کیا ہمارے نظامِ شمسی میں بھی کوئی ’چھوٹا بلیک ہول‘ ہے؟

ویب ڈیسک  اتوار 29 ستمبر 2019
ہوسکتا ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کا گمشدہ وجود کوئی سیارہ نہ ہو بلکہ کوئی بلیک ہول ہو۔ (فوٹو: ناسا/ جے پی ایل)

ہوسکتا ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کا گمشدہ وجود کوئی سیارہ نہ ہو بلکہ کوئی بلیک ہول ہو۔ (فوٹو: ناسا/ جے پی ایل)

شکاگو: ’’ہوسکتا ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کی بیرونی انتہاؤں پر کوئی بڑا سیارہ موجود نہ ہو بلکہ کوئی چھوٹا اور قدیمی بلیک ہول ہو، جو شاید کائنات کے ابتدائی زمانے میں وجود پذیر ہوا ہو۔‘‘ یہ خلاصہ ہے امریکی اور برطانوی ماہرینِ فلکی طبیعیات کے اس مشترکہ تحقیقی مقالے کا جو چند روز پہلے ’’آرکائیو ڈاٹ آرگ‘‘ (arXiv.org) پر آن لائن شائع ہوا ہے۔

ہمارے نظامِ شمسی میں بیرونی سیاروں کے مدار خاصے عجیب اور بے ہنگم ہیں۔ اس بارے میں ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ شاید ہمارے نظامِ شمسی کے بیرونی کناروں پر کوئی بڑا اور بہت زیادہ کمیت والا سیارہ موجود ہے۔ اگرچہ ہم اب تک اس سیارے کو دریافت تو نہیں کر پائے ہیں لیکن یہ اپنی زبردست کشش ثقل کی وجہ سے دوسرے سیاروں کے مداروں پر اثر انداز ہورہا ہے اور ان میں خلل ڈال رہا ہے۔ یہی ہمارے نظامِ شمسی کا ’’نوواں سیارہ‘‘ بھی ہے (کیونکہ 2006ء میں پلوٹو کو ’’سیاروں‘‘ کی فہرست سے نکال باہر کردیا گیا ہے)۔

لیکن اب ڈرہام یونیورسٹی، برطانیہ کے جیکب شولٹز اور یونیورسٹی آف الینوئے، امریکا کے جیمس انوِن نے مشترکہ تحقیق کے بعد یہ کہا ہے کہ بیرونی سیاروں کے مداروں میں بے قاعدگی کی وجہ کوئی بڑا اور ضخیم سیارہ نہیں بلکہ ایک چھوٹا قدیمی بلیک ہول ہوسکتا ہے۔

سابقہ تخمینہ جات کے مطابق، ہمارے نظامِ شمسی کے بیرونی اور نامعلوم سیارے کی کمیت ہماری زمین سے 5 تا 15 گنا زیادہ ہوسکتی ہے جبکہ سورج سے اس کا فاصلہ 45 ارب کلومیٹر سے 150 ارب کلومیٹر تک ہوسکتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ صرف محتاط اندازے ہیں جو غلط بھی ہوسکتے ہیں۔

شولٹز اور انوِن بھی اسی بارے میں دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ نظامِ شمسی کی بیرونی انتہاؤں پر کوئی چھوٹا اور بہت ہی قدیم بلیک ہول نہ صرف موجود ہوسکتا ہے بلکہ ہمارے پاس اسے دریافت کرنے کا ایک ممکنہ طریقہ بھی ہے۔

سائنس دانوں نے حساب لگایا ہے کہ اگر کوئی بلیک ہول بہت چھوٹا یعنی چند سیاروں جتنی کمیت رکھنے والا ہو، تو وہ تاریک مادّے (اور تاریک ضد مادّے) کے غلاف میں لپٹا ہوگا، جو تقریباً ایک ارب میل دوری تک پھیلا ہوگا۔ اس غلاف کے اندر تاریک مادّے کے ذرّات اپنے ہی ضد ذرّات سے ٹکرا کر فنا ہوجائیں گے، یعنی زبردست توانائی میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اس کے نتیجے میں ایسی گیما شعاعیں خارج ہوں گی جو ہمارے لیے قابلِ مشاہدہ ہونی چاہئیں۔

اگر ایسا کوئی چھوٹا بلیک ہول ہمارے نظامِ شمسی کے بیرونی کناروں پر موجود ہے تو وہ بھی اسی طرح سے دریافت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کام ’’فرمی گیما رے اسپیس ٹیلی اسکوپ‘‘ سے لیا جاسکتا ہے جو 2008ء سے زمین کے گرد مدار میں گردش کررہی ہے اور ہمیں کائنات کے مختلف گوشوں سے آنے والی گیما شعاعوں سے مطلع کررہی ہے۔

البتہ، اپنی موجودہ کیفیت میں شولٹز اور انوِن کے خیالات کو صرف مفروضہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے جو اگلے مرحلے پر مشاہدات سے غلط یا صحیح ثابت ہوسکتا ہے۔

جب تک ہمارے پاس نظامِ شمسی کے بیرونی علاقوں سے گیما شعاعوں کے مکمل مشاہدات جمع نہیں ہوجاتے، تب تک اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ یعنی ہمارے پاس انتظار کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔