرس کے موقع پر فرانس میں ملاقات ہوئی۔ امریکی صدر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر کا تنازعہ خود حل کر سکتے ہیں جہاں میری ضرورت ہوئی وہاں حاضر ہوں۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے کشمیر کے معاملے پر طویل بات چیت کی۔ مجھے امید ہے بھارتی وزیر اعظم پاکستانی ہم منصب سے بات کریں گے اور دونوں بہتر نتیجے پر پہنچیں گے۔

ہم بھی بڑے سادہ لوح ہیں۔ ٹرمپ مودی ملاقات کے بعد ہمیں امید تھی کہ ٹرمپ مودی کی ایسی کلاس لیں گے کہ اور کچھ نہیں تو مودی کشمیر میں کرفیو سمیت ہر طرح کی پابندیاں ختم کر دیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ عوام تو مایوس ہوئے ہی، اعلیٰ سطح پر بھی مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ اصل میں ہم طویل عرصے سے تصوراتی دنیا میں رہ رہے ہیں۔

کشمیر کے حوالے سے ہماری خاص طور پر یہ صورت حال ہے کہ اچانک کوئی معجزہ ہوگا اور کشمیر ہماری جھولی میں آگرے گا۔ ستر سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس طویل عرصے میں ہم کمزور سے کمزور ہوتے چلے گئے۔ ملک ٹوٹ گیا۔ پاکستان ٹوٹنے سے ہمارا کشمیر پر مقدمہ کمزور ہو گیا۔

بجائے اس سے سبق سیکھتے اور اپنی نئی نسل کے سامنے دیانتداری سے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہم نے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے  اس المیے کی ذمے داری دوسروں پر ڈال دی۔ ملک مٹی کے کچے گھڑے نہیں ہوتے کہ ڈنڈا مارا اور ٹوٹ گئے۔ کسی ملک کو توڑنا آسان کام نہیں بڑی دماغ سوزی اور طویل مدت لگتی ہے۔ ہم مسلسل غلطیاں کرتے رہے۔ ہمارے دشمن نے ہماری غلطیوں سے فائدہ اٹھایا اور ہمارا ملک توڑ دیا۔ دشمن کا تو کام ہی کمزریوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔ آج ہماری نئی نسل کو یہ بھی نہیں پتہ کہ مشرقی پاکستان کبھی پاکستان کا حصہ تھا۔ جب کہ پرانی نسل کو اس پر کوئی پچھتاوا نہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی کو ایک وقت میں عالمی حمایت حاصل تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ عالمی رائے عامہ کشمیر کے معاملے پر غیر جانبدار ہو گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے کہ عالمی رائے عامہ اب سے پہلے تک اس صورت حال پر ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں تھی۔

کیونکہ مودی حکومت نے سب کو باور کرا دیا کہ یہ حقوق کی تحریک نہیں، دہشتگردی ہے۔ یہ تحریک مذہبی شدت پسندی پر مبنی ہے۔ اگر ان کو  آزادی ملی تو کشمیر بھی شدت پسند مذہبی ریاست بن جائے گا۔ جس سے چین، روس، مشرق وسطی سمیت پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ مذہبی شدت پسندوں کو ایک نئی سرزمین مل جائے گی۔

اس طرح دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا۔ دنیا ابھی تک طالبان القاعدہ وغیرہ کو بھگت رہی ہے۔ اس نئے خطرے کا سامنا کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ دنیا کو کشمیری ریاست بننے کا نتیجہ دیوار پر لکھا نظر آ رہا ہے۔ دنیا اب کسی بھی ایسی ریاست کو برداشت کرنے کو تیار نہیں جہاں مذہبی شدت پسندی پروان چڑھے۔ ایک طرف ایران دوسری طرف افغانستان پاکستان تیسری طرف کشمیر۔ ذرا غور فرمائیں یہ تو سونے پر سہاگہ والی بات ہو جائے گی۔

دنیا تو اس تصور سے ہی کانپ رہی ہے۔ مشرق وسطی کی بادشاہتوں میں جو مذہبی لاوا پک رہا ہے اس کی تو بات ہی الگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کی پہلی حمایت بھارت میں تعینات متحدہ عرب امارات کے سفیر نے کی۔ مذہبی شدت پسندی سے مشرق وسطی کی بادشاہتوں کو ہی حقیقی خطرہ ہے۔ مذہبی شدت پسندی نے پاکستان سمیت پورے خطے کو تباہ کر دیا۔ چنانچہ اب وقت آگیا ہے کہ اعتدال پسندی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ سعودی عرب میں  پچھلے کچھ عرصہ سے یہی ہو رہا ہے۔

جب افغانستان میں امن استحکام کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب اعتدال پسندی ہے۔ عمران خان بار بار ریاست مدینہ کا ذکر ایسے ہی نہیں کرتے۔ جہاں اقلیتیں اور ان کے حقوق محفوظ تھے۔ یہ مذہبی شدت پسندی ہی تھی جس نے کشمیر پر ہمارا کیس کمزور کر دیا۔ اسی مذہبی شدت پسندی کو  بھارت نے پاکستان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔جس کے نتیجہ میں دنیا بھارتی موقف کی حامی ہو گئی۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی مودی کی ٹائمنگ پر غور فرمائیں، جب پاکستان بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ خصوصی حیثیت کا خاتمہ خود مودی کی شکست کا ثبوت ہے۔ جب تمام راستے کشمیریوں نے اپنی قربانیوں سے بند کر دئیے تو مودی نے آخری پتے کے طور پر یہ راستہ اختیار  کیا۔ صدر ٹرمپ نے ثالثی صرف تجویز کی ہے تھوپی نہیں۔ لیکن تجویز پر ہی امریکی میڈیا سمیت عالمی میڈیا خواب غفلت سے بیدار ہو کر کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔

یہ ہوتی ہے سوپر پاورکے صدرکی طاقت۔ امریکا سمیت عالمی طاقتوں کی مجبوری ہے کہ وہ کشمیر کے منصفانہ  حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں، ورنہ ایٹمی جنگ کا خطرہ ہے۔ جس سے پوری دنیا متاثر ہو گی۔ یہ حل فوری نہیں طویل مدت میں مسلسل دباؤ کی شکل میں ہی سامنے آئے گا۔

امریکی اثر و رسوخ دنیا میں ہر جگہ ہے تو بھارت میں بھی ہے چاہے یہ بھارت کی اپوزیشن جماعتیں ہوں یا اس کے ادارے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلا ف درخواستیں سماعت کے لیے منظور کر لیں ہیں، ہو سکتا ہے طویل سماعتوں کے بعد بھارتی سپریم کورٹ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا حکم دیدے۔ لیکن فوری طور پر کشمیریوں پر سختی میں مشروط طور پر کمی کا بھی امکان ہے۔

سعودی عرب، متحدہ امارات بحرین ہوں یا فلسطین مودی کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دینے پر ہمارا ردعمل بڑا دلچسپ ہے۔ ہمارا معاملہ اس غریب کا ہے جو امیروں کا رشتہ دار ہے۔ دولت مند رشتہ دار کو بھی اس حقیقت کا پتہ ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ ایک دو عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ جنہوں نے نہیں کیا ان کے پس پردہ اسرائیل سے گہرے تعلقات ہیں۔ مگر ہم نے آج تک اسرائیل کی دشمنی مول لی ہوئی ہے۔ لگتا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ہمیں عرب ملکوں کے دباؤ پر ہی اسرائیل کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ تو بڑی مضحکہ خیز صورت حال ہو گی۔

لیکن ایرانی پارلیمنٹ نے کشمیریوں کے حق میں قرار داد منظور کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ کشمیری اپنے کو تنہا نہ سمجھیں۔ ایرانی پارلیمنٹ نے اس وقت بھی پاکستان کے حق میںاور بھارت کے خلاف قرار داد منظور کی جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا۔ اب پوری دنیا میں صرف پاکستانی پارلیمنٹ اور ایرانی پارلیمنٹ ہی نے مظلوم کشمیریوں کا ساتھ دے کر مسلم برادر ہونے کا حق ادا کر دیا۔ مگر پاکستانی میڈیا میں اس کا ذکر نہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل نہیں چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران قریب آئیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔