’’یوں نہیں یوں اور شہرِ بے مہر‘‘   (دوسرا اور آخری حصہ)

نسیم انجم  اتوار 15 ستمبر 2019
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ان سطور کا تعلق رحمن کیانی کے مضمون سے ہے، ڈاکٹر صاحب نے ان کا تعارف اس طرح کرایا ہے وہ شاعر تھے، فضائیہ سے تعلق رکھتے تھے وہ ہوائی جہاز اڑاتے تھے لیکن شاعری میں ہوائیاں نہیں اڑاتے تھے ان کا کلام اخلاقی، اسلامی اور بصیرت افروز اور فکر انگیز تھا اور پھر پڑھنے کا انداز معلوم ہوتا تھا کہ الفاظ کے ڈرون چھوڑے جا رہے ہیں۔

مصنف نے اپنے مضمون ’’جوش کے لیے پرجوش‘‘ میں لکھا ہے کہ ہم ساری عمر عورتوں سے اسی طرح ڈرتے رہے جیسے سیاست دان نیب سے ڈرتے ہیں، اور جب کسی دانشور خاتون سے ہمارا سابقہ پڑا تو کیفیت یہ ہوگئی کہ بقول شاعر:

ہوش و حواس، تاب و تواں داغ جا چکے

اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

ڈاکٹر صاحب کا اشارہ ڈاکٹر عالیہ امام کی طرف ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ مضمون ڈاکٹر صاحبہ کی کتاب ’’تصور انقلاب اور جوش‘‘ کی تعارفی تقریب میں پڑھا تھا۔

مزاح لکھنا آسان کام ہرگز نہیں اور وہ بھی تحقیق کرکے واقعات کو مزاح کے سانچے میں اس طرح ڈھالنا کہ سچ سلامت رہے اور کذب رسوا ہو، جیساکہ اس کتاب میں مذکور ہے۔ دیکھیے ’’کلام اختر۔۔۔۔‘‘ پر کیا خامہ فرسائی کی ہے۔ ’’ہم نے نوجوانی میں اختر شیرانی کو پڑھا تو یہ ہمارا شوق تھا اور اب اس کہنہ سالی میں اختر شیرانی کو پڑھتے ہیں تو یہ ہماری ضرورت ہے کس مدلل انداز میں مصرعوں کا چناؤ کیا ہے کہ مضمون کی شیرینی میں اضافہ ہوا۔

بہار و خواب کی تنویر مرمریں عذرا

یہی وادی ہے وہ ہمدم‘ جہاں ریحانہ رہتی تھی

سنا ہے مری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں

حسن جاوید کا پہلا ناول ’’شہر بے مہر‘‘ حال ہی میں ادب کے افق پر جلوہ گر ہوا ہے، میری رسائی کا ذریعہ ممتاز صحافی زیب اذکار حسین تھے، اگرکسی بھی کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب ہو تو بے اختیار نگاہیں اس پر مرکوز ہوجاتی ہیں۔ اس کا ٹائٹل ایسا ہی ہے جو تا دیر کتاب کے شائقین کو مصروف رکھتا ہے، ضخامت کے اعتبار سے یہ کتاب 304 صفحات کا حاطہ کرتی ہے۔ ’’شہر بے مہر‘‘ پر زیب اذکار نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے ’’اردو ناول نگاری میں تازہ اضافہ حسن جاوید کا ناول ’’شہر بے مہر‘‘ ہے، کہانی جرائم اور دہشت گردی میں ملوث کرداروں کے گرد گھومتی ہے اور اس کا سراغ بھی لگاتی ہے کہ ناانصافی، سماجی انتشار، دہشت گردی اور تشدد کی جڑیں کہاں ملتی ہیں؟

مصنف نے کمالِ مہارت سے چھوٹے چھوٹے جملوں میں منفی اور مثبت رویوں کی تشریح کی ہے۔ ناول نہ صرف مصنف کے سماجی اور نفسیاتی شعور کا عکاس ہے بلکہ یہ کہانی پر اس کی گرفت کا پتا بھی دیتا ہے۔‘‘ناول کے نقاد شاہد نواز اپنی کتاب ’’پاکستانی اردو ناول میں عصری تاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ناول میں سب سے زیادہ اہم چیز زندگی کی تخلیق ہوتی ہے، زندگی ہر صنف ادب کے لیے ضروری ہے۔ مگر جتنے مکمل طور پر اور جتنی قریب آکر زندگی ناول تخلیق کرتی ہے، اتنی کوئی صنفِ ادب نہیں کرتی، اس ناول سے دلچسپی زندگی سے دلچسپی ہے۔‘‘

ناول کا کلیدی کردار ’’ہٹیلا‘‘ نامی شخص ہے اور گینگ کا سرغنہ بھی، جو ظالم اور سفاک ہے لیکن درد دل بھی رکھتا ہے، معصوم بچوں اور خواتین پر ہاتھ نہیں ڈالتا ہے، ناول کی ابتدا بھی ایک معصوم بچے کے اغوا برائے تاوان سے ہوتی ہے، دہشت گردوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں جنھیں وہ اپنا کر اپنے آپ کو انفرادیت بخشنا چاہتے ہیں ان کے علاقے بھی ان کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، اتفاق ایسا ہے کہ ہٹیلا کے علاقے سے معصوم بچے کو اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر اسی حوالے سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔

گزشتہ سالوں میں شہر کراچی میں دہشتگردی عروج پر تھی اور بدترین واقعات روز رونما ہوتے تھے ’’شہر بے مہر‘‘ کا پس منظر بھی انھی حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ ناول ابتدا سے انتہا تک تجسس کی فضا کو پروان چڑھاتا ہے۔ پولیس ڈپارٹمنٹ کی کالی بھیڑوں اور ضمیر فروشوں کا ذکر بھی ملتا ہے اور ایس پی نوید جیسے فرض شناس افسر کی کارکردگی بھی نظر آتی ہے لیکن اچھے کام کرنے والوں کے لیے ان کے اپنے ہی محکمے کے بدکردار اور ہوس زر کے غلام ان کا جینا حرام کردیتے ہیں۔

مکالموں کی شکل میں چھوٹے چھوٹے وہ جملے جو تجربات کی بھٹی میں جل کر کندن بنتے ہیں مصنف کے تجربات ومشاہدات کے عکاس ہیں۔تنظیم اور ’’بھائی‘‘ کا ذکر بار بار دہرایا جاتا ہے۔ ناول کی کہانی مکمل طور پر دہشتگردی کے گرد گھومتی ہے، ہٹیلا کا کردار توانا اور جاندار ہے، مصنف نے مکالمہ اورکردار نگاری کے ذریعے اسے زندہ جاوید کردیا ہے اس کا رقص اور بے ربط الفاظ کا گیت اس کے ذہن اور سسکتے جذبات کو نمایاں کرتے ہیں جہاں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

پولیس ڈپارٹمنٹ کالی بھیڑوں کی وجہ سے بد نام ترین ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی باضمیر اور فرض شناس افسران و اہلکار اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دیتے ہیں، ایس پی نوید دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے در پر ہے وہ خیر کا اجالا پھیلانے کی کوشش میں ہر لمحہ سرگرداں ہے لیکن کیا کیا جائے نیکی کے راستے میں جلنے والے چراغوں کو گل کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے، آئی جی کا کردار ایسا ہی ہے جیسے پیسے کی ہوس اپنے ضمیر کو سلانے پر مجبورکرتی ہے وہ گھناؤنے جرائم سے چشم پوشی کرتا ہوا خطرناک مجرم کو چھوڑنے کے احکامات صادر کرتا ہے۔

جہاں منفی کردار ناول میں سانس لیتے بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو درگور کرتے نظر آتے ہیں وہاں شکیل، رضیہ اور استاد جیسے مثبت کردار بھی ملتے ہیں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگیاں فلاحی مقاصد کے لیے وقت کرنے کے لیے صبح و شام تگ و دو کر رہے ہیں مصنف نے پہلا ناول لکھا ہے اور افسانے کی جگہ مشکل کام کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ حسن جاوید کا عمیق مشاہدہ اور حالات حاضرہ پر گہری نگاہ ہے، ادیب ویسے ہی حساس ہوتا ہے وہ معاشرتی مسائل اور سماجی برائیوں پر نہ کہ گہری نگاہ رکھتا ہے بلکہ اپنی تحریروں کے ذریعے نمایاں کرتا ہے چونکہ مصنف کا صحافت سے گہرا تعلق ہے، روٹی، رزق کا ذریعہ صحافت ہی بنی اور یہ شوق جنون کی حدوں کو چھونے لگا تو وہ بیرون ملک پہنچ گئے اور وہاں سے بھی علم و آگہی اور تجربات کے گوہر نایاب لے کر لوٹے۔

ناول ’’شہر بے مہر‘‘ کو لکھنا اسی لیے انھیں آسان معلوم ہوا چونکہ سب حالات ان کے سامنے تھے اور تخلیقی صلاحیتوں نے سونے پر سہاگے کا کام کر دکھایا۔ مصنف نے تمام کردار مربوط طور پر پیش کیے ہیں کسی بھی موڑ پر تشنگی کا احساس ذرہ برابر نہیں ہوتا ہے بلکہ ناول کی کہانی مختلف پیچ و خم کے ساتھ آگے کی طرف سفر کرتی ہے۔اغوا، تشدد، بم دھماکے، انسانیت سوز واقعات نے قاری کی دلچسپی اور لگن کو قوت بخشی ہے وہ اغوا ہونیوالے شکیل اور اس کی محبت کے انجام کو جاننے کے متمنی ہیں، ہٹیلا کے لیے رضیہ کی ہمدردی اور تعلیم بالغاں کی کلاس میں داخلے کی ابتدا اس طرح بہت سے مثبت امور اور انسانیت کے فروغ اور محبت کے نازک جذبوں کا پروان چڑھنا اس بات کی علامت ہے کہ مصنف تلخ وشیریں واقعات کا ادراک رکھنے کے ساتھ انسانی نفسیات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔