- نادرا کی نئی سہولت؛ شہری ڈاک خانوں سے بھی شناختی کارڈ بنوا سکیں گے
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمت مسلسل دوسرے روز کم
- کراچی سے پشاور جانے والی عوام ایکسپریس حادثے کا شکار
- بھارتی فوج کی گاڑی نے مسافر بس اور کار کو کچل دیا؛ 2 ہلاک اور 15 زخمی
- کراچی میں 7سالہ معصوم بچی سے جنسی زیادتی
- نیب ترامیم کیس؛ عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیشی کی اجازت
- کوئٹہ؛ لوڈشیڈنگ کیخلاف بلوچستان اسمبلی کے باہر احتجاج 6 روز سے جاری
- حکومت کو نان فائلرز کی فون سمز بلاک کرنے سے روکنے کا حکم
- آئی ایم ایف کا پاکستان کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں خرابیوں پر اظہارتشویش
- کراچی یونیورسٹی میں فلسطین سے اظہار یکجہتی؛ وائس چانسلر نے مہم کا آغاز کردیا
- کراچی میں شدید گرمی کے دوران 12، 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ، شہری بلبلا اٹھے
- کم عمر لڑکی کی شادی کرانے پر نکاح خواں کیخلاف کارروائی کا حکم
- جنوبی وزیرستان؛ گھر میں دھماکے سے خواتین سمیت 5 افراد جاں بحق
- آزاد کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا احتجاج ختم کرنے کا اعلان
- جوسز پر فیڈرل ایکسائز ٹیکس؛ خسارے کا سودا
- وزیراعظم کا اسٹریٹیجک اداروں کے سوا تمام ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا اعلان
- طبی آلات کی چارجنگ، خطرات اور احتیاطی تدابیر
- 16 سال سے بغیر کچھ کھائے پیے زندہ رہنے والی خاتون
- واٹس ایپ صارفین کو نئی جعلسازی سے خبردار رہنے کی ہدایت
- ممبئی میں مٹی کا طوفان، 100 فٹ لمبا بل بورڈ گرنے سے 14 افراد ہلاک
شدید ترین سمندری طوفانوں میں 3 گنا اضافہ ہوچکا، ماہرین
کوپن ہیگن: ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران شدید طوفانوں کی تعداد میں 3 گنا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ ان کی رفتار بھی ہلکی ہوچکی ہے جس کی وجہ سے وہ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ تباہی پھیلا رہے ہیں۔
اگرچہ یہ تحقیق صرف امریکا میں پچھلے 100 سال کے دوران آنے والے طوفانوں کے بارے میں ہے لیکن اس سے دنیا بھر میں ماحول کی بدلتی صورتِ حال اور متوقع نتائج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
حالیہ دو عشروں میں دو بڑے سمندری طوفانوں سے امریکا میں بدترین تباہی پھیل چکی ہے: 2005ء میں سمندری طوفان ’’کترینا‘‘ نے امریکی معیشت کو 161 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا جبکہ 2017ء کے ’’ہاروے‘‘ سے ہونے والا مالی نقصان 125 ارب ڈالر تھا۔
اب تک طوفانوں سے ہونے والی تباہی کی پیمائش کا واضح پیمانہ نہیں تھا، لیکن یونیورسٹی آف کوپن ہیگن، ڈنمارک کے ایسلاک گرنسٹیڈ اور ان کے ساتھیوں نے ایک نیا پیمانہ متعارف کروایا ہے جسے ’’تباہی کا مجموعی رقبہ‘‘ (ایریا آف ٹوٹل ڈسٹرکشن، یا ATD) کا عنوان دیا گیا ہے، جس کے تحت کسی بھی طوفان کی شدت یا ہواؤں کی رفتار کے بجائے خشکی پر اس کے پھیلاؤ، دورانیے اور اس سے تباہ شدہ رقبے کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
جب اس پیمانے کو بنیاد بناتے ہوئے گزشتہ سو سالہ طوفانوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں سے لے کر اکیسویں صدی کے پہلے دو عشروں تک، شدید اور زیادہ تباہ کن طوفانوں کی تعداد میں 330 فیصد (3.3 گنا) اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ ایسے طوفان ہیں جو 1200 کلومیٹر یا اس سے زیادہ رقبے پر تباہی پھیلاتے ہیں۔ کترینا اور ہاروے بھی ایسے ہی دو طوفان تھے جو صرف 12 سال کے وقفے میں آئے۔
حیرت انگیز طور پر، اس دوران طوفانوں کے آگے بڑھنے کی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی بناء پر وہ زیادہ لمبے عرصے تک ایک ہی علاقے پر مسلط رہتے ہیں اور وہاں پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تباہی پھیلاتے ہیں۔
ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس بارے میں فی الحال حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے سو سال میں سمندری سطح کے درجہ حرارت میں بھی ایک درجہ فیرن ہائیٹ کا اضافہ ہوچکا ہے جس کے باعث وہاں سے بننے والے آبی بخارات (بھاپ) کی مقدار بھی بڑھ گئی ہے۔
یہی وہ بھاپ ہے جو کسی سمندری طوفان (ہریکین) کے لیے ایندھن کا کام کرتی ہے۔ ہوا میں بخارات جتنے زیادہ ہوں گے، طوفان بھی اسی قدر شدید بنے گا؛ جبکہ ساحل سے ٹکرا کر وہ زیادہ تباہی پھیلائے گا تاہم یہ نکتہ ابھی تک ایک مفروضے کی شکل میں ہے جسے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس تحقیق کی تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ’’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے کچھ تحقیقات میں ماہرین یہ کہہ چکے ہیں کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ’’ایل نینو‘‘ کی شدت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور اب وہ ’’سپر ایل نینو‘‘ میں بدلتی جارہی ہے جس سے عالمی تباہی کا خدشہ بھی ہے۔
بادی النظر میں اس تحقیق کا مطلب یہی نظر آتا ہے کہ آنے والے برسوں میں شدید طوفانوں کی تعداد اور ان سے پھیلنے والی تباہی، دونوں میں اضافہ ہوگا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔