تتلیوں جیسی بچیاں !

شیریں حیدر  اتوار 15 ستمبر 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

موسم گرما کی صبح صادق کے وقت میں بھی اتنا حبس تھا کہ گھر سے قبرستان تک جاتے جاتے بھی پسینہ سانپوں کی طرح جسم پر رینگ رہا تھا۔ میں نے والدین کی آخری آرام گاہوں پر حاضری دی اور واپسی کے لیے عازم ہوئی، قبرستان کے قریب کی مسجد کے باہرمجھے جاتے ہوئے پانی کو فلٹر کرنے کا پلانٹ نظر آیا تھا۔

یقینا یہ گاؤں والوں کی سہولت کے لیے ایک اچھا اقدام ہے، جب میں گئی تو ملگجا سا اندھیرا تھا، وہ جگہ اس وقت ویران تھی، واپسی پر اندھیرے کی چادر میں چھید ہو رہے تھے اور گرمی کا وہی عالم تھا۔ گلیوں میں اکاد کا لوگ بھی نظر آ رہے تھے اور ایسے میں ایک منظر نے میری ہڈیوں تک میں سردی کی لہر دوڑا دی۔ اسی پانی والے پلانٹ کے باہر لگی ہوئی ٹونٹیوں میں سے چھ ، سات سال کی عمر کی تین چار بچیاں پانی بھر رہی تھیں۔ ان کے پاس بڑے سائز کی خالی بوتلیں تھیں، ایک پانی بھر رہی تھی، ایک انتظار میں کھڑی تھی، ایک پانی بھر کر چل دی تھی۔

اتنی ویران گلیوں میں، صبح کے اس وقت، فراکوں اور برہنہ ٹانگوں کے ساتھ، پیروں میں چپلیں اڑسائے ہوئے اپنی سکت سے زیادہ کا بوجھ ڈھوتی ہوئیں ۔ بوجھ بھی شاید زیادہ نہ تھا کہ شاید انھیں عادت تھی مگر مجھے جس چیز نے خوف میں مبتلا کیا تھا وہ اس ویران گلی میں ان معصوم بچیوں کا تنہا ہونا تھا۔ تتلیوں جیسی بچیاں کہ جنھیں فقط کوئی چھو بھی لے تو ان کے رنگ اتر جاتے ہیں اور کوئی ذرا سا سخت ہاتھ لگا دے تو وہ کبھی اڑ نہیں سکتیں … اس سے زیادہ سختی کی وجہ سے وہ جان سے بھی چلی جاتی ہیں ۔

میرا جی چاہا کہ ان کا تعاقب کروں اور ان کے گھر چلی جاؤں۔ ان سے پوچھوں کہ فلٹر سے اتنی سویرے پانی منگوانا کیوں ضروری ہے، اگر کوئی انتہائی مجبوری بھی ہے تو ان ننھی بچیوں کو بھیجنا کیوں لازم ہے، کیا گھر میں کوئی اور بڑا نہیں ہے جو پانی لا سکے۔ اگر نہیں تو فلٹر کا پانی پینا ہی کیوں ضروری ہے، گھر کے نلکوں میں اگر پانی پینے کے قابل نہیں ہوتا تو پانی ابال کر پی لیں۔ ان کی ماؤں سے پوچھوں کہ انھیں سکون کس طرح آتا ہے اپنی ننھی ننھی پریوں کو یوں صبح سویرے، خالی بھاں بھاں کرتی گلیوں میں، درندوں کے جنگل میں تنہا بھیج دینے کو۔ مگر ان تین چار ماؤں تک اپنا پیغام پہنچانے کی بجائے اس ملک کے سب والدین تک یہ پیغام پہنچانا چاہوں گی۔

ملک میں گزشتہ چند سالوں سے معصوم بچیوں اور حتی کہ بچوں کے ساتھ بھی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ہمارے اندر ایک ایسے خوف کو مہمان کر دیا ہے کہ ہم اپنے کے علاوہ کسی اور کے بچوں کو بھی یوں تنہا دیکھیں تو سہم جاتے ہیں ۔ بچے تو معصوم ہوتے ہیں، نادان ہوتے ہیں مگر ان کے ماں باپ کو یوں کم عقلی اور نادانی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

گاؤں کے لوگ سادہ اور ان کی زندگیاں بھی سادہ تھیں مگر اب میڈیا نے کسی چیز کو سادہ نہیں رہنے دیا۔ گھروں سے چھوٹی اور جوان بچیوں کو باہر بھیجتے وقت، مائیں جب اس پر نظر نہیں رکھتیں ان کے تن کا کون سا حصہ ڈھکا ہوا ہے اور کون سا نہیں اور یوں ’’ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں ‘‘ کی تفسیر بنی ہوئی بچیاں گھر سے باہر جاتی ہیںتو باہر والوں کی نظر ان کی بیٹیوں پر اچھے انداز سے نہیں پڑتی۔ ان کے اندر شیطان انگڑائیاں لے لے کر بیدار ہوتا ہے اور ان کی بیٹیوں کو پامال کر دیتا ہے ۔

بار ہا اس کے بارے میں لکھ چکی ہوں اورماؤں کو خبردار کرتی ہوں کہ اس نوعیت کے واقعات میں ابتدائی قصوروار گھر کے وہ افراد ہوتے ہیں جن پر اپنے بچوں کی تربیت اور حفاظت کی ذمے داری ہوتی ہے۔ اس میں فقط مائیں ہی نہیں ، باپ اور گھر کے دیگر افراد بھی ہوتے ہیں۔ جہاں بچوں کی پامالی کا کوئی واقعہ منظر پر آتا ہے تو علم ہوتا ہے کہ اس میں سب سے اہم کردار اس غفلت کا ہوتا ہے جو آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے۔ بچوں کے سب سے قریبی اور محرم رشتہ دار بھی بسا اوقات اس میں اسی لیے ملوث پائے جاتے ہیں کہ ان پر گھر والوں کو اعتماد ہوتا ہے اور ان سے کسی خراب حرکت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مگر بد قسمتی سے انھی رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاتھوں بچے پامال ہوتے ہیں اور اس وقت تک ہوتے رہتے ہیں جب تک کہ پانی سر سے اونچا نہ ہو جائے۔

چھوٹی بچیوں اور بچوں کو گاؤں، گلی یا محلے کی دکانوں پر تنہا بھیجنا ، کھوکھوں ، کینٹین، ریڑھیوں سے کوئی سودا منگوانے کے لیے بھیجنا انتہائی بے وقوفی ہے اور آپ کا بچہ خطرے کی زد میں ہے۔ اول تو ہمارے ہاں اس بات کو بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا کہ ہم بچوں کی تربیت کرتے ہوئے انجان لوگوں کی طرف سے چھوئے جانے کے خطرے سے آگاہ کریں۔ نہ صرف انجان بلکہ ان لوگوں کی طرف سے غلط طور پر چھوئے جانے سے آگاہ کریں جن پر ہم اور ہمارے بچے اعتماد کرتے ہیں۔

ہم اپنے بچوں کو کسی قریبی رشتہ دار کے ساتھ تنہا نہ ہونے دیں ۔ کہیں جائیں تو اپنے بچوں کو اصرار کر کے کہیں کہ وہ ہمہ وقت ہماری نظر کے سامنے رہیں ۔ بازار میں یا کسی بھی پبلک مقام پر اس بات کی حوصلہ شکنی کریں کہ لوگ آپ کے بچے کو چھوئیں، اس سے پیار کریں، اسے بوسہ دیں یا پیار سے اسے چٹکی کاٹیں، اسے اپنی گود میں بٹھائیں یا اپنے کندھے پر اٹھا لیں۔ اسے کچھ کھانے کو دیں یا اسے کچھ دکھانے کا لالچ دے کر ایک لمحے کے لیے بھی آپ کی نظر سے اوجھل کریں ۔

بچوں کے استاد مرد ہوں یا عورت… آپ کا بیٹا ہو یا بیٹی، کسی استاد کوبھی آپ کے بچے کو جسمانی طور پر چھونے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے درمیان مناسب فاصلہ ہونا چاہیے ۔ بچوں کا لباس کسی کو تبدیل کرنے یا اتارنے کی اجازت نہیںہونا چاہیے ۔ بچے کو آپ سے کچھ چھپانا نہیں چاہیے اور نہ ہی اسے کسی ایسے شخص کی بات ماننا چاہیے جو اسے اس کے ماں باپ کے خلاف ورغلائے اوراسے کوئی بھی بات اپنے والدین کو بتانے سے منع کرے۔ کوئی قریبی دوست یا رشتہ دار بھی، آپ کے بچے کو اپنے ساتھ تنہا کہیں لے جانے کے لیے آپ سے اجازت بھی طلب کرے تو اسے ہر گز اجازت نہ دیں ، چاہے اس کے بدلے میں وہ آپ سے ناراض بھی ہوجائے۔

بچے اس قدر معصوم ہوتے ہیں کہ آپ انھیں اس نوعیت کی باتیں آسان لفظوں میں سمجھا سکتے ہیں، اسے اچھے اور برے لمس کا فرق سمجھائیں۔ انھیں اپنے جسم کی ملکیت کا احساس دلائیں اور اس طرح کہ ان کا جسم صرف ان کا ہے، اسے کسی اور کو چھونے یا برتنے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ انھیں بتائیں کہ ان کے قریبی رشتوں میں بھی جب کوئی ایک خاص حد کو کراس کرنے کی کوشش کرے تو انھیں اپنے والدین کو مطلع کرنا چاہیے۔ جب وہ آپ کی نظر سے کسی مجبوری سے بھی اوجھل رہیں تو ان سے سوالات کرکے کریدیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ وہ آپ سے کچھ چھپا تو نہیں رہے ۔ اگر وہ کسی کے کہے میں آکر، کسی لالچ  کی وجہ سے، کسی کی ناراضی کے ڈر سے، اس خوف سے کہ اس کے والدین کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے یا سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر وہ کسی کو وہ بات بتائے گا جو کسی نے اسے چھپانے کو کہی تھی تو وہ شخص اسے جان سے مار ڈالے گا۔

اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ کابچہ کسی خاص شخص کے سامنے آنے سے، کسی کے ہاں جانے کا سن کر یا کسی بات کوسن کر ڈر جاتا ہے، اس کا رد عمل مختلف ہوجاتا ہے تو آپ کے لیے لمحہء فکریہ ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میںاگر کسی ایسے شخص کا آپ کے گھر آناجانا ہوجسے آپ پسندنہیں کرتے یا اسے اپنے گھر آنے سے آپ روک نہیں سکتے تو ا س کی موجودگی میں اپنے بچے کو ہر ممکن اس کے سامنے آنے سے منع کریں۔ بالخصوص اسے اپنے بچے کو چھونے نہ دیں، بچے کو بھی اس سے فاصلہ رکھنے سے کہیں ۔

ایسے لوگوں کے بارے میں، اپنے اور اس کے دوستوں ، بچے کے اساتذہ کے بارے میںاور ارد گرد کے رشتہ داروں کے بارے میں بھی اپنے بچے سے پوچھتے رہیں کہ اس کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے۔ بچے من کے سچے ہوتے ہیں، اپنے ماں باپ کے سوال کے جواب میں انھیں جھوٹ بولنا نہیں آتا اگر آپ اسے یہ اعتماد دیں کہ وہ سچ بولے گا تو آپ اسے کچھ نہیں کہیں گے۔ اگر بچہ خود سے نہ بھی کسی کی غلط پیش رفت کو جانچ نہ سکے تو بھی آپ کے سوال کرنے پر وہ آپ کو بتا دے گا کہ اسے فلاں فلاں پسند ہے یا نہیں، اگر نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے۔ بچے کو فطری طور پر وہ شخص پسند نہیںہوتا جو اسے کسی بھی بری نیت سے چھوئے۔

اپنے پھولوں جیسے بچوں کی حفاظت کریں ۔ انھیں اپنے تحفظ کے بارے میں سمجھائیں ، اسے ممکنہ خطرات سے آگاہ کریں ۔ آپ کا بچہ آپ کے لیے قیمتی ہے، اس کی جان اور عزت قیمتی ترین، یہ ایک بار ہاتھ سے نکل جائیں تو کبھی واپس نہیں آتیں !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔