خواتین پرتشدد کے خاتمے کیلئے معاشرتی رویے تبدیل کرنا ہونگے!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 25 نومبر 2019
’’حکومت اور سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین ‘‘ کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

’’حکومت اور سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین ‘‘ کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

25 نومبر کو دنیا بھر میں ’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے جس کا مقصد معاشرے میں خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم اور امتیازی سلوک کا خاتمہ کرنا ہے۔

حکومت پاکستان نے اس حوالے سے موثر قانون سازی کی اور ادارے بھی قائم کیے ہیں تاہم ابھی بھی تشدد کے افسوسناک واقعات رونما ہیں۔ اس عالمی دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خواتین کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا  گیاجس میں حکومت و سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا ۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

بیگم آشفہ ریاض

(صوبائی وزیر برائے وویمن ڈویلپمنٹ پنجاب)

خواتین کے مسائل کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو دنیا بھر میں انہیں بے شمار چیلنجز درپیش ہیں جن کے حل کیلئے حکومتیں کام کر رہی ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لائی جائے۔ میرے نزدیک معاشرتی تبدیلی کیلئے ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ حکومت، ادارے، این جی اوز یا کوئی شخص اکیلئے مسائل حل نہیں کر سکتا بلکہ ہم سب کو مل کر ایک سمت میں کام کرنا ہوگا۔ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے اسمبلیوں نے موثر قانون سازی کی ہے مگراس پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے لہذا عملدرآمد قانون ساز اداروں نے کروانا ہے جن کی تربیت کی ضرورت ہے۔

ہم پولیس ٹریننگ سینٹرز میں جینڈر کے حوالے سے ٹریننگ دے رہے ہیں پہلے کوئی بھی خاتون ہراسمنٹ پر بات نہیں کرتی تھی مگر میڈیا، سوشل میڈیا، حکومت و این جی اوز کی وجہ سے لوگوں کو آگاہی ملی ہے اور اب خواتین اس پر بات کرتی ہیں۔ شہری و دیہی علاقوں میں خواتین استحصال کا شکار ہیں۔ انہیں وراثت میں حق دینے کیلئے اچھے خاندان بھی تیار نہیں ہوتے جو افسوسناک ہے۔ ہم نے خواتین کے حوالے سے فرسودہ سوچ اوررکاوٹوں کا خاتمہ کرنا ہے۔تعلیمی نصاب میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے مضامین شامل کرنے پر کام جاری ہے جبکہ اساتذہ کی ٹریننگ میں بھی جینڈر سٹڈیز کو شامل کیا جائے گا ۔

خواتین کے لیے پہلی مرتبہ شناختی کارڈ بنوانے کی کوئی فیس نہیں ہے جبکہ بچیوں کی پیدائش کا اندراج بھی مفت ہے۔ نادرا کی موبائل ٹیمیں شناختی کارڈ بنانے کیلئے علاقوں میں جاتی ہیں مگر لوگ اپنی بچیوں کے شناختی کارڈ نہیں بنواتے اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں وہ پسند کی شادی نہ کرلیں اور اگر کر بھی لیں تو انہیں کم عمر ثابت کیا جاسکے۔ یہ معاشرتی مسائل ہیں جن کے لیے رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو تعلیم اور آگاہی سے ہی ممکن ہے۔ محکمہ صحت خواتین کے حوالے سے بہت زیادہ کام کر رہا ہے۔ اب ’بی ایچ یوز‘ میں ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی کثیر تعداد موجود ہے۔

بلدیاتی اداروں کو پہلے سے بہتر بنایا جا رہا ہے۔ آئندہ برس بلدیاتی انتخابات ہوں گے جس میںنوجوانوں اور خواتین کی نشستیں موجود ہیں جبکہ ویلیج اور پنچائت سسٹم میں بھی خواتین کی نمائندگی یقینی بنائی گئی ہے اور ایسا پہلی مرتبہ ہوگا۔جس سے خواتین کے مسائل مقامی سطح پر حل کرنے میں مدد مل گی۔ماضی کے ڈراموں میں ادب، ثقافت اور پیغام ہوتا تھا  مگر آج کے ڈرامے المیہ ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلے اساتذہ اور والدین رول ماڈل ہوتے تھے، اب ایسا کیوں نہیں ہے؟ طلبہ کی کردار سازی کوئی مضمون نہیں ہے جسے پڑھانا ہے بلکہ اساتذہ کو طلبہ کیلئے رول ماڈل بن کر ان کی کردار سازی کرنی چاہیے۔ ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنا ہے اور دیکھنا ہے کہ جن اداروں کا جو کام ہے وہ کر رہے ہیں؟ اگر ہم اس کا 10فیصد بھی کر لیں تو بہتری لائی جاسکتی ہے۔فیملی کورٹس میں ڈومیسٹک وائلنس اور کریمینل کورٹس کے حوالے سے میری رائے ہے کہ خواتین ججز کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے۔

خواتین وکلاء کو چاہیے وہ زیادہ محنت سے امتحان دیں تاکہ وہ فیصلہ سازی میں آگے آسکیں۔ نفسیاتی تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے تاکہ خواتین کی آواز کو دبایا جاسکے ۔ بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں برتنی چاہیے بلکہ انہیں متاثرہ شخص کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے اور اسے سپورٹ کرنا چاہیے۔ سفارشی کلچر کی وجہ سے بھی مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں، سفارش مظلوم اور بے گناہ کی کریں، اس کے ساتھ کھڑے ہوں لیکن مجرم کا ساتھ نہ دیں۔ ہمیں سوشل جسٹس کی طرف جانا چاہیے۔ علماء کرام کا کردار انتہائی اہم ہے۔ انہیں خواتین کے مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نبی پاکﷺ کی سیرت طیبہ ہماری رہنمائی کرتی ہے۔

حضرت فاطمہؓ جب تشریف لاتی تھیں تو نبیﷺ اپنی چادر بچھا دیتے تھے۔ اسلام نے عورت کو بہت مرتبہ دیا مگر آج 1400برس بعد ہم اپنی خواتین کو کیا مقام دے رہے ہیں؟ اسلام خواتین کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے اور مرد کو سکھاتا ہے کہ نگاہیں نیچی رکھو۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ان تعلیمات پر عمل کیوں نہیں کر رہا؟ معاشرے کی کردار سازی کیلئے علماء کرام کو آگے آنا چاہیے۔ گھر میں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کا احترام نہیںہوگا تو یہ کس طرح تصور کیا جا سکتا ہے کہ معاشرے میں خواتین کو ان کے حقوق ملیں گے؟ ہم نے نکاح خوانوں کو تربیت فراہم کی ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے۔

خواتین کو بھی علم نہیں تھا کہ انہیں نکاح نامے میں کیا حقوق حاصل ہیں۔ پاکستان نے سیڈا اور پائیدار ترقی کے اہداف میں یہ طے کیا ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 برس مقرر کی جائے گی ۔ سندھ کے علاوہ کسی بھی صوبے میں ایسا نہیں ہوسکا۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے خواتین کوصحت و دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کے بیشتر کی زندگی بھی چلی جاتی ہے لہٰذا اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ لوگ 14 برس اور اس سے بھی کم عمر لڑکیوں کی شادی کر رہے ہیں، اسی طرح کم عمر لڑکوں کی بھی شادی کی جاتی ہے جو افسوسناک ہے۔ لڑکے اور لڑکی کی شادی کیلئے شناختی کارڈ لازمی قرار دے رہے ہیں تاکہ کم عمری کی شادیوں کو روکا جاسکے۔

وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹرز سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے زیر انتظام ہیں۔ میرے نزدیک نئے سینٹرز بنانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تھانوں میں ہی ایک خصوصی کمرہ بنا دیا جائے جہاں وکیل اورکمیونٹی سے ایک معتبر خاتون موجود ہو۔ اگرکسی متاثرہ خاتون کو شیلٹر چاہیے ہوگا تو اسے دارالامان بھیجا جا سکتا ہے۔

اگر صحت کی سہولت چاہیے یا میڈیکل سرٹفکیٹ بنانا ہے تو وہ بھی وہاں سے مل سکتا ہے۔ وہاڑی کے پولیس سٹیشن میں یہ چیز موجود ہے۔ میرے نزدیک ہر تھانے میں نائب محرر خاتون ہونی چاہیے جو صرف خواتین کے مسائل سنے۔ اس حوالے سے آئی جی پنجاب کے ساتھ بات چیت کروں گی۔ خواتین کے حوالے سے 85 اصلاحات لائی گئی ہیں لیکن خواتین کو علم نہیں ہے۔ ان کی تشہیر کے حوالے سے میکانزم بنا رہے ہیں تاکہ انہیں آگاہی دی جاسکے۔ کشمیر میں خواتین پر تشدد ہورہا ہے اور انہیں تمام انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے، اس عالمی دن کے موقع پر ہم پوری دنیا اور عالمی اداروں کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ وہ اس کا نوٹس لیں، بھارتی حکومت کی مذمت کریں اور کشمیری خواتین سے اظہار یکجہتی کریں۔

نبیلہ شاہین

(نمائندہ عورت فاؤنڈیشن)

خواتین کی حوالے سے اقدامات کے باوجود مسائل ابھی بھی موجود ہیں۔ جائیداد میں خواتین کے حقوق کا جائزہ لیں تو صورتحال تشویشناک ہے۔ اسی طرح خواتین ثقافتی رکاوٹوں کا بھی شکار ہیں۔ وہ ملازمت کے ذریعے معاشی دھارے میں تو شامل ہوئی ہیں مگر ان کیلئے معاشرے میں ابھی بھی بے شمار چیلنجز ہیں۔ وہ پیسہ کما کر معاملات زندگی تو چلا رہی ہیں مگر جب جائیداد بنانے کا موقع ملتا ہے تو وہ والد، بھائی یا گھر کے کسی اور مرد کے نام پر بنتی ہے۔ پنجاب کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 31 فیصد خواتین  جائیداد کی وارث ہیں۔ لینڈ ریونیو ایکٹ بہت بڑا قدام تھا کہ خواتین کو وراثتی حق کے حصول میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔

خواتین جو وراثتی جائیداد میں حصہ لینا چاہتی ہیں ان کیلئے سٹیمپ ڈیوٹی 500 روپے کر دی گئی جبکہ کلیٹر کو 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ اگر تقسیم جائیداد کا دعویٰ کیا گیا ہے تو اس معاملے کو 30 دن میں نمٹانا ہوتا ہے۔ حکومت نے اچھی قانون سازی کی، عملدرآمد کے نوٹیفکیشن جاری کیے مگر خواتین ان سے لاعلم ہیں۔ حکومتی نوٹفکیشن کے ساتھ یہ ہدایت جاری کی جاتی ہے کہ اسے صارفین کی آگاہی کیلئے آویزاں کریں مگر محکمانہ غلط سوچ کی وجہ سے انہیں چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ ووٹ رجسٹریشن میں کافی کام ہوا ہے مگر آج بھی خواتین کی ووٹ رجسٹریشن 41 فیصد ہے حالانکہ خواتین آبادی کا نصف سے زائد حصہ ہیں۔

بچیوں کی پیدائش کے اندراج کیلئے رجسٹریشن فیس ختم کر دی گئی مگر آج بھی ان سے فیس لی جارہی ہے، سوال یہ ہے کہ وہ فیس کہا جا رہی ہے؟اس سے پوری کمیونٹی متاثر ہورہی ہے۔ لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی رجسٹریشن کم ہے جو ایک خاص سوچ کی وجہ سے ہے۔ اسمبلیوں کا جائزہ لیں تو خواتین وزراء اور پارلیمانی کمیٹیوں کی خواتین سربراہان کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اسمبلیوں اور فیصلہ ساز عہدوں پر خواتین کو لانے کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے۔خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے ایک سال مکمل توجہ دیں اور عملی اقدامات کریں کہ کس طرح انہیںا ٓگے لانا ہے، ان کے معاشی حقوق کو کیسے تحفظ دینا ہے اور ان کے مسائل کیسے حل کرنے ہیں۔

آگے بڑھنے کیلئے خواتین کو برابر مواقع بھی فراہم کریں اور کوٹہ بھی مختص کریں اور اس کے ساتھ ساتھ مانیٹرنگ و عملدرآمد سختی سے کیا جائے۔ پنجاب کمیشن، یو این ڈی پی و دیگر اداروں کے سروے موجود ہیں، اس ڈیٹا کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جاسکتا ہے۔ ووٹ ڈالنے کے حوالے سے قانون پر آج بھی سختی سے عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ۔

ایک دو اضلاع میں خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے پر الیکشن کالعدم قرار دیا گیا مگر آج بھی پنجاب میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں خواتین ووٹ کاسٹ نہیں کرتی۔ایسے میں خاتون کا بطور امیدوار کھڑا ہونا انتہائی مشکل ہے۔ دیہاتوں میں خواتین ورک فورس زیادہ ہے مگر ان کی اجرت کم اور اوقات کار زیادہ ہیں۔ انہیں برابر تنخواہ، 8 گھنٹے کام ، صحت ، محفوظ ٹرانسپورٹ و دیگر سہولیات ملنی چاہئیں۔ شہری علاقوں میں رہنے والی خواتین کیلئے پنجاب میں ورکنگ وویمن ہاسٹلز کے قیام کا بہترین قدم اٹھایا گیا۔ ان ہاسٹلز کی اتھارٹیز کیسے کام کر رہی ہیں اور یہ ہاسٹل کتنے محفوظ ہیں اس کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ حکومت کے 100 روزہ پلان میں جینڈر کے حوالے سے بہت ساری چیزیں نہیں ہیں۔

اس سال ’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر وویمن رائٹس کاایجنڈا طے کر لیا جائے کہ اگلے عالمی دن تک ہم نے یہ اہداف حاصل کرنے ہیں۔ اسی طرح پائیدار ترقی کے اہداف ہیں جن میں ہدف نمبر 5اور 8 شامل ہیں، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ان پر کتنا کام ہوا ہے، کیا ہم 2030ء تک انہیں حاصل کر لیں گے؟مردوں کی نسبت خواتین کی صحت کے مسائل زیادہ ہیں، سوال یہ ہے کہ ان کیلئے کتنا بجٹ مختص کیا گیا اور جو بجٹ استعمال نہیں ہورہا اس کی کیا وجوہات ہیں؟

اس کے علاوہ ’بی ایچ یو‘ کے کیا حالات ہیں؟وہاں موجود لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ریفریشر کورسز باقاعدگی سے ہورہے ہیں؟ وہاں ڈاکٹرز کی کیا صورتحال ہے؟خواتین کے حقوق کے حوالے سے کافی کام ہوا ہے مگر انہیں آگاہی نہیں ہے۔ہمیں کمیونٹی لیڈرشپ کی طرف جانا چاہیے اور ایسا اس وقت ہی ممکن ہوگا جب آپ ملک کی نصف آبادی’خواتین‘ کو ان کے حقوق دیں گے۔

آئمہ محمود

( مرکزی جنرل سیکرٹر ی آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن )

25 نومبر خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین پر تشدد کا مسئلہ صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے۔ بدقسمتی سے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا شکار ہر طبقہ اور عمر کی خاتون ہے۔ جب یہ مسئلہ اتنا سنگین ہے تو اس لحاظ سے ہمارا پلان آف ایکشن بھی انتہائی مضبوط ہونا چاہیے تاکہ نصف آبادی کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔

حکومت نے بے شمار عالمی معاہدے  کر رکھے ہیں جن کے مطابق خواتین کے استحصال کا خاتمہ کرنا ہے۔ سیڈا کے تحت ہم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ موثر قانون سازی کریں گے تاکہ خواتین کے خلاف تشدد نہ ہو۔ ہم نے پائیدار ترقی کے اہداف پر کام کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

جی ایس پی پلس میں بھی ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ورکنگ وویمن کو سازگار و محفوظ ماحول فراہم کریں گے۔ جب ہم خواتین پر تشدد کی بات کرتے ہیں تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ اس سے صرف خواتین ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ معاشرہ ،ملک اور دنیا متاثر ہوتی ہے۔خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے عالمی کمٹمنٹ پوری نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قانون سازی تو کی ہے مگر ڈومیسٹک وائلنس کے حوالے سے موثر قانون سازی نہیں ہوسکی اور ایسا ’سیاسی وِل‘ میں کمی کی وجہ سے ہوا ہے ۔ پاکستان میں 95 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل بڑا مسئلہ ہے، حکومت نے اسے قتل قرار دیا مگر عورت کے گھر والے معاف کر دیتے ہیں اور مجرم سزا سے بچ جاتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ریاست کے خلاف جرم قرار دیا جائے اور اس میں قصاص اور دیت کا قانون نافذ نہ ہو۔ ایسا کرنے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں غربت میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے جس کا اثر خواتین پر پڑ رہا ہے۔ غذائی قلت، دوہری ذمہ داریاں اور مردوں کی فرسٹیشن تشدد کی صورت میں خواتین کو ہی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ اس وقت کروڑوں لڑکیاں سکول سے باہر ہیں مگر ان کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے کہ انہیں کس طرح تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ شہروں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، لوگ ملازمت کے حصول کیلئے یہاں آرہے ہیں۔

خواتین اپنے گھر سے دور ہونے کی وجہ سے تشدد کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ اسی طرح فیکٹریوں و کام کی جگہ پر خواتین تشدد کا شکار ہیں جس میں ذہنی و جسمانی تشدد شامل ہے۔ میرے نزدیک تشدد کے خاتمے کیلئے حکومت کو زیادہ وسائل کی نہیں بلکہ بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت نے سب سے پہلے بلدیاتی ادارے ختم کیے جو کمیونٹی کی سطح پر لوگوں کو مضبوط بنانے اور آگاہی دینے کا موثر ذریعہ تھے۔ ہراسمنٹ ایکٹ 2010ء میں منظور ہو مگر ابھی تک حکومتی اداروں میں اس کی کمیٹیاں نہیں بنائی جاسکی۔ ڈراموں میں خواتین پر تشدد دکھایاجا رہا ہے، اس پر متعلقہ اداروں کو سخت نوٹس لینا چاہیے کیونکہ اس کے معاشرے پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ بے شمار ممالک کے جی ڈی پی کا 3.7 فیصد تشدد کے مسائل کے حل میں خرچ ہورہا ہے۔ اگر لوگوں کو آگاہی دی جائے، قانون پر عملدرآمد اور عدالتی نظام موثر بنایا جائے تو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے حال ہی میں عدالتی نظام کو بہتر کرنے او ر وسائل فراہم کرنے کی بات کی ۔

اگر وہ چھوٹے، بڑے چور کے بنانیے کو چھوڑ کر صرف خواتین کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری لے لیں تو ملک کے نصف مسائل حل ہوجائیں گے۔ خواتین مضبوط ہونگی تو چوری اور لوٹ مار ختم ہوجائے گی۔ یہ درست ہے کہ حکومت کے پاس وسائل کم ہیں مگر اگر کمٹمنٹ اور منصوبہ بندی ہو تو نصاب میں تبدیلی ، لڑکیوں کو تعلیم کی فراہمی، مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنا کر، مخصوص نشستوں پر خواتین کی تقرری یقینی بنا کر اور صحت کی سہولیات فراہم کرکے خواتین کی حالت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ اگر یہ کرلیا جائے تو آنے والی نسلیں حکومت کو اچھے الفاظ میں یاد رکھیں۔ کشمیر میں خواتین کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے اور بھارتی جرنیل نے خواتین کے ساتھ زیادتی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی جو بات کی ہے ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس عالمی دن کے موقع پران کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔

بشریٰ خالق

(نمائندہ سول سوسائٹی)

خواتین پر تشدد کے حوالے سے ہمارا قانون اور رویے ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ قانونی ڈھانچے میں تشدد کی تشریح میں صرف جسم پر نظر آنے والا زخم یا نشان ہی تشدد ہے ۔اس کے علاوہ وہ تکالیف جو بظاہر نظر نہیں آرہی ، انہیں تشدد تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ جنسی ہراسگی کی بات کریں تو اس میں گھورنا بھی ہراسمنٹ ہے اور نظر کا یہ تشدد خاتون کیلئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔

لہٰذا تشدد کو صرف ظاہری زخم تک محدود کرنے کے بجائے وسیع پیمانے پر دیکھنا چاہیے۔  قانون میں نفسیاتی، جنسی، جذباتی اور نفسیاتی تشدد کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ ان کی وجہ سے خواتین ڈپریشن کا شکار ہیں اور وہ گھر کے اندر اور باہر خوف کی فضا میں زندگی گزار رہی ہیں۔ بعض خواتین نے خود آگے بڑھ کر اس نظام میں جگہ بنائی جبکہ کچھ اداروں نے بھی خواتین کی حوصلہ افزائی کی مگر مجموعی طور پر خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر آنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ وراثت میں حق کاقانون موجود ہے مگر خواتین کو اس سے محروم رکھنے کیلئے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔

معاشرتی دباؤ کی وجہ سے بھی خواتین کو ہر شعبے کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ پسند کی شادی کو بھی یہاں بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور خواتین کو ایسا کرنے پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف نے یوتھ اور خواتین کو موبلائز کیا جو خوش آئند تھا مگر افسوس ہے کہ انہوں نے مقامی حکومتوں کا جو نظام دیا اس میں یوتھ کی نشست ختم کر دی گئی۔ افسوس ہے کہ ساڑھے 3 کروڑ نوجوان اور ملک کی نصف آبادی (خواتین) کو ان کے سیاسی حق محروم کر دیا گیا۔ ایک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ سوا کروڑ سے زائد خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے ۔انہیں جان بوجھ کر اس سے محروم رکھا جاتا ہے جس کے کے پیچھے مردانہ حاکمیت کی سوچ ہے۔

شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے خاتون تعلیم حاصل نہیں کر سکتی،وراثت میں حق نہیں لے سکتی، اکیلے سفر نہیں کر سکتی، ملازمت نہیں کر سکتی، اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتی، اور وہ مرد کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ ہماری بچیاں غیر محفوظ ماحول میں زندگی گزار ہی ہیں۔ معصوم بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا جاتا ہے جو افسوسناک ہے۔ حکومت کو خواتین کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ کرکے مسائل کا تدارک کرنا چاہیے۔ خواتین کیلئے جس طرح پہلی مرتبہ شناختی کارڈ مفت ہے اسی طرح جنسی ہراسگی کی شکایت درج کروانے کے عمل سے لے کر فیصلہ آنے اور اپیل کے حق تک سارا عمل مفت ہے۔

8 سے 10 برسوں میں خواتین کے حوالے سے موثر قانون سازی ہوئی مگر گزشتہ 2 سے 3 برسوں میں یہ کام سست روی کا شکار ہوا ہے ، ہمیں اسمبلیوں کا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ خواتین کے حقوق و تحفظ کیلئے پولیس ریفارمز انتہائی ضرروی ہیں، ہیلپ ڈیسک قائم کیے جائیں، خواتین کی شمولیت بڑھائی جائے اورپو لیس کو تربیت فراہم کی جائے۔جینڈر مین سٹریمنگ انتہائی ضروری ہے۔ اگر وویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں اس پر کام کیا جائے تو بہتری لائی جاسکتی ہے۔ سائبر ہراسمنٹ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے باعث خواتین سوشل میڈیا کے فوائد حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ خواتین کے مسائل کا حل صرف خواتین تنظیموں یا ایک محکمے کی ذمہ داری نہیں ہے، سب کو مل کر کام کرنا ہوگا ۔مذہبی رہنماؤں کو بھی خواتین پر تشدد کے خاتمے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے لوگوں کی رہنمائی کرنا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔