اسرائیل کا نیا حکم نامہ

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 19 ستمبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

اسرائیل نے مزید فلسطینی علاقے ضم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مسلم ممالک نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی طرف سے مزید فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اعلان کی سخت مذمت کی ہے۔ عرب لیگ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے اس اعلان کی شدید مذمت کی ہے کہ وہ اگلے ہفتے دوبارہ الیکشن جیت جانے کی صورت میں فلسطینی علاقے وادی اردن کو اسرائیل کا حصہ بنا لیں گے۔

ایسا کوئی بھی اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی سخت خلاف ورزی ہوگی۔ سعودی عرب نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کا یہ اقدام پورے خطے کو تشدد کی طرف دھکیل سکتا ہے اور قیام امن کے لیے خطرہ ہے ، ترک وزیر خارجہ نے نیتن یاہو کے اس بیان کو نسل پرستانہ قرار دیا ہے۔

اسرائیل کا یہ اعلان خطے میں داداگیری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسرائیل بنیادی طور پر امریکا کا باجگزار ملک ہے اور اس کے ہر اقدام میں امریکا کی مرضی شامل ہوتی ہے۔ امریکا دنیا میں عدل وانصاف کا نگہبان ملک ہے۔ اس دعوے کے برعکس امریکا نے اپنے دوست ملکوں کی غیر اصولی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی مدد کی ہے۔ فلسطین کے مزید علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا اعلان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

مغربی ملکوں نے عربوں کے سینے پر اسرائیل کا ناسور بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ لگایا ہے، اس خطے میں اسرائیل مغربی ملکوں خصوصاً امریکا کا ایک ایسا پٹھو بنا ہوا ہے جو امریکا کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے۔ اس حوالے سے بھارت اسرائیل کا بڑا بھائی بنا ہوا ہے۔ کشمیر پر طاقت کے ذریعے قبضے کے 71 سال بعد بھارت نے دھاندلی سے کشمیرکی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے بھارت میں ضم کرلیا ہے یہ طریقہ کار اسرائیل کا بھی ہے کہ آزاد اور خودمختار ملکوں کے علاقوں کو اپنے ملک میں ضم کرلیتے ہیں۔ یہ دھاندلی اس لیے کی جاتی ہے کہ اقوام عالم اس قسم کی دھاندلیوں کا نوٹس نہیں لیتیں۔

دنیا میں آج جو قانون شکنیاں ہو رہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی طاقتیں قانون اور انصاف کی مٹی پلید کر رہی ہیں جن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چھوٹے ممالک بھی کھلی دھاندلیاں کر رہے ہیں یوں دنیا صرف طاقتور ملکوں کی ملکیت بن گئی ہے۔ آج کشمیر میں جو صورتحال ہے وہ بھی طاقت کی برتری کا شاہکار ہے بھارت نے طاقت کے زور پرکشمیر پر قبضہ کیا اب 71 سال بعد کشمیر کو بھارت میں ضم کرلیا ہے۔ یہ اقدامات طاقت کی برتری کی مغربی سیاست کے شاہکار ہیں۔ دنیا میں جو لاقانونیت ہو رہی ہے وہ سب مغربی ملکوں کے طاقت کی برتری کے فلسفے کا نتیجہ ہیں اور جب تک طاقت کی برتری کے فلسفے پر عملدرآمد ہوتا رہے گا کمزور ملک نقصان اٹھاتے رہیں گے۔

دنیا میں جنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کا جو کلچر فروغ پا رہا ہے اس کا بنیادی سبب بھی طاقت کی برتری کا ظالمانہ اصول ہے۔ طاقت کی برتری شاہانہ اور شخصی حکمرانی کے دور کا عطیہ ہے جمہوری نظام میں طاقت کی برتری کا اصول جمہوریت کے ساتھ مذاق ہی کہلا سکتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے چھوٹے ملکوں کو استعمال کرتی ہیں، جنوبی کوریا اور اسرائیل اسی سلسلے کی کڑی ہیں امریکا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسرائیل اور جنوبی کوریا کو استعمال کرتا آرہا ہے۔ جب بڑے ملک چھوٹے ملکوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں توچھوٹی طاقتوں کی ناز برداریاں بھی ان کا فرض بن جاتا ہے۔ اسرائیل کو بڑی طاقتوں نے اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ وہ پورے عرب ملکوں کو کنٹرول کرتا ہے اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بے لگام ہوجاتا ہے۔

فلسطین کے مزید علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا اعلان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسرائیلی قیادت جانتی ہے کہ عرب ملکوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمیشہ اسرائیل کی ضرورت رہے گی اس مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل اپنی من مانیاں کرتا ہے۔ فلسطین ایک متنازعہ علاقہ ہے فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے قراردادیں بھی پاس کر رکھی ہیں لیکن ان قراردادوں پر عملدرآمد اسرائیل نہیں کرتا جب تک بڑی طاقتیں خاص طور پر امریکا اپنے مفادات کے لیے چھوٹے ملکوں کو بلیک میل کرتا رہے گا ناانصافیاں ہوتی رہیں گی۔

ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں اس صدی میں سارے وحشی قوانین اور اصول ازکار رفتہ ہوجانے چاہئیں یہ صدی انسانیت کی برتری کی صدی ہے۔ ماضی کے تمام وہ اصول جو طاقت کی برتری کی نمایندگی کرتے ہیں انھیں اس صدی میں ختم ہوجانا چاہیے لیکن سامراجی ذہنیت نے ماضی کے غیر منصفانہ اصولوں اور قوانین کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہودی صدیوں سے بے خانماں تھے انھیں رہنے کے لیے ایک ملک کی ضرورت تھی۔ امریکا، برطانیہ اور دوسری بڑی طاقتوں نے یہودیوں کی رہائش کے لیے اسرائیل تخلیق کیا، لیکن اسرائیل کو بسانے کے لیے فلسطینیوں کو اجاڑنا پڑا۔ پہلے یہودی دنیا میں خوار ہو رہے تھے اب اسرائیل کے قیام سے فلسطینی دربدر ہوگئے ہیں یہ ایک ایسی ناانصافی ہے جس کا ازالہ دو ملکوں کی شکل میں ممکن ہے۔

امریکا اور اس کے اتحادی دو ملکوں کی تجویز کے حامی تو ہیں لیکن اس سلسلے میں کوئی مثبت قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں اگر بے گھر بے ملک اسرائیلیوں کو ایک ملک چاہیے تھا تو 71 سال سے دربدر ہونے والے فلسطینیوں کو بھی ایک ملک کی ضرورت ہے غزہ کا علاقہ فلسطینیوں کی رہائش کے لیے تجویز ہوا تھا لیکن اس علاقے پر اسرائیل اپنی برتری چاہتا ہے۔ آئے دن غزہ کے علاقے پر بمباری، قتل و غارت کی وجہ فلسطینی تباہی کا شکار ہیں، اب انھیں رہنے کے لیے ایک پرسکون ملک چاہیے۔ اسرائیل سامراجی ذہنیت سے باہر آئے تو فلسطینیوں کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔