اسلام آباد انتظامیہ کو آزادی مارچ سے متعلق فیصلہ کرنے کا حکم

ویب ڈیسک  بدھ 16 اکتوبر 2019
احتجاج کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس اطہر من اللہ فوٹو:فائل

احتجاج کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس اطہر من اللہ فوٹو:فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور دھرنے کے خلاف درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے مقامی انتظامیہ کو اس معاملے کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور دھرنے کے خلاف مقامی وکیل کی درخواست سمیت دیگر درخواستوں کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس درخواست میں آپ کی استدعا کیا ہے ؟ جس پر درخواست گزار نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے جس پر پابندی لگائی جائے۔

عدالت نے وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ حکومت کی طرف سے پیش ہوئے ہیں؟۔ وکیل نے جواب دیا کہ میں عام شہری کے طورپرپیش ہوا ہوں۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل سے لگ رہاہے آپ حکومت کی طرف سے پیش ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کو احتجاج کا حق حاصل نہیں، احتجاج کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا، دنیا بھر میں کوئی عدالت احتجاج کے حق کو ختم نہیں کرسکتی، شہریوں کو پالیسی کے خلاف احتجاج کا حق ہوتا ہے جمہوری حکومت کے خلاف نہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے آزادی مارچ کیخلاف درخواستیں نمٹاتے ہوئے مقامی انتظامیہ کو معاملہ دیکھنے کا حکم دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ اسلام آباد انتظامیہ دھرنے کی اجازت سے متعلق درخواست کو قانون کے مطابق نمٹائے، انتظامیہ احتجاج کرنے والوں اور نہ کرنے والوں دونوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دھرنے والوں نے چیف کمشنر سے رجوع کیا ہے لہذا انتظامیہ کو اس پر فیصلہ کرنے دیں، پی ٹی آئی کو 2014 میں اسی عدالت نے احتجاج کی اجازت دی، تب بھی انتظامیہ کو کہا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کے حقوق کو یقینی بنائیں، مقامی انتظامیہ اس بار دھرنے کی درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالتی فیصلے مدنظر رکھے۔

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔