صفر جمع صفر مساوی صفر

سعد اللہ جان برق  جمعرات 19 ستمبر 2019
barq@email.com

[email protected]

بہت سارے بزرگوں یہاں تک کہ علامہ اقبال نے بھی کہاہے کہ کسی کی ظاہر دیکھ کر اچھے بُرے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

لیکن ہم اکثر غلطی کرجاتے ہیں اور محض کسی کا چہرہ دیکھ کراسے پسند نا پسند کرلیتے ہیں حالانکہ سامنے کی حقیقت ہے کہ یہ دنیا میں جتنے بھی خوبصورت چہرے پائے جاتے ہیں بین الاقوامی سطح پر ہوں یا پڑوسی ملک کی کرینائیں کترینائیںپریکائیں دو دپیکائن ہوں یا اپنے ہاں کی ریمائیں، میرائیں، رینائیں اور ماہرائیں ہوں۔کتنی اچھی اچھی صورتیں خدا نے دے رکھی ہیں لیکن دل؟ یہ ان کے کسی بھی پرشاد یافین سے پوچھ لیجیے

ہمارے رحمان بابا نے بھی کہاہے کہ

پہ ظاہر لباس غلط د سڑی مہ شہ

منز ئے وگورہ چغزی دے کہ مٹاک

یعنی ظاہر پر مت جاؤ اندرسے دیکھو کہ سخت ہے یا نرم۔انھوں نے اس کے لیے اخروٹ کی مثال دی ہے۔اور آج ہم اس امریکی ’’اخروٹ‘‘کی بات کرنا چاہتے ہیں جسے ٹرمپ کہا جاتاہے۔کیابتائیں کتنی پشیمانی اور شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ہم اس کے ظاہر یعنی ’’چہرے‘‘کودیکھ کرکتنا بُرا بُرا سوچتے ہیں لیکن باہر سے یہ ’’اخروٹ‘‘کتنا نرم اور میٹھا نکلا۔ آپ نے بھی اس کی شکل تو دیکھی ہے کتنی… بلکہ اب اچھی ہے۔

خود ہماری تو ان مقامات عالیہ تک رسائی نہیں ہے اس لیے دید کی بجائے شنید یہ ہے کہ جب ہمارے عمران خان عالیشان اور معجزبیان نے ان کو کشمیریوں کے بارے میں بتایا تو سنا ہے کہ اس کا دل بھر آیا بلکہ اتنا بھر آیا کہ آنکھوں سے آنسوؤںکے فوارے چھوٹ گئے، صبر وضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور پھوٹ پھوٹ کر۔ جھوٹ موٹ کے نہیں بلکہ سچ مچ کے ٹسوے بہاکر اور نہایت ہی گلوگیر اور آنسوؤں سے تربتر آواز میں بولا

دیکھ سکتاہوں کچھ بھی ہوتے ہوئے

نہیں میں نہیں دیکھ سکتا ’’کشمیریوں‘‘کوروتے ہوئے

بلکہ سنا ہے کہ اس پربہت شرمندہ بھی ہوئے کہ دنیا میں اتنا ظلم ہورہاہے اور اسے اس کی خبر تک نہیں لیکن کوئی بات نہیں دیرآئد درست آئد۔بس اب اور نہیں۔ پھر ہمارے وزیراعظم کوفوری طورپر کچھ رومال دیتے ہوئے کہا کہ ان سے جاکر کشمیریوں کے آنسو خشک کیجیے۔اور تسلی دے دیجیے کہ

بچوں پہ چلی گولی۔ماں دیکھ کے یوں بولی

میں آتی ہوں میں آئی ہوں میں آتی ہوں میں آئی

پھر اس نے اپنے سامنے رکھے ہوئے ایک تاروں کے مجموعے کے کچھ تارکھینچے کچھ ڈھیلے کیے۔اور ساری دنیا میں گھنٹیاں بجنے لگیں

تم نے ماری انٹریاں۔دل میں بجی گھنٹیاں

ٹن ٹن ٹن ٹن۔

اور ہر ٹن کے آخر میں کشمیر کشمیر سنائی دینے لگا۔یعنی دنیا ’’متحرک‘‘ہوگئی یعنی پہلے سوئی ہوئی تھی پھرجاگ پڑی پھر کھڑی ہوگئی اورپھرمتحرک ہوگئی۔اب دنیا تواپنی جگہ متحرک ہوچکی ہے اورحرکت میں برکت خودبخود آجاتی ہے۔اور تو اور کہ مودی جیسا موذی بھی موڈی ہوکرمتحرک ہوگیا۔ اب اس سلسلے میں سقراط بقراط تواپنا معمول کافرض ادا کرکے طرح طرح کے ’’موتی‘‘نکال رہے ہیں لیکن ہم جیسے اناڑی غواص جوغور کے حوض کے کچھ تیراک نہیں ہیں ان کے ہاتھ بھی کچھ نہ کچھ ’’سیپیاں‘‘لگ رہی ہیں۔

جن میں سب سے بڑی ’’سیپی‘‘ تویہ ہے کہ موڈی مودی موذی نے بھی یہ حرکت اپنے ’’موڈ‘‘سے نہیں کی ہے بلکہ اس کا’’تار‘‘بھی کھینچا گیا ہے تاکہ ثالث ترازو لے کر بیٹھیں گے تو تولنے میں آسانی ہو۔اور انصاف کاترازونصف نصف تولتے ہوئے فیصلہ کر دے کہ انصاف کامطلب ہی یہی ہے کہ زیرتنازعہ مال  کونصف لی ونصف لک یعنی ففٹی ففٹی کردے۔کہ جو تیرا ہے وہ تیرا ہے اور جو اس کا ہے وہ اس کا ہے توبھی خوش میں بھی خوش۔گزرا ہوا فراموش اور آئندہ کے لیے روزگار۔نہ کچھ کھایا نہ پیا۔گلاس توڑا۔بارہ آنے۔گلاس اگر اب تک آدھاخالی تھا۔تو اب آدھا بھرجائے گا۔

اڑگیامقصد کا پنچھی رہ گئے پرہاتھ میں

اب آپ سوچیں گے کہ ’’کیاکھویاکیاپایا‘‘تویہ سوال توحضرت بابا آدم کے زمانے سے انسان کولاحق ہے اورکسی بھی دور میں کوئی بھی اس کا جواب نہیں ڈھونڈ پایا کہ کیاکھویا کیا پایا۔کیونکہ’’کھونا‘‘اور’’پانا‘‘صرف ایک خیال ہے تصور ہے اور مایا جال ہے اصل چیز ’’ہونا‘‘ہے جو ہوتا رہتا ہے، صرف وہی ہوتارہتاہے بلکہ اس کے بارے میں بھی کے ڈی پاٹک کاکہناہے کہ جودکھائی دیتاہے وہ ہوتانہیں اور جو ہوتاہے وہ دکھائی نہیں دیتا ہوگا صرف یہ کہ کچھ دیر کے لیے لوگ وہ بھول جائیں گے جو ہے۔اور اس میں مگن ہوجائیں گے جونہ ہے نہ تھا نہ ہوگا

نہ تھا کچھ توخدا تھا کچھ نہ ہوتا توخداہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں توکیا ہوتا

حقیقت کشمیر ہے نہ ثالثی ہے نہ ٹرمپ ہے نہ موڈی ہے نہ عمران ہے بلکہ مہنگائی ہے رونا ہے بیکاری ہے بمباری ہے لاچاری ہے برکاری ہے بلکہ زندگی ساری ہے۔یہ توصرف ایک ’’سیپی‘‘تھی جوہمیں دانشوروں کے غور کے حوض کے کنارے ملی لیکن کچھ اور بھی سیپیاں ہیں۔جن میں سب سے بڑی سیپی یہ ہے کہ کیاکوئی دودھیل گائے کو ’’ذبح‘‘ کرسکتاہے،پھلدار درخت اجاڑسکتاہے اور چلتی دکان بند کر سکتاہے۔ان سب کچھ کوغور سے دیکھنے سننے سمجھنے کے بعد ہمیں وہ مشہورکہانی یاد آتی ہے جس میں تین افراد کی کہانی ہے۔

ایک باپ،ایک ماںاور ایک بیٹی۔ اور جن کو فرشتے نے ایک ایک سوال پورا کرنے کی آفردی تھی۔بیٹی نے چاہا کہ وہ دنیا کی خوبصورت ترین عورت بن جائے اور وہ بن گئی اور پھر اپنے حسن کے زور سے ملکہ بھی بن گئی۔لیکن باپ نے اس کے نارواسلوک سے طیش میں آکراس کے چڑیل بننے کا سوال کیا۔اور وہ چڑیل بن گئی اور پھر وہیں پہنچ گئی۔

جہاں سے اس کا خمیرتھا۔بیچاری ماں کیاکرتی اپنی بیٹی کوچڑیل تو نہیں رہنے دے سکتی تھی سو اس نے اپنا سوال اس کے دوبارہ اصلی حالت پرآنے میں خرچ کردیا۔یہی وہ سیپی ہے جس کے اندر حقیقی اور سچاموتی ہے باقی سب خالی سیپیاں اور نقلی موتی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ یہ دنیا یہ زندگی مال مویشیوںکی ’’منڈی‘‘ ہے جس میں دلال سوداگراور خریدنے بیچنے والے سب کے سب صرف ’’مویشی‘‘ کا دیا ہوا کھاتے ہیں۔ سب کی روزی روٹی اور ہانڈی چولہا ’’مویشی‘‘ہی کے دم قدم سے چلتا ہے

ہری نہفتہ رخ و ’’دیو‘‘ درکرشمہ حسن

بسوزعقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔