صوبائی کابینہ میں توسیع، وزیر اعلیٰ کی عمران خان سے مشاورت

شاہد حمید  بدھ 18 ستمبر 2019
وزیراعلیٰ ایک سے زائد مرتبہ وزیراعظم عمران خان سے اس بارے میں مشاورت کر چکے ہیں۔

وزیراعلیٰ ایک سے زائد مرتبہ وزیراعظم عمران خان سے اس بارے میں مشاورت کر چکے ہیں۔

پشاور:  خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کا اس وقت پورا فوکس صوبائی کابینہ میں توسیع پر مرکوز ہے کیونکہ قبائلی اضلاع سے منتخب ارکان میں سے دو کو صوبائی کابینہ میں نمائندگی دی جانی ہے اور یہ مرحلہ اتنا آسان نہیں کیونکہ قبائلی اضلاع سے جہاں تحریک انصاف کے اپنے پانچ ارکان منتخب ہوئے ہیں وہیں پر دو ارکان نے آزاد حیثیت سے منتخب ہونے کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت اخیتار کی اور انہوں نے یہ شمولیت مفت میں نہیں کی بلکہ وہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ انھیں حکومت کا حصہ بنایا جائے گا۔

اس لیے وزیراعلیٰ ایک سے زائد مرتبہ وزیراعظم عمران خان سے اس بارے میں مشاورت کر چکے ہیں اور یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں صوبائی کابینہ کے لیے نام فائنل کر لیے گئے ہیں تاہم اندر کی خبر رکھنے والوں کی خبر ہے کہ ابھی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ بات صرف تحریک انصاف کے اپنے پانچ ارکان اور دو شامل ہونے والوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ساتھ ہی بلوچستان عوامی پارٹی کا معاملہ بھی لٹکا ہوا ہے جنھیں وزیراعلیٰ نے کابینہ میں شامل نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کا معاملہ یہ ہے کہ بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف اس کے ساتھ اتحادی ہے جبکہ مرکز میں بی اے پی، پی ٹی آئی کے ساتھ اقتدار میں شراکت دار ہے اور اگر باپ ، پاکستان تحریک انصاف سے اپنا اتحاد ختم کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں مرکز میں پی ٹی آئی کو نقصان ہوگا جبکہ بلوچستان میں باپ خطرہ میں پڑ جائے گی اور نہ تو باپ کے سربراہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال ایسا چاہیں گے اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت لہٰذا اگر اس مرحلے پر نہ سہی تو اگلے کسی مرحلے میں باپ خیبرپختونخوا حکومت کا حصہ ضرور بنے گی اور کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جام کمال جب خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان سے ان کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کے لیے پشاور آئے تو اس موقع پر بھی اس بارے میں بات ہوئی جسے خوبصورتی کے ساتھ ٹال دیا گیا تاہم اگر دونوں پارٹیوں نے ساتھ چلنا ہے تو اس کے لیے باپ کو خیبرپختونخوا میں بھی حصہ دینا ہوگا، دونوں پارٹیاں چیئرمین سینٹ کو جس ’’انداز‘‘سے بچانے میں کامیاب ہوئی تھیں وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ ان کی’’ ایسی‘‘ رفاقت ختم ہو۔

باپ کا خیبرپختونخوا میں نہ تو وجود تھا اور نہ ہی گزشتہ سال کے عام انتخابات اور نہ حالیہ قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے اپنا کوئی امیدوار میدان میں اتارا گیا لیکن عام انتخابات کے بعد جب آزاد ارکان کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت کے حوالے سے جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہوا اور جمعیت علماء اسلام(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اورخیبرپختونخوا کے وزیراطلاعات شوکت علی یوسفزئی سے سابق قبائلی پارلیمنٹرین شاہ گل آفریدی نے ملاقاتیں کیں تو سب کے کان کھڑے ہوگئے۔

کیونکہ ان کی یہ ملاقاتیں دراصل ہوا کا رخ جانچنے کے لیے تھیں اور ان ملاقاتوں میں ان پر واضح ہوگیا کہ پی ٹی آئی کا حصہ بن کر کچھ لینا مشکل ہوگا جبکہ جمیعت علماء اسلام (ف) میں شمولیت کے لیے ہوا سازگار نہیں کیونکہ جے یوآئی آزادی مارچ کرے یا نہ کرے لیکن وہ اس وقت پی ٹی آئی حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے بھی مخالف اڑ رہی ہے اور اس اڑان میں نقصان کا بھی اندیشہ ہے جبکہ شاہ جی گل آفریدی جنہوں نے اپنے خاندان کے افراد کو قبائلی اضلاع میں منعقدہ صوبائی اسمبلی انتخابات کے نتیجے میں اسمبلی تک پہنچایا ہے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی یہ مشق بے معنی رہے۔

اپنی اس کاوش کو بامعنی بنانے کے لیے شاہ جی گل آفریدی نے تین آزاد قبائلی ایم پی ایز پر مشتمل گروپ تشکیل دیا جس نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی،ایک خاتون کی نشست بھی اچک لی اور چار ارکان پر مشتمل اپنی الگ پارلیمانی پارٹی تشکیل دے دی،اب اگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اس وقت اپنی پارٹی میں کسی قسم کے ری ایکشن سے بچنے کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کے ارکان کو نظرانداز کر بھی دیتے ہیں تو شاید اگلے کسی مرحلے میں انھیں ان پر التفات کی نظر کرنی پڑے، جہاں قبائلی ارکان کو کابینہ میں شامل کرنے کے لیے جنرل نشستوں پر منتخب ارکان پر مشاورت جاری ہے تو وہیں پر ایک قبائلی خاتون رکن کو بھی حکومتی ٹیم کا حصہ بنانے پر غور کیا جا رہا ہے جس کا اعلان وزیراعلیٰ پہلے ہی کر چکے ہیں۔

تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ مذکورہ خاتون رکن کابینہ کی بجائے حکومتی ٹیم کاحصہ بنیں گی یعنی مذکورہ خاتون رکن کو وزیر کی بجائے مشیر یا معاون خصوصی بنایاجائے گا۔اسی طرح ایک اقلیتی رکن کی قسمت بھی جاگنے والی ہے کیونکہ اقلیتی امور کے محکمہ کا قلمدان کسی اقلیتی رکن ہی کے حوالے کیاجائیگا جس کے لیے پی ٹی آئی کے تین ارکان ایوان میں موجود ہیں تاہم امکان ہے کہ قرعہ روی کمار ہی کے نام نکلے گا جو گزشتہ عام انتخابات میں اقلیتی نشستوں کے لیے پی ٹی آئی کی ترجیحی نشست میں تیسرے نمبر پر تھے، جہاں صوبائی کابینہ اور حکومتی ٹیم میں نئے چہرے شامل ہونے والے ہیں وہیں پر پہلے سے موجود بعض کی کارکردگی سے قائدین مطمین نہیں ہیں جس کی وجہ سے وزراء اورحکومتی ٹیم کے ارکان کے محکموںاور قلمدانوں میں ردوبدل بھی کیاجائے گا اور یہ بات بھی مشاورتی عمل میں زیر بحث لائی جا رہی ہے۔

اور خیبرپختونخوا میں حکومت و اپوزیشن کے مابین مذاکرات کے ٹوٹے تار جڑ نہیں پا رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ترقیاتی فنڈز کے معاملات پر عدالت سے رجوع کرنا بتایا جا رہا ہے، اسی سال بجٹ سے قبل وزیراعلیٰ محمودخان کی جانب سے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے لیے وزراء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کیے اور ان مذاکرات کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ترقیاتی فنڈز کا65 فیصد حصہ حکومتی ارکان کو ملے گا جبکہ 35 فیصد حصہ اپوزیشن کو دیا جائے گا۔

اس تقسیم پر دونوں جانب سے اتفاق بھی کیا گیا اور پھر اپوزیشن قائدین کی وزیراعلیٰ کے ساتھ نشست جس میں اسپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی بھی موجود تھے،اس فیصلے کی توثیق بھی ہوگئی تاہم بجٹ کے موقع پر اپوزیشن ارکان کی جانب سے احتجاج اوراپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کی جانب سے پی ٹی آئی سے بڑھتی ہوئی مخاصمت کی وجہ سے مذاکرات کے یہ تارٹوٹ گئے اور اب چونکہ اسمبلی میں قبائلی اضلاع سے بھی ارکان آگئے ہیں اس لیے اگر حکومت اور اپوزیشن پھر مل بیٹھتی ہے تو اب فارمولا بھی نیا ہی بنے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔