- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
احتساب
موجودہ حکومت کے آنے پر جو مثبت بڑا کام ہوا ہے، وہ احتساب کا ہے۔ اس ملک کی اشرافیہ 72 سال سے ملک کو اپنی جاگیر سمجھ کر جس طرح لوٹتی رہی ہے، اس کی مثال پسماندہ ملکوں میں نہیں مل سکتی۔ لوٹ مار کا یہ عالم رہا ہے کہ اربوں روپوں کو بچانے کے لیے ایرے غیروں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے ڈال دیے گئے۔
قومی دولت کی لوٹ مار کے اربوں روپے جعلی اکاؤنٹس میں ڈال کر انھیں بچانے کی کوشش کی گئی۔ اس بے لگام لوٹ مار کی وجہ ہمارا ملک دنیا میں بدنام ہوا اور عوام اشرافیہ سے اس قدر بدظن ہو گئے کہ اس کا نام سننا پسند نہیں کرتے۔ اس بے لگام لوٹ مار پر نیب نے لٹیری اشرافیہ کے خلاف ریفرنسز داخل کیے۔ ملک کے وزیر اعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کے درجنوں لیڈروں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے اور کچھ کو سزائیں بھی دی گئیں۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جیل کو اشرافیہ نے فائیو اسٹار ہوٹل بنا کر رکھ دیا ہے۔
کرپشن کے الزامات میں سابق صدر پاکستان اور ان کی بہن اس وقت جیل میں ہیں یعنی سابق وزیر اعظم اور سابق صدر پر اربوں روپوں کرپشن کے الزامات ہیں۔ کسی شخص پر خواہ وہ صدر ہو یا وزیر اعظم مختلف حوالوں سے الزامات لگتے رہتے ہیں لیکن محض الزامات لگنے سے کسی کو مجرم نہیں کہا جا سکتا، جب تک کہ ملزم پر جرم ثابت نہ ہو جائے ملزم کو بے قصور ہی سمجھا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں پر کرپشن کے الزامات اور سزاؤں سے سیاست اس قدر بدنام ہو گئی ہے کہ عوام سیاست کو گالی سمجھنے لگے ہیں۔ ہماری عدلیہ نے ملزموں کو جلد انصاف فراہم کرنے کے لیے اسپیشل کورٹس قائم کی ہیں جو کیسوں کو عشروں تک گھسیٹنے کے بجائے جلد از جلد فیصلے کر رہی ہیں۔ اس انتظام کی وجہ سے جہاں بے گناہ لوگوں کو جلد انصاف مل رہا ہے وہیں مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچانے میں بھی انصاف ہو رہا ہے۔
نیب ایک قومی ادارہ ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ نیب کی وجہ سے بے قصور ملزم جلد رہا ہو رہے ہیں تو مجرم اپنی سزا کو پہنچ رہے ہیں۔ اس حوالے سے اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ ہمارے ملک کی سیاسی اشرافیہ کی گرفت ملک کے ہر شعبے پر اتنی مضبوط رہی ہے کہ اشرافیہ کی طرف کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔
اب بھی کرپشن کے ملزمان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح الزامات سے نجات حاصل کر کے عوام کو لوٹنے کے لیے دوبارہ ان کے سروں پر مسلط رہیں۔ ہمارے ملک میں جاگیردارانہ نظام عشروں تک نافذ رہا ہے اور جاگیردارانہ نظام میں پولیس حکومت کی ملازم نہیں رہتی بلکہ ملازم ہوتی ہے اشرافیہ کی۔ مقامی پولیس کے سربراہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صبح وڈیروں کے گھر جا کر انھیں سلام کرنے سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے۔ یہ جاگیردارانہ کلچر آہستہ آہستہ سرمایہ دارانہ نظام میں بھی موثر ہو چکا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ پولیس پر حکومت کرتا ہے پولیس اس کے اشاروں پر چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس اس کلچر میں بے لگام ہو جاتی ہے۔ ویسے تو یہ کلچر قیام پاکستان کے ساتھ ہی روبہ عمل رہا ہے لیکن جب سے سیاسی اشرافیہ اقتدار میں آئی ہے یہ کلچر مستحکم ہوتا رہا ہے اور پولیس حکمرانوں کے تابع رہی ہے اور وہ وہی کام کرتی ہے جس کا حکم حکمران دیتے ہیں۔
ملک میں پولیس کے اس کلچر کی وجہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ ہوا جس میں 14 سیاسی کارکنوں کو سرعام جان سے مار دیا گیا۔ سیاسی انجینئرڈ کلچرکی وجہ آج تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔ عوام حکمرانوں سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ 14 سیاسی کارکنوں کے قاتلوں کے خلاف اب تک کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ جب تک اشرافیہ برسر اقتدار رہی قانون اور انصاف کو غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ 14 سیاسی کارکنوں کے قتل کو اب چھ سال ہو رہے ہیں اب تک قاتلوں کے خلاف کارروائی نہ ہونا انجینئرڈ قانون کا منہ بولتا ثبوت نہیں؟
دو بڑی سیاسی جماعتوں کی حکمرانی کے دور میں یہ تماشے ہوتے رہے ہیں۔ عوام دشمن اور کرپٹ اشرافیہ کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ کوئی حکومت اس کے خلاف احتساب کا ڈنڈا گھمائے گی۔ کیا اشرافیہ کی قانون شکنی کا کسی ادارے نے نوٹس لیا؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی کیا 14 کارکنوں کے قتل کا احتساب انجینئرڈ احتساب کہلا سکتا ہے؟ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ایک مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں اور پنجاب پولیس نے انھی کی جماعت کے 14 کارکنوں کو بہیمانہ طور پر قتل کر دیا۔ قادری صاحب 6 سال سے چیخ رہے ہیں کہ ان کے 14 کارکنوں کے قتل کے خلاف قانون کو حرکت میں لایا جائے لیکن ان کی شکایت کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
کیا یہ کیس ازخود نوٹس لینے کے زمرے میں آتا ہے؟ قانون کو اندھا بہرہ اور گونگا اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ملزموں اور مجرموں میں امتیاز نہیں برتتا۔ اگر قانون اور انصاف امتیازی ہو جائے تو ملک انارکی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ غالباً ہمارے چیف جسٹس صاحب نے اسی پس منظر میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ’’سیاسی انجینئرڈ احتساب کا بڑھتا ہوا تاثر خطرناک ہے۔‘‘ ہمارے حکمرانوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ چیف جسٹس صاحب کے خدشات کو دور کرنے کے لیے احتساب کو سیاسی آلائشوں سے پاک کریں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔