کراچی کے مسائل کا حل

مزمل سہروردی  بدھ 27 نومبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آج عروس البلاد کراچی جن مسائل کا شکار ہے۔ وہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ کراچی کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ پی پی پی کی حکومت دس سال میں کراچی کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے ، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وسطیٰ وشمالی پنجاب نے جنوبی پنجاب کو اتنا نظر انداز نہیں کیا جتنا اندرون سندھ نے کراچی کو کیا ہے۔

آج ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کراچی اور لاہور کا موازنہ کیا جائے تو کراچی پیچھے نظر آتا ہے بلکہ میں تو کہوں گا کہ کراچی لاوارث نظر آ رہا ہے۔ حتیٰ کہ نئے پاکستان میں بھی کراچی کے لیے کچھ نیا نہیں ہے۔

کراچی پاکستان کا معاشی دارالحکومت ہے۔ ہم نے بے شک پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کر لیا ہے۔ لیکن آج بھی پاکستان کا معاشی دارالحکومت کراچی ہے۔ اسٹیٹ بینک کراچی میں ہے۔ تمام کمرشل بینکوں کے ہیڈ آفس کراچی میں ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج کا محور بھی کراچی میں ہی ہے۔ لیکن سب سے برا حال بھی کراچی کا ہی ہے۔

سندھ کی طاقتور سیاسی قیادت نے کراچی کو اپنا محکوم رکھنے کے لیے ہمیشہ اسے نظرانداز کیا اور یہاں ترقیاتی کاموں پر توجہ نہیں دی۔ کراچی کے وسائل کو کراچی پر خرچ نہیں کیا گیا۔ کراچی کو ایسا مفلوج بلدیاتی نظام دیا گیا ہے جس نے کراچی کی صورتحال کو مزید ابتر کر دیا ہے۔کراچی کی اس حالت کی صرف  سندھ کی سیاسی قیادت ہی ذمے دار نہیں ہے۔

یہ بھی کراچی کا المیہ رہا ہے کہ کراچی میں مہاجروں کے نام کی سیاست کرنے والی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت نے بھی کراچی کے ساتھ کوئی کم ظلم نہیں کیے ہیں۔ کراچی کا امن تباہ کرنے میں وہاں لاشوں کی سیاست کرنے میں اندرون سندھ کی نہیں کراچی کی اپنی قیادت ہی ذمے دار ہے۔ آج ایم کیو ایم کا بانی لیڈر بھارت میں سیاسی پناہ کی درخواستیں کر رہا ہے جس پر افسوس کا ہی اظہار کیا جا سکتا ہے۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس ساری صورتحال پر بھی کراچی کی سیاسی قیادت نے آج بھی پراسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ جس کے کراچی کی سیاست پر دور رس نتائج مرتب ہوںگے۔ شائد ایم کیو ایم اور کمزور ہو جائے گی۔

ان سب باتوں سے قطع نظر یہ بھی حقیقت ہے کہ اندرون سندھ اور کراچی اور حیدر آباد کے مسائل میں بھی خاصا فرق ہے۔ جیسے شہر اور گاؤں میں فرق ہوتا ہے ایسا ہی فرق کراچی اور اندرون سندھ میں ہے۔ سندھی مہاجرعنصر کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ الطاف حسین یا ایم کیو ایم کی غلطیوں کی سزا کراچی اور اس کے باشندوں کو نہیں دی جا سکتی اس لیے کسی کو کوئی حق نہیں کہ کسی کمیونٹی کے غداریا وفادار ہونے کا فیصلہ صادر کرے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مہاجر، پناہ گزین نہیں بلکہ پاکستانی ہیں اور جو سندھ کے شہر میں رہتے ہیں‘ وہ سندھی ہیں۔ سندھ اور پاکستان کے وسائل پر مہاجر قوم سے زیادہ کسی کا حق نہیں۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ کوٹہ سسٹم نے سندھ کی ترقی میں کوئی قابل قدر کردار ادا نہیں کیا۔ میرٹ سسٹم ہی ترقی کا واحد راستہ ہے۔

اگر پنجاب کی ترقی اور جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے لیے جنوبی پنجاب کے وسطیٰ پنجاب سے انتظامی خود مختاری کی بات کی جا رہی ہے تو شہری سندھ کے حوالے سے ایسا انتظام کیوں نہیں ہو سکتا ہے۔

کراچی کو ایک نئی سیاسی شناخت کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ تشدد اور نفرت نہیں بلکہ اعلی تعلیم و ہنرکراچی کے باشندوں کا اصل سرمایہ ہے۔ تعلیم یافتہ قومیں اپنے علم سے بند دروازے بھی کھول لیتی ہیں۔ کراچی کی انتظامی خود مختاری جہاں کراچی کو ترقی دے سکتی ہے وہاں پاکستان کے لیے بھی ترقی و خوشحالی کی ضامن ہو سکتی ہے۔

ستر سال میں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ کراچی کو انتظامی خود مختاری دیے بغیر نہ تو کراچی ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان ترقی کر سکتا ہے۔اس طریقے سے سندھ کی وحدت بھی قائم رہے گی ‘کراچی شہر بھی ترقی کرے گا اور اندرون سندھ بھی ترقی شروع ہو جائے گی۔کراچی کو ایسے ہی چلایا جانا چاہیے جیسے ممبئی کو چلایا جا رہا ہے۔سیدھی سی بات ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے الگ سسٹم کی ضرورت ہے۔

کراچی کے شہری باشندوں کو بھی سیاست کرنے اور اپنے حقوق کی بات کرنے کا اسی طرح حق ہے جیسا قوم پرستوں کو ہے۔ ویسے بھی کے پی میں بھی ایسی سیاسی تقسیم موجود ہے۔ بلوچستان میں بلوچ اور پشتون کی تقسیم موجود ہے۔لیکن مخصوص سیاسی مفادات کی خاطر سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست کو گالی کو بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

جس کے عمومی طور پر منفی نتائج سامنے آئے ہیں۔ پنجاب میں تو پنجاب کی تقسیم کی باتوں کو گالی نہیں سمجھا جاتالیکن سندھ کی صورت حال مختلف ہے۔ آج پنجاب میں جنوبی پنجاب کی حکومت ہے۔ وزیر اعلیٰ جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقہ سے ہیں۔ جنوبی پنجاب کو انتظامی خود مختاری دینے کے لیے وہاں ایک الگ نیا انتظامی سیکریٹریٹ بنایا جا رہا ہے۔ وسائل کا رخ جنوبی پنجاب کی طرف موڑا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سندھ میں ایسا کیوں ممکن نہیں ہے۔ سندھ میں سندھ کے شہری علاقوں سے وزیر اعلیٰ کیوں نہیں آسکا۔ کراچی کے وسائل کہاں گئے ہیں۔

حالیہ مردم شماری کے بعد کراچی کی یہ شکایت سامنے آئی ہے کہ ان کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی لیے یہ مطالبہ سامنے آیا تھا کہ ان مردم شماری کے نتائج کو دوبارہ چیک کیا جائے۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت کی جانب سے وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ لیکن وعدہ وفا نہیں ہوا ہے۔ اسی لیے یہ بات زور پکڑ رہی ہے کہ کراچی اور شہری سندھ کی آبادی کم دکھائی گئی ہے۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اور جو وعدہ کیا گیاتھااس کو پورا کرنا چاہیے۔ ایسے ابہام قوموں کے لیے اچھے نہیں ہوتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔