کیچوے کے پیٹ میں اینٹی بایوٹک کی دریافت

ویب ڈیسک  منگل 26 نومبر 2019
نیماٹوڈز کے پیٹ میں رہنے والے بیکٹیریا اس اینٹی بایوٹک کو قدرتی طور پر تیار کرتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نیماٹوڈز کے پیٹ میں رہنے والے بیکٹیریا اس اینٹی بایوٹک کو قدرتی طور پر تیار کرتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بوسٹن: جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور امریکی سائنسدانوں کی تحقیقی ٹیم نے ’’نیماٹوڈز‘‘ (ایک خاص قسم کے کیچووں) کے پیٹ میں ایک ایسا مادّہ دریافت کیا ہے جو انتہائی سخت جان بیکٹیریا کو بھی ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر اس پر مشتمل اینٹی بایوٹک دوا بنا لی جائے تو وہ دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کی جانیں بچانے کے کام آسکے گی۔

جرثوموں (بیکٹیریا) میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مسلسل بڑھتی ہوئی مزاحمت نے سائنسدانوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور وہ دن رات اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ جلد از جلد کوئی ایسی نئی اینٹی بایوٹک دوا بنا لیں جو ان سخت جان بیکٹیریا کا خاتمہ بھی کرسکے۔ ان ہی کوششوں میں وہ زمینی مٹی سے لے کر سمندر کی اتھاہ گہرائیوں تک کی خاک چھان چکے ہیں۔ یہ دریافت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اب کی بار ماہرین نے جو ممکنہ اینٹی بایوٹک دریافت کی ہے، اس کا نام ’’ڈیروبیکٹن‘‘ ہے اور یہ فوٹورہیبڈس جرثوموں میں تیار ہوتی ہے جو خود بھی مختلف قسم کے نیماٹوڈ کیچووں کے پیٹ میں پائے جاتے ہیں۔

ابتدائی تجربات میں اس اینٹی بایوٹک نے چوہوں کو ای کولائی اور نمونیا کی مختلف اقسام کے انفیکشن سے نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ اس کے کوئی ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) بھی مشاہدے میں نہیں آئے۔

تاہم، اس دوا کی اصل آزمائش انسانوں میں ہوگی جو متوقع طور پر آئندہ برس شروع ہوجائے گی۔ اس کے بعد یہ یہ فیصلہ کیا جاسکے گا کہ یہ دوا انسانوں کےلیے بھی اتنی ہی مفید ہے جتنی یہ ابتدائی آزمائشوں کے دوران چوہوں پر پائی گئی تھی۔

اس تحقیق کی تفصیلات ہفت روزہ تحقیقی مجلے ’’نیچر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔