’’اس سے تو بہتر تھا میچ نہ ہی کرواتے‘‘

اویس حفیظ  پير 14 اکتوبر 2019
میچز کے دوران سیکیورٹی سے عوام پریشان رہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میچز کے دوران سیکیورٹی سے عوام پریشان رہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’اس سے تو بہتر تھا کہ میچ نہ ہی کرواتے‘‘۔ یہ وہ جملہ ہے جو کرکٹ میچز کے باعث شہر بند ہونے پر ہر دوسرے شخص سے سننے کو ملا۔ لاہور میں تو محض ٹی ٹوئنٹی میچز کا انعقاد کیا گیا تھا، مگر چار پانچ گھنٹوں کے میچ کےلیے بھی آدھا آدھا دن شہر کو بند رکھا گیا۔

لبرٹی مارکیٹ، جو شہر کی پوش ترین مارکیٹس میں سے ایک ہے، تقریباً بند رہی۔ گلبرگ کے علاقے میں اسکول کالجز بھی بند رہے۔ یہی حال فیروز پور روڈ کا تھا، جو جزوی بند رہا۔ مال روڈ (شاہراہِ قائداعظم) جو لاہور کی شہ رگ سمجھی جاتی ہے، کی بندش پورے شہر کو ٹریفک جام کی صورت میں بھگتنا پڑی۔ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ کے کچھ پاسز مجھ تک بھی پہنچے، مگر پیش آنے والی مشکلات کا تصور ہی مجھے لائیو میچ دیکھنے سے باز رکھنے کےلیے کافی تھا۔ پہلے ایف سی کالج کے پاس گاڑی پارک کرنا، پھر وہاں سے شٹل سروس کے ذریعے اسٹیڈیم کے قریب پہنچنا اور آگے پیدل۔ پھر میچ کے اختتام تک اسٹیڈیم میں محصور رہنا کہ میچ کے اختتام پر ہی دروازے کھلتے اور شٹل سروس دوبارہ چلتی ہے۔ یہ ساری صورتحال میچ سے کوفت کا باعث بنتی رہی۔

یادش بخیر! پی ایس ایل سیزن ٹو کا فائنل پاکستان میں کروانے کا اعلان کیا گیا تو اپوزیشن کے ’’ممتاز‘‘ رہنما عمران خان نے کہا تھا کہ اگر اس طرح میچ کروانے ہیں تو بہتر ہے کہ نہ ہی کروائیں۔ ’’پرانے والے‘‘ عمران خان کا موقف تھا کہ اندرونِ ملک میچز کروا کر ہم دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان اب ایک پُرامن ملک ہے، مگر میچز کےلیے پورے شہر کو بند کرکے ہم دراصل یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہمیں ابھی بھی ’’سیکیورٹی تھریٹس‘‘ ہیں۔ اسی لیے 27 فروری 2017 کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے لاہور میں پاکستان سپرلیگ سیزن ٹو کا فائنل کرانے کے فیصلے کو ’’پاگل پن‘‘ قرار دیا تھا۔ بلکہ اس سے مزید ایک قدم آگے جاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’شہر میں جو حالات ہیں، ان کو مدنظر رکھتے ہوئے کرکٹ بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ اگر سارے شہر میں سیکیورٹی ہو اور فوج کی نگرانی میں پی ایس ایل کا میچ کرانا ہے، نہ کہ کوئی انٹرنیشنل میچ، تو کیا اس سے لوگوں کو پتا چلے گا کہ لاہور میں امن ہوگیا ہے؟ خدانخواستہ اگر کوئی دھماکا ہوگیا تو انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان واپس آنے کے بجائے کرکٹ اگلے دس سال تک واپس نہیں آئے گی‘‘۔

اگر ’’پرانے‘‘ عمران خان کے بیانات کو دیکھا جائے تو آج لاہور، کراچی کا ہر شہری یہی بات کررہا ہے۔ تاہم میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عمران خان نے خود برسرِ اقتدار آکر وہی کام کیوں کیا جس پر وہ ماضی میں تنقید کرتے رہے؟

اگرچہ سیکیورٹی تھریٹس پوری دنیا میں ایک حقیقت ہیں، البتہ ترقی یافتہ ممالک میں ڈیجیٹلائزیشن کے باعث ان خدشات کو کافی حد تک کم کردیا گیا ہے۔ مگر یہاں یہ حقیقت مدنظر رہنی چاہیے کہ ہم ایک ایسے ملک میں قیام پذیر ہیں جہاں کم از کم تین بار غیرملکی ٹیموں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ پہلی بار 8 مئی 2002 میں کراچی کے ایک مشہور ہوٹل کے باہر ہونے والے کار بم حملے میں اصل نشانہ تو فرانسیسی انجینئرز تھے اور 11 انجینئروں سمیت 13 افراد اس حملے میں ہلاک بھی ہوئے، مگر اسی ہوٹل میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم بھی قیام پذیر تھی۔ صرف پانچ منٹ کے فرق سے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم اس حملے میں محفوظ رہی، کیونکہ اگر یہ دھماکا پانچ منٹ بعد ہوتا تو پاکستان اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیمیں براہِ راست اس کی زد میں آسکتی تھیں۔ البتہ اس وقت کئی پاکستانی کھلاڑی ہوٹل کی لابی میں موجود تھے اور چند ملکی کھلاڑی دھماکے کے باعث بے ہوش بھی ہوگئے۔ البتہ مجموعی طور پر کھلاڑی نقصان سے محفوظ رہے۔ تاہم نیوزی لینڈ کی ٹیم ٹیسٹ سیریز کو ادھورا چھوڑ کر فوری طور پر وطن لوٹ گئی۔

اس کے بعد اگرچہ معمول کے مطابق پاکستان میں کرکٹ سیریز ہوتی رہیں، مگر کافی یقین دہانیوں کے بعد۔ اس واقعے کے چند سال بعد سب سے پہلے آسٹریلیا نے ’’ناسازگار حالات‘‘ کے باعث پاکستان آکر کرکٹ کھیلنے سے انکار کیا۔ آسڑیلیا کی ٹیم اس سے قبل بھی نائن الیون کے بعد پاکستان آنے سے انکار کرچکی تھی۔ آسٹریلیا کی دیکھا دیکھی بعض یورپی ٹیموں اور پھر بھارت نے ممبئی حملوں (2008) کو جواز بناتے ہوئے پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق پاکستان میں کرکٹ سیریز کھیلنے سے انکار کردیا اور نہ صرف یہ کہ خود انکار کیا بلکہ بنگلادیش کی ٹیم جو پاکستان آنے کےلیے رضامندی کا اظہار کرچکی تھی، پر بھی بھارت کی جانب سے پاکستان جانے سے روکنے کےلیے دبائو ڈالا جانے لگا۔ جس کے باعث اس نے بھی انکار کردیا۔

اس وقت پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی ہورہی تھی کہ پاکستان کے حالات اس قدر خراب ہیں کہ کوئی پاکستان آنے کو تیار نہیں، مگر کرکٹ بورڈ نے اپنی کاوشیں جاری رکھیں اور بالآخر سیکیورٹی کی بے شمار یقین دہانیوں کے بعد سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کو دورۂ پاکستان پر رضامند کرلیا۔ (اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا ہے)۔

دراصل سری لنکا بار بار پاکستان کی دعوت کا مثبت ردِعمل دے کر وہ قرض اتارنا چاہتا ہے جو پاکستانی فوج نے تامل باغیوں کے خلاف جنگ میں سری لنکا کی مدد کی صورت کیا تھا۔ 2009 میں سری لنکا کے دورے میں ایک ٹیسٹ میچ بخیر و عافیت کھیلا گیا۔ پھر دوسرا ٹیسٹ میچ کھیلا جارہا تھا کہ 3 مارچ 2009 کی بدقسمت صبح کا سورج نمودار ہوا، جب لاہور میں مقامی وقت کے مطابق صبح 8 بج کر 40 منٹ پر 12 نامعلوم مسلح دہشت گردوں نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے کارواں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔ اس وقت سری لنکن کرکٹ ٹیم پاکستان کرکٹ ٹیم کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کے کھیل کےلیے قذافی اسٹیڈیم جارہی تھی۔ حملہ آوروں نے بس پر ایک راکٹ فائر کیا جو خطا ہوگیا اور قریب بجلی کے کھمبے پر لگا۔ اس کے بعد حملہ آوروں نے بس کے نیچے ایک دستی بم پھینکا، جو بس کے گزرنے کے بعد پھٹا۔
بس کے ڈرائیور مہر محمد خلیل نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی صورت بس نہیں روکی۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی وہ ڈرائیونگ کرتا رہا، یہاں تک کہ بس اسٹیڈیم میں داخل ہوگئی۔ بس کے روانہ ہونے کے بعد بھی 20 منٹ تک علاقے میں شدید فائرنگ ہوتی رہی۔ بعد ازاں دہشت گرد وہاں سے فرار ہوگئے اور راکٹ لانچرز اور دستی بم وہیں چھوڑ گئے۔ ان کے چھوڑے گئے اسلحے کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ وہ کس تیاری سے آئے تھے اور ان کے ارادے کس حد تک خطرناک تھے۔ حملے کے بعد سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کو فوری طور پر اسٹیڈیم لے جایا گیا۔ جہاں سے ہنگامی طور پر پاک فضائیہ کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے انہیں وہاں سے نکالا گیا اور فوری طور پر اگلی دستیاب پرواز سے سری لنکا واپس بھیج دیا گیا۔

اس حملے میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کے کپتان مہیلا جے وردھنے، کمارا سنگاکارا اور چمندا واس سمیت 6 کھلاڑی زخمی ہوئے، تاہم پولیس کے جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر ٹیم کو محفوظ راستہ فراہم کیا، جس کے باعث 6 اہلکار اور دو عام شہری اس حملے میں شہید ہوئے۔

یہ واقعہ نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیائے کھیل کی تاریخ کا بدترین واقعہ تصور ہوتا ہے۔ سری لنکن ٹیم پر حملے کی پاکستان کو نہایت بھاری قیمت چکانا پڑی اور پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے۔

اس کے بعد کافی کوششیں کی گئیں کہ کسی طرح پاکستان میں انٹرنیشنل سطح پر کرکٹ کا انعقاد کروایا جائے مگر کامیابی نہ ہوسکی، جس پر متحدہ عرب امارات کو پاکستان کو ہوم گراؤنڈ قرار دے دیا گیا اور تمام سیریز وہاں ہونے لگیں۔ 6 سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہونے کی ایک امید تب پیدا ہوئی جب مئی 2015 میں بورڈ حکام بالآخر زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان میں تین روزہ میچوں کی سیریز کھیلنے کےلیے پاکستان آنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی سیریز کے دوران تیسرا حملہ ہوا۔

29 مئی 2015 کو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں زمبابوے اور پاکستان کے درمیان تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کا دوسرا ون ڈے جاری تھا کہ اسٹیڈیم میں ایک دھماکے کی آواز سنی گئی۔ تماشائیوں میں اضطراب کی لہر ابھری، تاہم انتظامیہ اور پولیس نے فوری طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ ’’یہ ٹرانسفارمر پھٹنے کی آواز ہے‘‘۔ میڈیا کو بھی سختی سے اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوریج سے منع کردیا گیا۔ میچ کے مکمل ہوجانے کے بعد آہستہ آہستہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ حملہ آور نے اسٹیڈیم کے قریب فیروزپور روڈ پر پولیس کے روکنے پر اپنے آپ کو اڑا لیا تھا۔ حملہ آور کے علاوہ ایک پولیس اہلکار اور ایک شہری بھی اس حملے میں جان کی بازی ہار گئے۔

اگر سخت ترین سیکیورٹی انتظامات نہ کیے جاتے تو یقیناً غیرملکی ٹیم کو نقصان پہنچ سکتا تھا، یا کم از کم ٹیم کو ہراساں ضرور کیا جاسکتا تھا۔ البتہ نہ صرف یہ میچ مکمل ہوا بلکہ شیڈول کے مطابق تیسرا ایک روزہ میچ بھی مزید سخت سیکیورٹی میں کھیلا گیا اور میچ کے فوراً بعد ٹیم کو ایئرپورٹ پہنچادیا گیا۔

غیر ملکی کرکٹ ٹیموں پر تین بار حملہ ہونے کے باوجود آج بھی شائقین ملک میں کرکٹ دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں سیکیورٹی وغیرہ کے جھنجھٹ میں نہ پڑنا پڑے۔ ویسے تو اس حوالے سے کافی انتظامات ہوسکتے ہیں تاہم ایک حل ہمارے پاس بھی ہے۔ اگرچہ یہ تھوڑا طویل اور مہنگا، مگر دیرپا ہے۔

ہمیں اب بڑے شہروں کے بجائے چھوٹے شہروں میں کھیلوں کے انٹرنیشنل میدان بنانے چاہئیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پنجاب کی زیادہ تر آبادی لاہور اور سندھ کی قریباً نصف آبادی کراچی میں مقیم ہے۔ اگر چھوٹے شہروں کو سیکیورٹی کے نام پر بند بھی کردیا جائے تب بھی ملکی معیشت کو اتنا نقصان نہیں پہنچے گا جتنا لاہور یا کراچی کو بند کرنے سے پہنچتا ہے۔ بڑے شہر چونکہ بے ہنگم آبادی کے باعث پھیلتے چلے جارہے ہیں، اس وجہ سے شہر سے باہر بنائے جانے والے کرکٹ گراؤنڈز اب شہر کے ’’وسط‘‘ میں آگئے ہیں۔ اس وجہ سے بھی عوام کو زیادہ مسائل جھیلنا پڑتے ہیں۔ چھوٹے شہروں میں اگر مناسب پلاننگ کے ساتھ شہر سے باہر کرکٹ گراؤنڈز تعمیر کیے جائیں تو سیکیورٹی کے کم سے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر انٹرنیشنل میچز کی صورت میں ان شہروں کی معیشت کو بھی سہارا ملے گا اور میچوں کی صورت میں شہروں میں ایک میلا سا لگا رہے گا۔ اس کے علاوہ فائیو اسٹار ہوٹلز بھی اسٹیڈیمز کے قریب تعمیر کیے جانے چاہئیں، جہاں غیرملکی کھلاڑیوں کو ٹھہرانے کا بندوبست کیا جائے۔ موجودہ سسٹم میں ٹیم کو ٹھہرایا شہر کے ایک کونے میں جاتا ہے اور میچ کےلیے دوسرے کونے لے جایا جاتا ہے اور اس دوران پورا شہر بند ہوکر رہ جاتا ہے۔ جس سے شہریوں کو دُہرا تہرا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔

ملک میں انٹرنیشنل میچز کا انعقاد ضرور کریں مگر سیکیورٹی کے نام پر عوام کو ذلیل نہ کریں۔ کھیلوں کا واحد مقصد تفریح ہوتا ہے، انہیں سر پر ایسے سوار نہیں کرلینا چاہیے کہ عوام کو ہی مشکلات میں ڈال دیا جائے اور لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ ’’اس سے تو بہتر تھا کہ میچ نہ ہی کرواتے‘‘۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔