- 100 سال سے زائد پُرانے 20 ہزار سِکوں کی نیلامی کا اعلان
- مریخ پر انسانوں کو لے جانے والے تیز ترین راکٹ پر کام شروع
- پاکستانی مینز کرکٹرز ویمنز ٹیم کا حوصلہ بڑھانے لگے
- کینسر کے آخری اسٹیج میں علاج ’بیکار‘ ہوجاتا ہے، تحقیق
- مالی معاملات پر اختلاف، تربیلا ڈیم توسیعی منصوبے پر کام بند
- بینک اقتصادی ترقی کیلیے ترجیحی شعبوں سے تعاون بڑھائیں، وزیر خزانہ
- پراکسی ثابت کریں،فیصل واوڈا کا سپریم کورٹ جج کو پھر چیلنج
- پاکستان میں پروگروتھ فلیٹ ٹیکس پالیسی کے نفاذ کی ضرورت
- پاکستان پنشن سسٹم میں اصلاحات کرے، ایشیائی ترقیاتی بینک کا مشورہ
- ایران کے صدر ابراہیم رئیسی ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق
- سابق وزیراعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس گرفتار
- کرغزستان میں پھنسے طلبا سے متعلق تشویش ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- کرغزستان سے مزید ساڑھے تین سو طلبا وطن واپس پہنچ گئے
- اینٹی بائیوٹک ادویات کے بے تحاشہ استعمال سے پاکستان میں سالانہ 7 لاکھ اموت
- اسحٰق ڈار کا سعودی ہم منصب سے رابطہ، محمد بن سلمان کے دورے کی تیاریوں کا جائزہ
- ہیٹ ویو کا خدشہ؛ سندھ میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کی تاریخ آگے بڑھا دی گئی
- فالج کی تشخیص کے لیے نیا ٹیسٹ وضع
- آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیز مسافر طیارے پر کام جاری
- والدین نے بشکیک سے طلبا کو مفت لانے کے حکومتی دعوؤں کو جھوٹا قرار دے دیا
- ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے
بجلی گرتی بھی ہے تو مزدوروں پر
گزشتہ ایک سال میں محنت کشوں پر مہنگائی کی جتنی بجلی گری ہے، اتنی شاید ہی کسی اور طبقے پر گری ہو۔ ہرچند کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے اثرات تمام نچلے درجات کے لوگوں پر پڑے ہیں، لیکن مزدور تو ایک طرح سے نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
اس لیے بھی کہ حکومت نے ایک غیر ہنرمند مزدور کی تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار روپے مقرر کی ہے لیکن 80 فیصد مزدوروں کو یہ بھی میسر نہیں۔ اربوں روپے کے سامان حرب بنائے اور خریدے جاتے ہیں لیکن ایک کسان کے بیٹے کو کتے کے کاٹنے کے بعد ویکسین نہ ہونے سے وہ ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر مرجاتا ہے اور دھن والے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں ٹی وی پر دیکھ کر افسوس کرتے ہیں۔ دوزخ کا نظارہ بہت ہی دردناک ہوتا ہے مگر اسے دور سے ہی دیکھنا امیروں کے لیے اچھا ہے۔
اگر ایک مزدور سب کچھ چھوڑ کر صرف سبزی، دال اور آٹے سے جینا چاہے تو بھی اسے نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ اس لیے کہ سبزی سو سے ڈیڑھ سو روپے کلو، دالیں ایک سو ساٹھ سے دو سو تیس روپے کلو اور آٹا پچپن روپے کلو ہے۔ اب اسے پکانے کے لیے مرچ مسالہ، تیل، لہسن، ادرک اور پیاز کی ضرورت ہے۔ مسالے چار سو روپے کلو، لہسن دو سو چالیس روپے کلو، ادرک تین سو بیس روپے کلو، پیاز نوے روپے کلو اور تیل دو سو پینتیس روپے کلو، ایک کمرے کے مکان کا کرایہ چھ ہزار روپے ہے، پانی پینے کا چھوٹا کین بغیر معدنیات کے پندرہ روپے کا، گیس بجلی کا خرچ ایک روز کا کم از کم ایک سو پچاس روپے پڑتا ہے۔ اب بتائیں کہ آٹھ سو سے بارہ سو روپے دیہاڑی پر کام کرنے والا مزدور کیسے گزارا کرتا ہوگا؟
ہر جگہ اور ہر ادارے میں مزدوروں کے حاصل شدہ حقوق کو سرمایہ دار چھینتا جا رہا ہے۔ جیساکہ ایک غیر ملکی کمپنی میں پچیس سال سے چار سو مزدور مختلف شعبوں میں کام کرتے آرہے ہیں۔ کمپنی نے مزدوروں کے تمام حقوق جو آئین پاکستان کی رو سے اور بین الاقوامی لیبر قوانین کے مطابق تمام مراعات حذف کی ہوئی ہیں۔ کمپنی کے کچھ شعبوں کو غیر قانونی ٹھیکیداروں کے حوالے کر کے بے وجود نام نہاد کمپنیوں کا نام استعمال کر رہی ہیں۔ جن کمپنیوں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ایک جانب مزدور اپنے حقوق کے حصول کی لڑائی لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف انتظامیہ اپنی جانب سے مزدوروں کے خلاف غیر قانونی کارروائی کر رہی ہے‘ جس کے نتیجے میں مزدوروں کا روزگار چھینا جا رہا ہے جب کہ مزدوروں کا یہ مطالبہ ہے کہ ٹھیکیداری نظام کو ختم کرکے تمام مزدوروں کو مستقل کیا جائے۔
ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک نوجوان نے اپنے انٹرویو میں بے روزگاری، مہنگائی اور ماحولیات پر بڑی دلچسپ اور مدلل نکات اٹھائے۔ انھوں نے کہا کہ جب سے مشترکہ ملکیت اور ساجھے داری کی پیداوار ختم ہوئی اور انفرادی منافع خوری کی ریت شروع ہوئی تب ہی سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ بعض لوگ سرمایہ داری کو ایک فطری نظام قرار دیتے ہیں۔ تو کیا ایک سو پچاس سال کا دور فطری ہے اور ایک لاکھ پچاس ہزار سال کا دور غیر فطری تھا؟ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سرمایہ دار اپنی پیداوار کو پروان چڑھانے کے لیے جو اشتہار بازی کرتا ہے وہ روزانہ اس دنیا میں ایک اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر صرف اشتہار پر خرچ ہوتا ہے۔ خود سوچیں کہ پھر لوٹتا کتنا ہوگا؟
قصور میں بچے تو مرگئے، جتنے ہلاکو مرے، چنگیز مرے، ڈاکو مرے شہید ہوئے۔ قصور میں کسانوں کے بچے قتل کردیے گئے۔ اگر کسی جاگیردار، سرمایہ دار، نوکر شاہی یا امریکی سفیر کا بچہ مرتا تو قیامت برپا ہوجاتی۔ میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد ہی حکمران بشمول پولیس ایکشن میں آئی، ورنہ یہ جرائم پولیس کی سرپرستی میں پھیلتے چلے جاتے۔
کسی انقلابی فلسفی نے درست کہا تھا کہ پولیس جرائم پھیلاتی ہے، ڈاکٹر مرض پھیلاتا ہے، صحافی جھوٹ پھیلاتا ہے، عدلیہ ناانصافی پھیلاتی ہے، وکیل خلفشار پھیلاتے ہیں اور فوج خون بہاتی ہے۔ ان اداروں کو ختم کردیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی شرائط کو مانتے ہوئے ہماری حکومت نے مہنگائی کی انتہا کردی اور مزید کرتی جا رہی ہے۔
آئی ایم ایف کا وفد آج کل پاکستان میں ہے اور ہماری حکومت کو تھپکی دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ خوب ہے اسے مزید بڑھاتے جاؤ۔ جب کہ آج ہی میرے پاس مردان سے ایک شخص کا ایک فون آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے پانچ بچے ہیں اور سب بے روزگار ہیں۔ بچے ہنرمند بھی ہیں، میری بیوی بیمار ہے۔ کھانے کو گھر میں آٹا نہیں تھا۔ کسی دوست سے ایک ہزار روپے قرض لے کر آٹا لایا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں حکومت گزارا الاؤنس فراہم کرے یا پھر بچوں کو روزگار دے، اس وقت ہماری نوبت نیم فاقہ کشی کی ہے۔ جب کہ دوسری طرف دس بڑے آلات حرب کی پیداوار کرنے والے ممالک میں بھارت اور پاکستان بھی شریک ہے۔ تعلیم اور صحت کی خدمات میں بھارت اور پاکستان کا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے۔
اس کے حل کا آسان سا راستہ ہے کہ دونوں ممالک اسلحے کی پیداوار اور خرید بند کردیں، سرحدیں ختم کردیں۔ جو جہاں جانا چاہتا ہے وہاں جا سکتا ہے۔ اس سے کھربوں روپے کی (اسلحہ کی پیداوار اور خرید) یعنی غیر پیداواری اخراجات کی کمی ہونے سے یہ رقم مہنگائی، بے روزگاری اور صحت کے شعبوں میں استعمال کرکے اس خطے کو جنت نظیر بنایا جاسکتا ہے، شاداب اور ماحول دوست بنایا جاسکتا ہے۔ مزدوروں کی حالت زار صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ تیل سے مالا مال صرف اٹھارہ لاکھ کی مقامی آبادی والا خلیجی ملک قطر میں پاکستانی مزدوروں کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔
یہاں اصلاحات کے باوجود ان مزدوروں کو تباہ کن حالات کا سامنا ہے۔ انھیں کئی مہینوں سے تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئی ہیں اور قطری محکموں کی جانب سے ان سے کم ہی تعاون کیا جا رہا ہے۔ جب کہ دوسری جانب دو ہزار بائیس کی فٹبال کے عالمی کپ کی تیاریوں کے سلسلے میں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے جاری ہیں۔ ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے سماج میں ہی ممکن ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔