- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
کاغذی کتابوں سے والدین اور بچوں میں تعلق بہتر ہوتا ہے، تحقیق
مشی گن: جو والدین اپنے بچوں کو ای بُکس میں سے کہانیاں پڑھ کر سناتے ہیں، ان کا اپنے بچوں کے ساتھ تعلق کمزور پڑ جاتا ہے جبکہ اپنے بچوں کو کاغذی کتابوں میں سے کہانیاں پڑھ کر سنانے والے والدین کا اپنے بچوں سے تعلق مضبوط ہوجاتا ہے۔
یہ کوئی دقیانوسی بات نہیں بلکہ یونیورسٹی آف مشی گن سے منسلک ’’سی ایس ماٹ چلڈرنز ہاسپٹل‘‘ میں بچوں کی کرداری نشوونما پر کی گئی ایک تازہ تحقیق کا خلاصہ ہے جس کی سربراہ ڈاکٹر ٹفنی موزنر تھیں۔
اس تحقیق میں 37 والدین کو ان کے چھوٹے بچوں سمیت شریک کیا گیا۔ والدین کی اوسط عمر 33 سال تھی جبکہ ان میں 30 خواتین تھیں۔ بچوں کی اوسط عمریں 29 ماہ (سوا دو سال سے کچھ زیادہ) تھیں جبکہ ان میں 21 لڑکے اور 16 لڑکیاں شامل تھیں۔
مطالعے کی غرض سے ہر بچے کو اس کی والد یا والدہ کے ساتھ ایک پرسکون کمرے میں بٹھایا گیا، جہاں یا تو چھوٹے بچوں کے لیے کہانیوں کی کتاب (کاغذ پر چھپی ہوئی) موجود ہوتی یا پھر وہی کتاب ایک ٹیبلٹ پر ’ای بُک‘ کی شکل میں وہاں رکھ دی جاتی۔ والدین کو آزادی تھی کہ وہ بیٹھ کر جس طرح سے چاہیں، اپنے بچے کو یہ کہانی سنائیں۔
چھ ماہ تک مختلف تراتیب میں جاری رہنے والے اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ جب والدین نے کاغذی کتابوں سے اپنے بچوں کو کہانیاں پڑھ کر سنائیں تو ان دونوں میں پیار، محبت اور شراکت داری کا واضح مشاہدہ ہوا۔ مطلب یہ کہ بچے نے والدہ کی گود میں یا والد کے زانو پر سر رکھ کر کہانی سنی جبکہ اس دوران والد یا والدہ اس کتاب میں بنی ہوئی تصویریں دکھانے کے لیے بچے کا ہاتھ بھی تھامتے رہے۔
اس کے برعکس ٹیبلٹ پر ای بُکس سے کہانیاں پڑھتے دوران بچوں اور والدین میں کھینچا تانی کی کیفیت نمایاں رہی۔ مثلاً اگر بچے کو ای بُک میں نظر آنے والی تصویر دیکھنا ہوتی تو وہ اپنی ماں یا باپ سے ٹیبلٹ چھیننے کی کوشش کرتا؛ اور اگر ٹیبلٹ اسے نہ ملتا تو وہ رونے اور ضد کرنے لگتا۔ اسی طرح جتنی دیر تک بچے کے ہاتھ میں ٹیبلٹ رہتا، اتنی دیر تک والد یا والدہ اس قابل ہی نہیں رہتے کہ کہانی سنا سکیں۔ اس بنا پر ان میں جھلاہٹ نمایاں ہوجاتی۔
اپنی اس تحقیق کے بارے میں بتاتے ہوئے ٹفنی موزنر کہتی ہیں کہ اس سے کم از کم بچوں کی کہانیوں کی حد تک یہ ثابت ہوگیا ہے کہ کاغذی کتابوں کی افادیت نہ صرف ای بکس سے زیادہ ہے بلکہ یہ بچے کا تعلق اپنے والدین سے مضبوط بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
امید ہے کہ جدیدیت سے مرعوب والدین اس بارے میں اپنے بچوں کی خاطر ضرور پڑھیں گے۔ اس تحقیق کی تفصیلات ’’جاما پیڈیاٹرکس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔