کراچی سے ناانصافیاں

کشور زہرا  جمعرات 19 ستمبر 2019

اس وقت میرا موضوع شہر کراچی اور اس کے لامتناہی مسائل ہیں جن کا حل ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور اپنی غلطیاں دوسروں کی جھولیوں میں ڈال دینے سے ممکن نہیں، میری سوچ یہ ہے کہ تمام پارٹیوں میں سب سے مظلوم پارٹی عوام ہے جیسے کہ کراچی کے عوام انصاف کے ساتھ ساتھ سماجی، سیاسی اور معاشرتی ضرورت کے متلاشی ہیں ان کی اس بے چینی کے اسباب تلاش کرنے کے لیے اس شہر کے ماضی اور حال پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ ناانصافیوں کا سدباب کس طرح کیا جاسکے۔

کراچی کی موجودہ آبادی تین حصوں میں نظر آتی ہے ایک وہ جو تقسیم برصغیر کے وقت پہلے سے یہاں آباد تھی جن میں بلوچ کیونکہ ماضی بعید میں کراچی بلوچستان کا حصہ تھا اور یوں مکران کی ساحلی پٹی سے لے کر کراچی کی بندرگاہ اور اس کے اردگرد ان کی آبادی جو بیشتر ماہی گیروں پر مشتمل تھی اور آج بھی ان کی نسلیں کم و بیش انھی علاقوں میں آباد ہیں۔

اس کے ساتھ ہی تعلیم اور تہذیب و تمدن سے آراستہ پارسی کمیونٹی جن کے نام سے شہر کے وسط میں پارسی کالونی قائم ہے۔گوکہ ان کی ایک بڑی تعداد اب ہجرت کرچکی ہے اور ساتھ ہی اینگلو انڈین کرسچن آبادی جو کراچی سے لے کر بمبئی اورگوا تک آباد ہے۔ اس کے علاوہ سندھی زبان بولنے والے بھی یہاں رہائش پذیر تھے۔

سندھ سے ملحق ہونے کے سبب کاروباری سندھیوں کی تعداد حیدرآباد اور کراچی میں تھی جن میں بیشتر ہندو تھے جب کہ زراعت سے وابستگی رکھنے والے بڑے بڑے ہندو زمیندار جو اندرون سندھ میں معاشی طور پر اچھی حیثیت کے حامل تھے ان کی اپنی ذاتی جائیدادیں تھیں جو بعدازاں نہرو لیاقت معاہدے میں متروکہ سندھ قرار دی گئی تھیں لیکن اس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے انصاف کا تقاضا پورا کرنے کے لیے 2015ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی لاہور رجسٹری میں ایک فیصلہ صادر فرمایا جسکی رو سے ہندوؤں کی چھوڑ کے جانیوالی تمام جائیدادیں ہندوستان سے آنیوالے مہاجروں کی ملکیت قرار دی گئی ہیں کیونکہ تقسیم برصغیرکے وقت یہ ایک بہت بڑی متبادل ہجرت تھی۔

جس میں ہندو برادری ہندوستان چلی گئی تھی اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی قیمتی املاک چھوڑ کر ہجرت کے عمل میں جانی ومالی قربانیاں دیتی ہوئی یہاں آکر آباد ہوئی جو راجستھان سے خشکی کے راستے آئے انھوں نے اپنے پڑاؤ اندرون سندھ میں ڈالے اور ساتھ کراچی تک بھی پہنچے جو بحری سفر کے ذریعے آئے جن میں یوپی اور جنوبی ہندوستان سے آنے والوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد ان کاروباری لوگوں کی بھی تھی جو اپنے مال و متاع کے ساتھ یہاں آکر آباد ہوئے جن میں بمبئی، گجرات، احمد آباد سے آنیوالے اور میمن و بوہری کمیونٹی کے علاوہ اسماعیلی اور اثناعشری بھی شامل تھے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا تعلق بھی اسی کمیونٹی سے تھا۔ جس نے نوزائیدہ مملکت کے کاروبار معیشت کو سنبھالا اور وہ تمام سروسز سر انجام دیں جو پہلے ہندو کمیونٹی کے پاس ہوتی تھیں۔

اب میں آتی ہوں اس تیسرے قسم کی آبادی کی جانب جو تقسیم برصغیر کے وقت پاکستان کے مختلف حصوں میں آباد تھی لیکن ذرائع آمدنی انتہائی محدود یا نہ ہونے کے برابر تھے اس کی بڑی وجہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی خاتون خانہ کی وہ دخل اندازیاں تھیں جن کے سبب پسماندہ علاقے تو پاکستان کے حصے میں آئے اور وہ ترقی پذیر علاقے جو تحریری طور پر پاکستان کے تھے وہ ہندوستان کو ودیعت کردیے گئے جن میں حیدرآباد دکن، جوناگڑھ، رن کچھ شامل تھے جب کہ کشمیر کا فیصلہ وہاں کی عوام کی رائے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا جو آج تک حل نہ ہوا اور ہندوستان نے بدعہدی کرتے ہوئے ان کی آزادی رائے پر نقب لگانے کی کوشش کی ہے۔

ہجرت کرکے آنے والوں نے جب کراچی میں کاروباری معاملات کی بنیاد ڈالی تو پورے پاکستان سے بے روزگار لوگ روزی کی تلاش میں کراچی کا رخ کرنے لگے جو ان کی ضرورت تھی ۔ وطن عزیز میں ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آچکا ہے جس نے کراچی کو محض ایک ایسا پلیٹ فارم بنادیا۔

جس میں قبائلی جھگڑوں کا بوجھ اور اس کا شکار ہونیوالوں کی شکارگاہیں اور خاندانی دشمنیاں، شادی اور طلاق کے جھگڑے جس میں پسند کی شادی کرکے اپنے تحفظ کے لیے اس شہر کا رخ کرنا اور ان کے پیچھے ان کی جانوں کو تلف کرنے والوں کے ریوڑ۔ ان کے علاوہ اپنے آبائی گاؤں اور علاقوں سے نکل کر ڈکیتیاں ڈالنا اور چھینا جھپٹیوں کے دوران معصوم شہریوں کا قتل عام روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔

ان سے چھٹکارے میں پولیس اور دیگر ادارے بھی ناکام نظر آتے ہیں کیونکہ یہ اپنی وارداتیں کرکے واپس نکل جاتے ہیں لیکن ان بدعنوان عناصر کی وجہ سے شہر کی جو صورتحال ہے میں پہلے بھی ایک کالم میں ذکر کرچکی ہوں کہ لوہے کی گرلوں سے جانوروں کے کٹہرے نما اور خاردار تاروں کی منڈیروں میں جکڑے مکانات، گلیوں میں لگے بیریئر اور ان پر بیٹھے چوکیدار پھر بھی عوام غیر محفوظ اور محصور ہوچکے ہیں۔

اس پر المیہ یہ کہ پانی نہیں، بجلی نہیں، ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں گلیوں اور گلیوں اور راستوں میں بلا تخصیص غریبوں کے گلی کوچے ہوں یا اشرافیہ کی بستیاں حتیٰ کہ بڑی شاہراہیں بھی جہاں بغیر ڈھکن گٹر ابلتے نظر آتے ہیں۔ بگڑے ہوئے نظام کا شاخسانہ اور وہ ناانصافیاں ہیں جو کبھی مردم شماری کے غلط اعداد و شمار تو کبھی حلقہ بندیوں میں تبدیلی کے ذریعے کاغذوں میں آبادی کم اور اصل میں زیادہ۔ بات یہیں آکر نہیں ٹھہرتی مسائل اس لیے جنم لیتے ہیں کہ رسد کے نظام کو تباہ کیا گیا ہے پہلے ایک ایک کرکے پیداواری اداروں کو لاہور، فیصل آباد اور اسلام آباد شفٹ کیا گیا۔

جس سے کراچی کے لوگ بیروزگار ہوئے اس کے بعد مقامی اداروں مثلاً کے ڈی اے، کے ایم سی، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے، کے ای ایس سی، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ایس بی سی اے بھی چھینا جھپٹی کی نذر ہوئے۔ کراچی کے ڈومیسائل بناکر غیر مقامی لوگوں کو بھرتیاں کی گئیں بلکہ کراچی اور اس کے عوام سے وابستگی ختم کرنے کے لیے اداروں کے نام تک تبدیل کردیے گئے ہیں جب کہ کراچی کے عوام اپنے اس حق سے بھی محروم کیے جانے لگے مقامی لوگ نہ ہونے کے سبب ان اداروں کی کارکردگی تنزلی کی طرف گئی جس کے نتائج اس وقت شہر میں سب دیکھ رہے ہیں۔

ماضی کی کئی حکومتیں اور پارلیمنٹ جو اپنا آئینی دورانیہ مکمل نہیں کرسکیں ان کے خاتمے کی بنیادی وجہ وہ ناانصافیاں تھیں جنھوں نے کراچی کے حالات کو مزید ناگفتہ کردیا تھا جس میں کراچی کی کروڑوں کی آبادی کو نہ صرف ناراض کیا گیا بلکہ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کرنے والوں کی حمایت بھی کی گئی جس میں خصوصی طور پر وہ ماورائے عدالت قتل جن کا ذکر میں اوپر کرچکی ہوں شامل تھے۔

کراچی کے مستقل اور باشعور عوام اگرچہ کوئی ظاہری مخالفانہ تحریک کا وجود تو فی الحال نہیں رکھتے لیکن اس امر کا گہرا ادراک ضرور رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا سیاسی سماجی اور معاشی بدسلوکی کا عمل انتہائی نامناسب ہے یہاں یہ بات یاد دلانا ضروری سمجھتی ہوں کہ یہ وہی شہر ہے جو ماضی میں بڑھتی ہوئی ناانصافیوں پر اپنی حکمت عملی کے ذریعے کئی حکمرانوں کے تختے الٹتا رہا ہے۔ ایک آئینی ترمیم بھی مسائل کا سبب بن چکی ہے جس کے غلط استعمال کو عوام بہت اچھی طرح جان چکے ہیں اس سے پہلے کہ وہ بپھر جائیں سب کو اپنی اپنی سمتیں درست کرکے ہی مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔